ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

ہماری اہم خبریں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

بہار آگئی ہے۔۔۔ اور ایک قصبے میں رہنے کا لطف یہ ہے کہ لنچ کے اوقات میں کرونا وائرس اور تم کون سی گاڑی یا گھر خرید رہے ہو کہ علاوہ ایک اہم موضوع حملہ آور میگ پائیز بھی ہیں۔
جی ہاں سارے علاقے میں چہل قدمی کے کئی راستے بنے ہیں جن میں سے ایک راستے پر جو دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے کچھ غصیلے میگ پائیز کا بسیرا ہے۔۔ یا انہیں ویسے ہی غصہ آیا ہوا ہے۔۔۔
جو اس راستے سے گزرتا ہے ، اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ کیا پیدل کیا سائکل سوار کوئی ان کی خفگی سے محروم نہیں۔ لوگ باگ ایک دوسرے کو ہیٹ پہن کر جانے کے مشورے دے رہے ہیں۔

ہمارے خاندان کے تقریبا تمام افراد کو اس کا ذاتی تجربہ ہوچکا ہے۔ صرف ہم اور ابراہیم بچے ہوئے ہیں۔

کچھ روز قبل ڈھلتی ہوئی پرسکون شام میں چہل قدمی کے دوران یہ میگ پائی کسی لڑاکا ہوائی جہاز کی مانند نچلی پرواز کرتے شوووووں سے صاحب پر حملہ آور ہوئے، پلٹے پھر آئے ، اگلی مرتبہ پھر آئے۔ شہزادی صاحبہ سے بھی دو دو ہاتھ ہوچکے ہیں البتہ ہم ساتھ موجود تھے اس کے باوجود ہم سے معاملہ کرنے سے گریز کیا۔

ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری دل ربا، باوقار اور باحجاب شخصیت کا رعب تھا کہ ہمارے پاس سے مودبانہ گزر گئے ۔ یہی بات ہم نے اپنی ان کافر کولیگز کو سمجھائی اور ہماری اکیوپیشنل تھیراپسٹ نے کہا کہ وہ بھی واک کو جاتے ہوئے اسکارف پہن کر جائیں گی۔ اب خدا ہی ہمارا مان رکھے۔ کعبہ بھی اس کا تھا ، حجاب بھی اسی کا۔۔

دوسری طرف ابراہیم میاں اس التفات سے محرومی پر مچل مچل گئے ۔ بہانے بہانے سے اسی مقام پر ٹہلتے ہیں ۔ پرندوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب ان انگریزی کوؤں کے کزنز نے انہیں درخورِ اعتناء نہ سمجھا تو اس توہین پر روپڑے۔ یحیی نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر نہ مانے۔

اسپتال میں ایک دوسرے کی چہل قدمی یا بائیکنگ روٹین پر گفتگو کرتے بار بار میگ پاییز کے حملوں کا تذکرہ اور تنبیہات سنتے ہمارا اعتماد بحال ہوا۔ ورنہ صاحب کا خیال تھا کہ گوروں کے دیس میں ہم کتھئی رنگت والوں کو امتیازی رویے کا سامنا ہوتا ہے یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ الحذر۔۔ الحذر۔۔ کہ اب پرندے بھی ریسسٹ ہونے لگے۔

صاحب کا اکثر یہی خیال ہوتا ہے۔ مثلا علاقے کے اکلوتے شاپنگ سینٹر میں داخلے پر جب ہمیں پولیس نے روکا کہ جب ایک کی اجازت ہے تو دو کس خوشی میں منہ اٹھائے مال کی طرف بڑھے جارہے ہیں تو صاحب کا یہی خیال تھا کہ اس کی وجہ ہماری رنگت اور حلیہ ہے۔
اب ہم ان کو لاکھ جتاتے رہے کہ وہ جو دو سامنے اور دو پیچھے روکے گئے تھے وہ خاصے سے زیادہ اور اصلی اور کھرے گورے تھے مگر صاحب ہر مرتبہ ہمارے کچھ کالم نگاروں کی طرح کوئی اور آرگومنٹ لیے آتے تھے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ ضرور ریسزم کا شاخسانہ ہے۔

ہماری سنیے۔۔ جب پولیس نے ہم سے کہا ۔۔
“We’re making sure that only one member of a family enters the mall in a day”.
تو ہم ایسے بن گئے جیسے انگریزی نہ آتی ہو ۔ خالی خالی نگاہوں سے کبھی پولیس والے صاحب کو دیکھتے اور کبھی اپنے غیر پولیس صاحب کو۔ غور سے ہوں دیکھتے جیسے کچھ سمجھ نہ آتا ہو کہ بھائی کہہ کیا رہے ہیں
ہمارے والے نے دھیرے سے ہمیں کہا۔۔
“آپ گاڑی میں جاکر بیٹھیے۔۔”

