نگہت حسین :
پہلے یہ پڑھیے
ہوم سکولنگ : چند سوچنے کی باتیں ، کچھ کرنے کے کام ( پہلا حصہ )
بچے کو کس عمر سے اسکول داخل کروانا چاہیے ؟
اس مرحلے پر خود سے پوچھنا چاہیے کہ بچے کو اسکول داخل کروانا ہی کیوں چاہیے ؟
کیا سوچ ہے کہ بچہ اسکول جائے ؟
پھر اچھے اسکول کی تلاش ہے تو ۔۔۔۔۔اچھا اسکول کسے کہتے ہیں ؟
اچھا اسکول کا تصور بھی پورا ایک ذہنی غلامی اور ہماری نظریاتی غربت کی تصویر ہے۔( ایک علیحدہ موضوع بھی )
اس کے بعد کس عمر میں بچہ اسکول جائے ؟
ڈیڑھ سال کا بچہ اسکول جائے کہ پانچ سال کا ؟ ۔
اچھے اسکول کے لئے تو بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی رجسٹریشن کروادی جاتی ہے تاکہ بچہ اچھے اسکول میں داخلے سے محروم نہ ہو جائے ۔
کچھ مستثنیات کے ساتھ اکثریت کی جانب سے عمومی طور پر بظاہر بچے کو اسکول تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بھیجا جاتا ہے لیکن پس پردہ سوچ بچے سے جان چھڑانے اور اپنے آپ کو فارغ کرنے کی ہوتی ہے ۔چلو اسکول جائے تو ہم بھی سکون کا سانس لیں ۔
اس کے بعد ہر سرگرمی بچے کو گھر سے باہر رکھنے اور اپنے سے دور رکھنے کے سو جتن پر مبنی ہوتی ہے ۔۔۔۔
اسکول ، ٹیوشنز ، قاری صاحب ، کے بعد کارٹونز اور پھر کھلا پلا کر سلا دینا ۔
میرے بچے کا آئیڈیل روٹین سیٹ ہوگیا سارے غم دور ہوگئے اور سب مطمئن ہوگئے ۔اس روٹین پر بات ایک علیحدہ موضوع ہے اس وقت صرف اسکول پر رہتے ہوئے بات کرتے ہیں کہ
کسی زمانے میں ہوسکتا ہے کہ اسکول تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز مانے جاتے ہوں اور والدین صرف تعلیمی حوالے سے کچھ صلاحیتوں کے حصول کے لئے ہی بچوں کو اسکول بھیجتے ہوں لیکن اب والدین نے اسکولوں کو خود تعلیم تربیت ، نظریات خیالات اور ہر طرح کی پرورش کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور یہ سب خود بہ خود hidden curriculum کی وجہ سے ہوتا بھی ہے چاہے آپ کوشش کریں یا نہ کریں ۔
ابتدائی عمر میں بچے کو اپنے آپ سے دور رکھنا ہماری اولین ترجیح ہوتی ہے ۔اس صورت حال میں جس کے بچے جتنے زیادہ ہاتھ سے نکلتے جارہے ہوتے ہیں وہ بچے کو قریب کرنے کے بجائے اور دور یعنی بورڈنگ اسکول تک کی سوچنا لگتا ہے ۔یعنی سوئی ہر صورت اسکول ہر ہی اٹکی ہوتی ہے ۔
اس سوچ کے ساتھ اسکول اگر مافیا بنے ہیں تو اس کی وجہ اسکول نہیں ہم خود ہیں ۔ ہم نے خود ہر چیز کو پیسوں کے بدلے خریدنا چاہا ۔۔۔ تربیت ، اخلاق و کردار حتی کہ ایمان تک ، ہم چاہتے ہیں کہ مولوی کو فیس ادا کردی جائے اور ہمیں ایمان مل جائے ۔
لہذا طرح طرح کی مذہب ، تعلیم ، تربیت ، انگریزی وغیرہ سے متعلق دکانیں اسکول و دیگر اداروں کے نام سے کھلتی جاتی رہیں اور ہم لٹتے رہے ۔
ہم نے اپنا کردار اور اپنی ذمہ داری کسی اور کو دی نقصان سامنے ہے ۔
یہ بھی پڑھیے
کیا بچوں کے لئے ہوم اسکولنگ بہتر ہے؟
ہوم اسکولنگ ہو یا اسکولنگ دونوں بچے کے لئے ایک مخلص والدین اور صحت مند ماحول کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔دونوں سے اچھے نتائج بھی نکل سکتے ہیں اور برے بھی ۔دونوں کے بنیادی کردار والدین اور گھر ہے ۔اس لئے ابتدائی عمر میں خاص طور پر صرف اور صرف ہوم اسکولنگ کا ہی آپشن قبول کرنا چاہیے ۔
