جامعہ کراچی

یہ جامعہ کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک / شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

اسلام کے احکام تو موجود ہیں لیکن
مومن ہوتو سر اپنا جھکا کیوں نہیں دیتے

اسلام بحیثیت مجموعی ایک دین فطرت ہے ، اسلام ایک طریقہ زندگی ہے ، اسلام وہ معیار ہے کہ جس سے فرد کی اصلاح مقصود ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے ۔ ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے اس کی زندگی میں آنے کا مقصد متعین کرنے والی اصل راہ ہدایت کا نام اسلام ہے۔

اسلام صرف طریقہ زندگی اور طرز معاشرت ہی نہیں بلکہ اسلام ایک ایسے طرز زندگی ، طرز حیات کا نام ہے کہ جس کو اپناتے ہوئے فرد واحد کی نہ صرف انفرادی اصلاح ہوتی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر پھیلے ہوئے دین اسلام کی وجہ سے امن و آشتی ، محبت اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے .

اسلام کی سلطنت اور قوت جس جگہ بھی گئی ، جن لوگوں نے اس سے فیض اٹھایا ، جو اس عظیم نعمت سے سرفراز ہوئے ، جنھوں نے اسلام کی پررونق بہاریں دیکھیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ اسلام کی بدولت ناصرف یہ کہ ان کے اسلوب طرز معاشرت ، طرز معیشت ، طرزحاکمیت کی اصلاح ہوئی بلکہ ان کے اخلاقیات ، سماجیات ، عمرانیات ، ورثہ اور ان تمام اسلوب میں اسلام کی روشنی نظر آنے لگی۔ ان کارہن سہن ، ان کا اوڑھنا بچھونا ، ان کی تجارت ، زراعت ، ثقافت سب کچھ اس طرح بدلا کہ وہ پہلے سے بہتر زندگی گزارنے لگے . لیکن طاغوتی قوتوں ایک آنکھ نہیں بھایا ۔ اور وہ ہر دور میں اس ثمردار درخت کو کاٹنے کے درپے رہے ہیں۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اسلام سے دکھی انسانیت کو ہر دور میں امن و سکون اور سلگتی انسانیت کو ایک سہارا ایک مرہم نصیب ہوا ہے۔ اس سےنچلے طبقے کے غریب مزدور کسان چھوٹی ذات کے لوگ ذات پات کے بندھن میں بندھے اور سسکتی انسانیت کو ہمیشہ اسلام سے فائدہ نصیب ہوا ہے ۔

اسلام سے اصل خطرہ کس کو ہے ؟

اسلام سےامراء و جاگیردارانہ طبقہ ، فیوڈل لارڈ جدی پشتی امیر اور حکمرانوں کو خطرہ ہوا ہے ، فرعون شداد نمرود ہامان کو اسلام سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے وہ اس لیے کہ ان کی حکمرانی اور حاکمیت اسلام کے باعث خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب غلام اور آقا ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں تو اصل ڈر انہی کو ہوا ہے جن کی حکمرانی اور طاغوتیت کو اسلام نے چھین لیا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا . اور نہ کوئی بندہ نواز

یعنی غلام اور آقا کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے والا طرز معاشرت ، اسلام کے سوا کوئی مذہب کوئی دین کوئی طرز زندگی کوئی طرز معاشرت نہیں دے سکتا۔ وہ اس ڈر سے یا تو عبداللہ بن ابی جیسے بن گئے یا ابو جہل ، ابولہب بن گئے ۔ اسلام سے خائف دراصل وہی لوگ ہیں جو اس آقا غلام کے نظریات کے اسیر آقا اور غلام چھوٹے بڑے ذات پاک کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں ، جو برسوں اور نسلوں سے جاری اپنی ناجائز حکمرانی اور جائیدادوں اور وراثت کو اپنے تک محدود رکھتے ہیں ، جو اپنی عمارت کو اپنی جاگیر سمجھ کر انسانیت کی تذلیل کرتے رہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آج بھی اگر انسانیت دکھی ہے ، ظلم و ستم جھیل رہی ہے تو اس کی اصل وجہ اسلام کے احکامات سے دوری ہے۔

