ڈاکٹر خولہ علوی
؎ مہتاب ہیں، گلاب ہیں، صندل ہیں بیٹیاں
باد صبا ہیں ، خوشبو ہیں ، بادل ہیں بیٹیاں
میں ایک بیٹی ہوں اور الحمد للّٰہ مسلمان ہوں ۔ اسلام نے مجھے وہ مقام و مرتبہ ، عزت و وقار اور تحفظ عطا کیا ہے جو کسی اور مذہب یا تہذیب نے اپنے پیروکاروں کو نہیں دیا۔میرے خوبصورت دین نے بحیثیت بیٹی مجھے بیٹے کے برابر حقوق دیے ہیں اور والدین کو بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق کرنے سے منع کر دیا۔
دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے والے باپ ، بھائیوں کوصحیح اسلامی تعلیم و تربیت کرنے کی وجہ سے بہشت بریں کی خوشخبری دی ہے۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ نے جنت میں اپنی ہمسائیگی کی خوش خبری دی ہے۔ اپنی سگی بیٹیوں سے محبت اور ان کی عزت و تکریم کرکے والدین خصوصاً والد کو مجھ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے اور مجھے رحمت سمجھنے کا عملی درس دیا ہے۔فداہ ابی و امی۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
بیٹے، بیٹیاں تو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ جسے چاہے ، جس نعمت سے نواز دے۔ انسان کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ترجمہ: “(تمام) بادشاہت اللہ ہی کی ہے، آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، وہ بیٹے بخشتا ہے۔”۔(سورۃ الشوریٰ: 49) اس لیے کسی کو بیٹی کی پیدائش اور اس کے وجود پر کوئی شرمندگی یا پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔
؎ مہکتا رہتا ہے دل کا جہان بیٹی سے
زمانے بھر میں بڑھی میری شان بیٹی سے
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں ایک نہایت ظالمانہ رسم چلی آرہی تھی کہ بعض قبیلوں میں مجھ بیٹی کی پیدائش کے بعد باپ نہایت ناخوش اور پریشان ہوتے تھے۔ اور مجھے زندہ درگور کر دیتے تھے۔ اِس رسم کی بنیاد نام نہاد غیرت پر مبنی تھی کہ کل ہمیں کسی کو اپنی بیٹی دینی نہ پڑے ، کوئی ہمارا داماد بن نہ سکے اور کسی کے سامنے ہماری نظریں جھک نہ سکیں۔اس کے علاوہ جنگوں میں بیٹیوں کے لونڈیاں بن جانے کے خوف سے بھی وہ بیٹیوں کو زندہ قبر میں دفن کر دیتے تھے ۔ اسلام نے اس فعل کو نہایت افسوسناک، قابل مذمت اور کبیرہ گناہ قرار دیا۔
قرآن کریم میں ان واقعات کی منظر کشی یوں کی گئی ہے کہ: ترجمہ: “اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی (پیدا ہونے) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا چہرہ (افسوس کی وجہ سے) کالا سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دکھ سے بھر جاتا ہے۔”۔ (سورۃ النحل: 58) سورۃ التکویر میں ارشاد ہوتا ہے کہ ترجمہ: ” اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔”۔ (سورۃ التکویر: 8، 9)
اللہ رب العزت اس سنگ دل باپ سے اتنا ناراض ہوں گے کہ اس کی طرف دیکھنا اور اس پر نظر رحمت کرنا بھی گوارا نہیں کریں گے بلکہ اس کی زندہ گاڑی ہوئی بچی سے اس بارے میں سوال پوچھیں گے۔
میں اپنے بارے میں سوچتی ہوں کہ کہاں اسلام سے قبل باپ بھائیوں کے نزدیک میری بدترین حالت تھی ! اور میں کتنی نامبارک اور منحوس سمجھی جاتی تھی ! لیکن ۔۔۔ اسلام نے مجھے میرے حقوق عطا کر کے مجھے معتبر کر دیا ہے ! مجھے سربلندی سے نواز دیا ہے!
میرے پیارے دین نے میری عبادات اور اعمال صالحہ کو مرد کے برابر اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ حتیٰ کہ شادی جیسے اہم ترین اور حساس معاملے میں بھی میری پسند و ناپسند اور مفاہمت کو مکمل اہمیت دی ہے۔
مجھے بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ میرے ولی کو حکم دیا کہ وہ مجھے شادی کرنے سے نہ روکے بلکہ اس معاملے میں میری مدد کرے اور مجھے بھرپور سپورٹ کرے ۔ اس کے علاوہ مجھے گواہی دینے کا حق دلوایا ۔ مجھے وراثت میں حصہ دلوایا ۔ میرے قتل کی صورت میں میری دیت مقرر کی ۔ غرض مجھے میری حیثیت میں بہترین مقام دلایا ہے۔
تو میں اپنے ماں باپ کی شکر گزار ہوں لیکن اس سے پہلے اللہ تعالی کی شکر گزار ہوں جس نے میرے لئے دنیا میں آسانیاں اور بھلائیاں فراہم فرمائیں ، میرے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ کے دل میں میری محبت پیدا کی اور مجھے معاشرے میں عزت عطا فرمائی۔ الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔
؎ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الااللہ
2 پر “مسلمان بیٹی کے جذبات و احساسات” جوابات
بہترین تحریر قنتہ بہن اللہ آپکے قلم میں روانی دے
ماشاءاللہ بہت خوب