ہم نے دوسرے گوروں پر نظر ڈالی۔ وہ ان سپاہیوں کے ہم زبان ہونے کے باوجود طویل گفتگو کو یوں دھیان سے سن رہے تھے جیسے پہاڑی کا وعظ ہورہا ہو۔ اور اس طویل مکالمے کے بعد بھی سر ہلاتے شاپنگ سینٹر کی طرف بڑھ گئے۔
اتنی عقل تو ہمیں بھی ہے۔

خالی خالی نظروں سے سپاہیوں کو دیکھا۔ صاحب سے کنفیوزڈ گفتگو کی ۔ دو قدم پیچھے ہوئے اور پھر کھوئے کھوئے سی حالت میں آگے بڑھ کر شاپنگ سینٹر میں داخل ہوگئے۔
ہمارے صاحب نے عالم بے بسی میں ہمیں دیکھا اور پولیس والے صاحب کو دیکھا۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے میری بات!

گمان یہی ہے کہ سپاہی نے بھی ہمدردی سے صاحب کو دیکھ کر ان کا کاندھا تھپتھپایا ہوگا ۔ اور ہمارے صاحب بڑی سخت پریشانی کے عالم میں ہمیں سنبھالنے اور سمجھانے کو ہمارے پیچھے مال میں داخل ہوگئے ۔ ہم نے اسی کھوئی کھوئی حالت میں بحث مباحثہ کرکے اشیاء خریدیں اور ان کے حوالے کر کے بظاہر ایک ٹرانس کی حالت میں گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔

یہ تاحال شاپنگ سینٹر تک ہمارے واحد سفر کی روداد ہے ۔ اور پہلی ہی مرتبہ میں دھر لیے جانے کا سبب ہمارے صاحب کے نزدیک ہماری رنگت اور ہمارا حلیہ ہے ۔
ہم البتہ خوشی خوشی گھر کو لوٹے۔

زندگی میں دو ہی مرتبہ پولیس سے دو دو ہاتھ کیے ہیں ۔ ایک تو یہی اور دوسرا ریلوے سٹیشن پر ۔ اس روز عام لوگوں کا لاک ڈاؤن ختم ہوا تھا۔ اور اسی سبب خلاف معمول ٹرین میں خاصا رش تھا۔ ٹرین سے اتر کر ہم نے ماسک نوچ پھینکا ۔ گویا خوشی سے نعرہ لگایا ہو۔۔
“فریڈم !!!!!”
اور چند قدم آگے ہی سپاہی نے روک لیا۔

ہم نے چاروں طرف دیکھا۔ کھچاکھچ بھرے اسٹیشن پر انسانوں کے ہجوم میں ہمارا روئے تاباں ہی ماسک سے محروم تھا۔
Where’s your mask?
ہم نے پس ان بوٹس کی طرح منہ لٹکا کر کہا۔۔۔
O, I dropped it..
اس نے غور سے ہمیں دیکھا ۔
So, you dropped it? Are you taking another train?
ہم نے اس کو “بھائی نئیں ہیں؟” قسم کی نظروں سے دیکھ کر کہا۔۔
No this is my station.. I’m heading home now after a long day’s work.
گورا سپاہی ہماری نظروں کی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹ گیا ۔

اور ہم نے مسٹر بین کی طرح یوں گردن اکڑا کر سب پر فخریہ نگاہ ڈالی گویا۔۔ نوآبادیاتی دور کا انتقام لے لیا ہو ۔ اور ایک استعماری پرزے کو احمق بنا کر فاتحانہ لوٹ رہے ہوں۔
ہمیں دنیا کے خیر و بد اور ہنگاموں کی خبر نہیں ۔۔ ہمارے پاس تو یہی اہم خبریں ہیں۔۔۔
Perks of being a town dweller ❤️


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ہماری اہم خبریں”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    This a good piece of writing but most of
    the people can’t enjoy it because of
    Few terms like
    میگ پائیز )نیل کنٹھ یا نیل کنٹھ جیسا پرندہ یا ایک گدھ اور کوے کی طرح کا ٹھنڈے علاقوں کا پرندہ
    پس ان بوٹس یعنی puss in boots ایک مشہور کارٹون بلی کا کردار جس کی فلم بھی ھے۔۔۔ایک قسم کی folk tale کہہ لیں۔