ہم سب یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام جب تک نیک ، مخلص اور خوف خدا رکھنے والے نڈر ، دلیر رہبروں کے ساتھ عالم اسلام کی رہنمائی کرتا رہا اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ نہ صرف یہ کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ نے وسعت اختیار کی بلکہ تمام عالم اسلام ، ملت اسلامیہ میں محبت بھائی چارے کی فضاقائم رہی ۔ امن و سکون موجود رہا۔ حضرت عمر کا قول آج بھی بہترین عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ اگر دریائے فرات کے سامنے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر جاتا ہے تو روز قیامت عمر اس کے لیے بارگاہ الٰہی میں جواب دہ ہوگا۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسلام جب تک عادل حکمرانوں کے درمیان رہا ہوں پھلتا پھولتا رہا اور اپنی بہاریں دکھا تا ہے لیکن جیسے ہی طاغوتی قوتوں کے نرغے میں پھنسے غدار مسلمانوں کے روپے پیسے ، اقتدار ، جائیدادیں ، دنیاوی مال و متاع اور دنیاوی ہوس کی بھینٹ چڑھا وہیں سے اسلامی حکومتیں رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوتی چلی گئیں۔ ریاستوں میں غدار وطن اور ننگ وطن مسلمانوں پلتے رہے ۔ ان کی بدولت اسلامی ریاستیں طاغوتی ریاستوں کا روپ دھارتی چلی گئیں ۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں کا مرکز خلافت عثمانیہ انہی ریشہ دوانیوں کی بدولت ریزہ ریزہ ہوگیا۔ جس کا دکھ آج تک تمام مسلمانوں کے دل میں موجود ہے ۔

اسلام کے اصل دشمن ملحدین ہی ہیں ، جن کا خیال ہے کہ دنیا کسی خدا نے نہیں بنائی بلکہ خودبخود وجود میں آئی ہے یا پھر پہلے سے موجود تھی اور مختلف اشکال میں ہمیشہ موجود رہے گی ۔ ملحدین صرف ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی یا سائنسی ثبوت ہو ۔ اس کے علاوہ سائنس اور دنیاوی علوم کو ہی سب کچھ مانتے ہیں

دہریت / ملحدیت کے الفاظ لغوی معنوں کے اعتبار سے ایسے مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں کہ جب کوئی خالق کی تخلیق سے انکاری ہو اور زمان ( وقت ) کی ازلی اور ابدی صفت کا قائل ہو ؛ یہ لفظ دہریت کا وہ مفہوم ہے جو قرآن کی آیات سے ارتقا پاکر اور مسلم فلاسفہ و علماء کی متعدد تشریحات کے بعد خاصے وسیع معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے اور اس کے تخلیق سے انکاری مفہوم سے منسلک ہونے کی وجہ سے مذہب سے انکاری ہونے کے معنوں میں بھی استعمال میں دیکھا جاتا ہے؛

اسے عموماً انگریزی میں atheism کے متبادل لکھ دیا جاتا ہے جبکہ لغتی معنوں میں atheism کا درست اردو ترجمہ لامذہبیت (یا فارسی عبارت میں ناخدائی) کا آتا ہے؛ لفظ دہریت بذات خود سیکولرازم اور یا materialism سے زیادہ نزدیک ہے۔ لفظ دہریت سے ہی اس کے شخصی مستعملات یعنی دہری اور دہریہ کے الفاظ بھی ماخوذ کیے جاتے ہیں دہری بعض اوقات صفت کس ساتھ ساتھ اسم کی صورت میں آتا ہے؛ اور ان ماخوذ الفاظ سے مراد دہریت سے تعلق کی ہوتی ہے یعنی دہریت کی حالت میں مبتلا شخص دہریہ کہلایا جاتا ہے ۔