اب اس ضمن میں کچھ غور طلب باتیں جو ہمیں ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ ابتدائی عمر میں بچے کے لئے اسکول کے بجائے گھر کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنانا ( ہوم اسکولنگ ) کیوں ضروری ہے ۔۔۔۔
اول : بچے کی تربیت کا مرکز گھر ہے جہاں اس کا ہر رشتے کے ساتھ ایک تعلق ہے .تربیت کی ذمہ داری گھر کے افراد اور والدین کی ہے ۔
دوم : ابتدائی عمر یعنی پیدائش سے لے کر کم ازکم چھ سال اور سات آٹھ سال تک بچے کو گھر پر اور ماں کی قربت دینا بچے کا حق ہے ۔اس لمس تعلق اور محبت کے مثبت اثرات کی چھاپ ساری زندگی بچے کی شخصیت پر رہتی ہے۔
.سوم : پیدائش سے پانچ چھ سال بچے کی شخصیت سازی، موڈ مزاج ، اور فطری صلاحیتوں کی نشوونما ، اس کی تخلیقات ، تخیلات کے حوالے سے قیمتی ترین سال ہیں۔جن کو اسکول بھیج کر ضایع کردیا جاتا ہے ۔جہاں بچے کو محدودیت ، اور جمود کا عادی بنایا جاتا ہے ۔
اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنے کے جو مسائل اور خرابیاں ہیں وہ بالکل حقیقی ہیں خاص طور پر جب کسی پیسہ کمانے والی جاہل مافیا کا ادارہ ہو اور تعلیمی نفسیات سے بالکل نابلد بھی ہو۔
اس لئے اگر آپ ہوم اسکولنگ کی شرائط پوری کرتے ہیں یا کوشش کر سکتے ہیں تو ہوم اسکولنگ ہی کریں ۔
بصورت دیگر گھر پر بچے کا نقصان کرنے سے بہتر ہے کہ کسی ابتدائی تعلیم کے ماہر باشعور اور مخلص استاد کی مدد لے لیں یا ادارے کی۔لیکن اس کے باوجود آپ کا کردار لازم و ملزوم ہے ۔اس کے بغیر ہر کوشش کا نتیجہ صفر ہے یا منفی ہے۔
2 پر “ہوم سکولنگ : چند سوچنے کی باتیں ، کچھ کرنے کے کام ( دوسرا حصہ )” جوابات
حیرت ھے کہ اتنے اچھے موضوع اورسوچ کو ابھارنے والی تحریر پر کمنٹس نظر نہیں آئے ۔ یہ بہت اچھا موضوع ھے، اس کی ترویج ضروری ھے۔ ایک بات مضمون کےحصہ اول اور دوم میں بار بار دہرائی گئی ھے کہ مائیں خود کو سمجھ کر اپنا مزاج اور ماحول جان کر ہوم سکولنگ کا فیصلہ کریں ۔یہ بہت اہم بات ھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے کٹر یہودی ، شعور کے بہت اگلے لیول پر مسلمان اور کیتھولک عیسائی اپنے بچوں کی ہوم سکولنگ کرتے ہیں ، اور کچھ سال پہلے کینیڈا میں ایک سروے میں ھوم سکول اور پبلک سکول سے پڑھنے والے بچوں کا موازنہ کیا گیا تھا تو ہوم سکول کے بچوں کو ہر لحاظ سے بہترین قرار دیا گیا تھا۔. ہوم سکول بہت آئیڈیل طریقہ تعلیم ھے جسے بہت ہی باشعور والدین اپناتے ہیں، خود مجھے اس کشمش سے گذرنا پڑا تھا کہ سکول اور ناٹ سکول اور میں ہوم سکول کی زبردست حامی ھوں۔ شکریہ نگہت صاحبہ اس صدیوں پرانے لیکن ڈسکشن سے باہر موضوع پر لکھنے کے لئے ۔
بہت شکریہ زبیدہ صاحبہ
آپ نے تحریر کے نکات پر اپنی قیمتی رائے دے کر تحریر کی افادیت پر روشنی ڈالی ۔اپ کا ذاتی تجربہ ہوم اسکولنگ کے متعلق رہا اس کو جان کر اس موضوع کے حوالے سے ہمارا کنویس مزید وسیع ہوا ۔
آپ کی تحسین اور قیمتی رائے پر شکر گزر ہیں ۔
امید ہے کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح اپنی قیمتی رائے اور مشاہدے کو ہمارے علم میں لاتی رہیں گی۔