فیمان علی
چترال سے تقریباً چالیس کلومیٹر کی دوری پر ایک چھوٹا سا قصبہ دروش آتا ہے۔ اور دروش سے چودہ \ پندرہ کلومیٹر کی مسافت پر افغانستان کی سرحد پر ایک وادی جنجریت کوہ کے نام سے واقع ہے ۔ دروش سے چھ کلومیٹر کی مسافت پر گاؤں جنجریت واقع ہے اور جنجریت سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر زمین پر جنت کا ٹکڑا جنجریت کوہ موجود ہے ۔ یہ وادی بالکل ڈیورنڈلائن پر ہے ۔ اس وادی کے آخری گاؤں سے افغانستان کے پہلے گاؤں کا نظارا کیا جاسکتا ہے۔ وادی سطح سمندر سے تقریباً چھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔
جنجریت سے جنجریت کوہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اک طرف ہندوکش کے بلند پہاڑ اور دوسری طرف کھائی میں بہتی چاندی سی ندی کا نظارہ میسر ہے۔ رستے میں صاف پانی کے چشمے بڑی تعداد میں ملتے ہیں ۔ پھلوں کے موسم میں یہ وادی شہتوت ، خوبانی ، اخروٹ ، سیب ، بادام اور انگور جیسی نعمتوں سے نوازتی ہے۔
کالاش روایات بیان کرنے والوں اور کچھ تاریخ دانوں کے مطابق سارے چترال پر کالاش قبیلے کی بادشاہت تھی جو 14ویں صدی میں ختم ہوگئی۔ جنجریت کوہ سمیت اور بھی کئی وادیوں میں کالاش قبیلے کے لوگ رہتے تھے جو تقریباً بیسویں صدی کے تیسری دہائی تک مسلمان ہو گئے۔
آج کالاش قبیلے کے یہ لوگ صرف چترال کی تین خوبصورت وادیوں ( رمبور، بریر، بمبوریت) میں بستے ہیں۔ ایک مقامی تنظیم کے مطابق اِن لوگوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب ہے ۔ اب یہاں کے مسلمانوں کو "شیخان” کہا جاتا ہیں ۔ وادی کے ایک گاؤں”شیخاندہ” میں کبھی کالاش قوم کے پانچ کوٹ ( دفاعی مینار ) ہوا کرتے تھے ، جو تین منزلوں پر مشتمل تھے اور جب لال کافر ( نورستانی ) ان پر حملہ کرتے تو یہاں کے لوگ اِن کوٹوں میں جاکر اپنی حفاظت کرتے تھے ۔ آج اِن پانچ کوٹوں میں سے صرف دو کوٹ محفوظ یا شاید موجود ہیں ۔ اِن میں سے ایک کوٹ میں اب بھی کالاشیوں کا کچھ سامان موجود ہے۔
جنجریت کوہ ایک کشادہ اور سر سبز وادی ہے ۔ وادی کے وسط میں دریا بہتا ہے ۔ مقامی لوگوں نے دریا پار کرنے کے لیے درختوں کے تنے رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کا پیشہ کھتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ صرف چند لوگ ہی حصولِ روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
وادی میں تعلیم تک رسائی صرف میٹرک تک ہے ، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ صحت اور سیاحت کے حوالے سے کوئی سہولت میسر نہیں ۔ جب تک کوئی مقامی دوست ساتھ نہ ہو اس وادی میں داخلہ مشکل ہے۔ کیونکہ اس وادی میں کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہائوس نہیں ہے۔
2 پر “جنجریت کوہ : چترال سے 55 کلومیٹر دور جنت کا ٹکڑا” جوابات
بہت شاندار معلومات سے بھرپور تحریر۔۔۔۔۔
یہ بات قابل مسرت ہے کہ پاکستانی نوجوان اپنی ثقافت و ورثے کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ فیمان علی نے نہایت کم عمری میں اپنے والد پروفیسر ڈاکٹر کاشف علی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے خوابوں کو تعبیر بخشی ہے۔ آپ دونوں کو دل اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کہ آپ دونوں اسی طرح ملک پاکستان کے خوبصورت پہلو ہم پاکستانیوں کے سامنے پیش کرتے رہیں۔