جو تعلیم باقاعدہ کسی تعلیمی ادارے یعنی سکول، کالج، مدرسہ یا یونیورسٹی میں حاصل کی جائے اسے رسمی تعلیم کہتے ہیں۔ ہر معاشرہ کچھ ایسے تعلیمی ادارے قائم کرتا ہے جہاں تعلیم ایک نصب العین اور نظریات کی روشنی میں تیار کردہ نصاب کے مطابق دی جاتی ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام چار طرح کے تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے جس میں پرائمری، مڈل، ثانوی و اعلی ثانوی اور یونیورسٹی سطح کی تعلیم شامل ہے ۔ پہلی سے پانچویں تک کی تعلیم کو پرائمری، پانچویں سے آٹھویں تک کو مڈل، نویں اور دسویں جماعت کی تعلیم کو ثانوی، گیارہویں اور بارہویں کو اعلیٰ ثانوی جبکہ اس سے اعلی سطح کی تعلیم کو یونیورسٹی کی تعلیم کہا جاتا ہے۔

مغربی روشن خیالی کے اہداف و مقاصد جنہوں نے مغربی معاشرہ کو متاثر کیا، اب خصوصی طور پر اسلامی معاشرہ ان کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ان اہداف کے ذریعے ذہنی ، تہذیبی اور اخلاقی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہے ۔ ان تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر تعلیمی اداروں پر ہوا ہے ۔ آزاد خیالی کی تحریک نے جہاں عالم اسلام کو دیگر شعبہ ہائے حیات میں متاثر کیا وہاں نظام تعلیم بھی اس کی دسترس سے نہ بچ سکا۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ نظام تعلیم روشن خیالی کا خاص ہدف رہا تاکہ ایک ایسی نسل تیار کی جاسکے جو اپنے مخصوص نظریہ حیات سے لاعلم ہو۔ اس قسم کی مادی تعلیم کا انتظام کیا جائے جس سے مادی ترقی تو کی جاسکے لیکن اخلاقی لحاظ سے یہ قوم بالکل دیوالیہ ہوجائے۔

ہمارے ہاں مروجہ نظام تعلیم اس لئے قائم نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کے کلچر کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں بلکہ اس کے پیش نظر ایسے لوگ تیار کرنا ہے جو دین سے بیزار ہوں اور محض مادی ترقی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے بغیر اخلاقی اقدار کے آگے بڑھتے جائیں۔ اس طرح کے لبرل و سیکولر نظام تعلیم نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔

ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ ہم اسلام کے نام پر قائم ہونے والی واحد ریاست ، مدینہ ثانی کے باشندے ہیں ۔ اور ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم عبادات اور شخصی معاملات میں تو کسی حد تک اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں لیکن اجتماعی نظام کو ہم نے دین حق سے آزاد کر دیا ہے۔ معاشی بے انصافی اور اقتصادی استحصال کی اساس سود ہے۔

ہمارے عقیدے اور آئین پاکستان کا تقاضا تو یہ تھا کہ سود کی لعنت سے ہمارا ملک پاک ہوتا لیکن یہاں لادین حکمران طبقہ اور مغرب کی فکری غلامی کے اسیر سود کے حامیان نے کبھی ایسی کوشش تک نہیں کی ۔ کچھ یہی حال ہمارے تعلیمی اداروں کا بھی ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قلب کراچی اور اس میں موجود تعلیمی اداروں کا بھی حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ لبرل ازم کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ خدا سے انکاری اساتذہ اور معلمات کو خصوصی مراعات دی جاتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ حال جامعہ کراچی کا بھی ہے جو پاکستان کی سب سے بڑی جامعات میں سے ایک ہے۔ جو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی جامعات کی اعلیٰ ترین درجہ بندی میں شامل ہے ۔ جامعہ کراچی پاکستان کی دیگر جامعات سے منفرد اس لیے ہے کہ یہاں ہر قوم اور زبان سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔

ملک میں ویسے ہی سرکاری جامعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔اور جو ہیں ان پر کن لوگوں کی اجاراداری قائم کی جارہی ہے آئیے ! دیکھتے ہیں ۔ جامعہ کراچی میں کسی دور میں لبرل ازم بہت عام تھا لیکن جب جامعہ اور جمعیت ساتھ ساتھ چلے تو دنیا نے دیکھا یہاں برقعہ اور داڑھی اس قدر عام ہوگیا کہ شاید ہی جامعہ کی کوئی جماعت ایسی ہو جہاں آپ کو برقعے والی باحجاب طالبات اور داڑھی والے لڑکے نظر نہ آئیں ۔ قارئین کو وہ دور بھی یاد کراتی چلوں کہ جب اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی نہیں تھی ۔ اسی جامعہ سے پڑھے بہت سے نوجوانوں نے حکومتی باگ ڈور سنبھالنے میں حکمرانوں کا ساتھ دیا۔

جب سے طلبہ یونین پر پابندی عائد ہوئی ، اساتذہ اپنی مرضی کے بھرتی کئے جانے لگے ۔ کوٹہ سسٹم کو میرٹ پر فوقیت دی جانے لگی۔لبرل ازم کوسرکاری تعلیمی اداروں میں باآسانی پھلنے پھولنے کاموقع ملا ۔ جہاں میرٹ کا خون ہوا وہیں بہت سے اساتذہ کا روپ بھی بدل گیا ۔ اب اساتذہ صرف ایک مشفق استاد ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار تنہائی کے ساتھی بھی ہونے لگے ۔

اساتذہ کے نہ صرف یہ کہ کمرے کشادہ اور وسیع کردئیے گئے بلکہ اساتذہ کے کمروں میں لاک سسٹم ، صوفہ کم بیڈ ، اے سی اور بعض اوقات تو بڑے بڑے پردے تک آویزاں کردیئے گئے ۔ اب بہت سے اساتذہ اپنی کلاسیں لینے کلاس روم میں نہیں آتے بلکہ طالبعلموں کو اپنے کمروں ہی میں بلوا لیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ بڑے آرام دہ کمروں کے باعث آسان ہوگیا ۔ کسی پر کسی قسم کی کوئی گرفت نہیں ہے ۔ آواز اٹھانے والے بھی کسی نا کسی طرح خاموش کرادیئے جاتے ہیں۔

لبرل اور اساتذہ ملحد اساتذہ دوسری جامعات سے لاکر یہاں بسائے جارہے ہیں ۔ ملحد اساتذہ کرام کے لئے آج کل جامعہ کراچی ایک زبردست جگہ ہے ۔ بعض اوقات دوسری جامعات کے ریٹائر ملحد اساتذہ یہاں بلوا لئے جاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا ناصرف یہ کہ اثر و رسوخ ہوتا ہے بلکہ یہ کہ اسلام پسند اساتذہ کو نیچا دکھانے یا انہیں ریٹائرمنٹ کے فوری بعد گھر بھیج دیئے جانے پر ان کے ہی تجربے اور تعلیمی قابلیت والا ملحد استاد ان کی جگہ لینے آن موجود ہوتا ہے تاکہ با آسانی اس اسلام پسند استاد کی جگہ ایک ملحد استاد لے سکے ۔ کچھ اسلام پسندوں کےبھیس میں ان ملحد اساتذہ کرام کی پشت پناہی کرنے والے اساتذہ بھی موجود ہیں جن کے باعث ان ملحدوں کے لئے ہر راہ آسان اور ہر سفر پرسکون ہوگیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ وہ استاد ناصرف یہ کہ بچوں کو دینی تعلیم و دینی روایات سے دور کررہے ہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس نظریہ پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے بھی درپے ہیں۔

بہت سے شعبہ جات میں مطالعہ پاکستان کے ابواب کے دوران لیکچرار کو یہاں تک کہتے سنا گیا ہے کہ پاکستان ایک غلطی کی بناء پر وجود میں آیاہے ۔ یہ ہمارے بزرگوں کی غلطی تھی جس کے باعث بے انتہا انسانی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ پاکستان ایک نظریے کی پیداوار ہے اور آج تک مدینہ کے بعد پاککستان ہی وہ واحد اسلامی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے ۔ اسی کے باعث ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں ۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی ایسے کیا جاتا ہے کہ بنگال اور مغربی پاکستان کبھی ایک ہو ہی نہیں سکتے تھے ۔ کیونکہ وہ ہر لحاظ سے مغربی پاکستان سے مختلف تھے۔

اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے ، تعلیمی اداروں میں اسلام کے نفاذ کی کوششیں کرنے والوں کی مدد فرمائے تاکہ وہاں سے اسلام کے درست نام لیوا تیار ہوسکیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں