آصفہ عنبرین قاضی
میری ہیلپر شبانہ بڑی مزے کی خاتون ہے، فوڈ پانڈا کو فوڈ بھانڈا اور وائے فائے کو وائسرائے تو بولتی ہی ہے لیکن اکثر گھر میں کوئی نہ کوئی سیاپا ڈال کے محظوظ کرتی ہے ۔ کل اس کو تین چھٹیاں اس کی فرمائش پہ دیں۔ اس کا گھر گائوں میں ہے . کام ختم کرکے پوٹلی باندھی اور خدا حافظ کرکے نکل گئی ، ٹھیک پانچ منٹ بعد تشریف لے آئی کہ ” باجی ! مینوں ویگن نئیں ملی ” ۔ میں نے کہا ” چلو میں چھوڑ آتی ہوں۔” ویسے بھی اس کا گائوں دیکھنے کا شوق تھا ۔ وہ خوشی خوشی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی۔ پینتیس کلو میٹر کا فاصلہ تھا میں نے لوکیشن پوچھی تو بولی: ” چھتری آلا چوک ! ” میں نے کہا : ” مجھے راستہ بتاتی جانا “۔
خیر مین روڈ ختم ہوئی اور ذیلی سڑکیں شروع ہوگئیں۔ راستے میں جگہ جگہ پانی اور دودھ کی سبیلیں لگی تھیں۔ وہ ہر جگہ زور سے کہتی ” باجی ! روکیں روکیں “، سبیل والوں کو بلاتی اور گلاس بھر کے پی جاتی ۔
اسے شربت کے جگ دور سے ہی نظر آجاتے ، ہر پانچ کلومیٹر پر کہتی : ” باجی ! ایتھے روکنا جے ” ایک بار مجھے بھی آفر کی ۔” باجی دودھ سوڈا پی لیں ۔ میں نے کہا : ” ضرور پی لیتی لیکن نہ گلاس گاڑی میں ہے اور نہ بوتل ، اور کورونا کی وجہ سے کسی کا گلاس شئیر کرنے کا حوصلہ تم ہی کر سکتی ہو، بہن میں نہیں ” ۔
خیر اس کے گائوں پہنچے ، پہلے تو گلی قدرے کشادہ تھی پھر اس نے ” کھبے مڑو” کہہ کر ایک تنگ گلی میں گاڑی داخل کروا دی اور آگے جا کر انکشاف ہوا یہ تو بند گلی تھی اور آخری گھر شبانہ کا تھا ۔ ” اب میں ریورس کیسے کروں گی اللہ کی بندی ؟ ” میں اپنی ڈرائیونگ سے واقف تھی ، سو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
” اچھا آپ اندر تو آئیں واہس بھی مڑ جائے گی ۔ ” وہ مجھے گھر کے اندر لے گئی ۔ چھوٹا سا کچا پکا لیکن صاف ستھرا گھر ، آنگن میں درخت ، چارپائیاں ، گھڑے ، چند مرغیاں ، مٹی کا چولہا ۔۔۔ سب کچھ روایتی تھا ۔ اس کی بڑی بیٹی سب سے چھوٹے بیٹے کو جھولےمیں سلا رہی تھی ۔وہ دکان سے بوتل منگوانے لگی میں نے منع کر دیا ۔ پھر اپنے چاروں بچوں کو بلا کر کہتی : ” باجی کی گاڑی کو پیچھے کی طرف دھکا لگائو ۔” میں نے کہا : ” دماغ ٹھیک ہے تمہارا ، آس پاس نالی میں پھنس گئی تو الگ تماشا۔۔ ” خیر میں گاڑی میں بیٹھی اور وہ پیچھے کھڑی ہو کر ٹریفک وارڈن بنی رہی ۔ بڑی مشکلوں سے ریورس کرکے گاڑی گلی کے نکڑ تک آئی ۔ ابھی میں نے سیدھی ہی کی تھی کہ وہ پھر فرنٹ پر بیٹھ گئی۔ ” اب کیا ہے؟”
وہ نا مجھے سبجی ( سبزی) والی دکان پہ اتار دینا ۔” اس نے دور سبزی کی دکان کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے چونکہ اس طرف سے ہی” گزرنا تھا سو چل پڑی ۔ اس کے ہاتھ میں تھیلا تھا ۔ مجھے لگا سبزی لینی ہوگی ۔ وہاں بھی سبیل لگی تھی اس نے تھیلے سے کچھ نکالا ، ایک لڑکے کو اشارہ کیا ۔ وہ شاید سبیل سے پانی ڈال کر دینے لگا ۔ ” رکنا باجی ” وہ گاڑی میں منہ ڈال کر بولی۔ اور پھر دوسری طرف سے آکر مجھے ایک شاپر پکڑایا اور بولی ” گلاس میں تو گرجاتا ، اور گھر میں خالی بوتل نہیں تھی یہ آپ کے لیے دودھ سوڈا ڈلوایا ہے گھر جاکر پی لینا ، برکت والا ہوتا ہے ۔”
میں نے ممنونیت سے پکڑ لیا ۔ وہ ہاتھ ہلا کر چلی گئی ۔ گاڑی سٹارٹ کرکے میں نے شاپر کھولا۔ شاپر میں سے ایک فیڈر نکلا جس میں دودھ سوڈا تھا ۔ پتا نہیں شرارت تھی یا معصومیت لیکن میری بلی مجھے ہی میائوں کر گئی تھی 😃😃 سوچ رہی تھی فیڈر گاڑی میں بیٹھ کے پینا ہے یا جھولے میں لیٹ کے ۔۔۔
………………..
“محبت نامہ بنام شبانہ” 💘
پیاری شبو !
تمہاری تین دن کی چھٹیاں میرے لیے تین صدیاں تھیں ۔ جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو ، جینے کا مطلب سمجھ آیا ہے . وقت کی ایسی پابند کہ تمہیں دیکھ کے لوگ اپنی گھڑیاں درست کرلیں ، زباں ایسی نستعلیق کہ گھر میں دبستان لکھنوٴ کا گماں ہو ، صفائی کا ایسا سلیقہ اور قرینہ کہ دودھ فرش پہ بہا کے سفید رہے ، برتن ایسے چمکدار کہ آئینے کی جگہ سٹیل کی پلیٹ استعمال ہو ، چھت کے جالے تمہاری ایک اچٹتی نگاہ بھی نہ سہہ پائیں، اور سرک کر زمیں پہ آئیں ، تمہارا کپڑوں کو جھاگ میں بھگو کر اس قدر ملائمت سے رگڑنا کہ تتلی کے پر ہوں جیسے ،
کرتے کو دھونا ، پھیلانا ، سکھانا
لہو گرم رکھنے کا ۔۔۔۔۔۔۔ہے اک بہانہ
جان سے پیاری شبانہ ! تمہاری شبانہ روز چھٹیاں بھی گراں نہیں گزرتیں کہ انتظار کی کسک دل میں جوت جگائے رکھتی ہے ، تمہارے ہاتھ سے پھسلنے والی چینی کی پلیٹیں ، شیشے کے جگ اور کرسٹل کے گلاس فرش پر گر کر وہ موسیقیت اور ردھم جگاتے ہیں کہ کیا آرکیسٹرا جگاتا ہوگا ۔
پیاری شبو ! تم جس طرح سرف ، صابن ، ہارپک کے بیڑے ڈبوتی ہو میں تمہاری سخاوت اور دریا دلی کی معترف ہوچکی ہوں ، تیز آنچ پہ دودھ ابل کر زمین تک آن لگتا ہے تو تم مجھے شبو نہیں شیریں لگتی ہو جو فرہاد کے بنا ماربل پہ دودھ کی نہریں نکال سکتی ہے ۔ تم نے فیڈر میں دودھ سوڈا تو دیا لیکن میرا دل اسی گلی میں رہ گیا ۔ تم عام سی ناری نہیں ہو، فراز نے صرف تمہارے لیے کہا تھا
سنا ہے اس کے شبو ستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
تم نے جب سے فیس بک پہ اکائونٹ بنا کر مجھے فالو کیا ہے تمام دنیا ہیچ لگنے لگی ہے ، تمہاری ڈی پی پہ لگی خوشاب کی بس نے مجھے بےبس کردیا . اگرچہ ” شبانہ کلسوم ” میں املا کی غلطی پر میں کلس کر رہ گئی لیکن گلاب کو جس نام سے بھی پکارو رہتا تو گلاب ہی ہے ۔
جان سے پیاری شبانہ مور پاور ٹو یو ✌🏼💘
یہ خط ڈر کر نہیں پیار سے لکھا ہے، اسے کتاب میں رکھ کر مور کے پر رکھ دینا 😒 ( دل میں تیر والا ایموجی)
تمہاری
آصفہ عنبرین قاضی
…………………
“میرے شبو روز ۔۔۔۔”
کل فجر کے بعد کچھ وقت تھا تو اپنے تین جوڑے استری کیے تاکہ اس ہفتے وقت کی بچت ہوجائے۔ اور استری کر کے بیڈ پر پھیلا دیے کہ واپسی پر آکر ترتیب سے ہینگر پر لگا دوں گی۔ دیر بھی ہو رہی تھی۔ واپسی پر پتا چلا شبو نے تینوں جوڑے تہہ کرکے دوبارہ الماری میں رکھ دیے ہیں۔ اب پھر نکال کے استری کر رہی ہوں ۔
…………………….
” شبانہ Rose”
اگرچہ شبو کا تعلق ” جہیڑی رات قبر اچ اے او بار نئیں ” والے فرقے سے تھا لیکن اسے پہلی ویکسین یہی جملہ سنا کر لگوائی ۔ جس دن ویکسین کی تاریخ تھی اس دن وہ چھٹی کر گئی۔ کسی سے سُنا کہ خواتین دو سال بعد عالم بالا کوچ کر جائیں گی تو رونا پیٹنا ڈال کے بیٹھ گئی میں نے تسلی دی کہ فکر نہ کر بہن ! میں ویکسین لگوا چکی ہوں . اب ہمارا جینا مرنا ساتھ ہوگا ، لیکن اسے ساتھ جینے پہ تو نہیں مرنے پہ شدید اعتراض تھا۔
آس پڑوس شاید بکنگ بھی کروا چکی تھی کہ باجی نے ٹیکہ لگوا لیا ہے ، دوسال بعد میں آپ کے گھر کام پہ لگ جائوں گی . جب کسی صورت مان کے نہ دی تو بڑی مشکلوں سے گھیر گھار کر ویکسینیشن سینٹر لے گئی ، انجکشن پہ بدک گئی ، نرس سے بولی : ” مجھے قطرے پلا دیں میرا خون گرم ہے ۔” ڈرا دھمکا کے پہلی ڈوز لگوائی لیکن اس کے بعد شبو کے ناٹک شروع ہونے کا وقت آ گیا ۔
” باجی میرا خون ٹھنڈا ہو گیا ہے ، باجی میرا سیدھا ہاتھ کام نہیں کر رہا ( پہلے دونوں ہاتھ کام نہیں کرتے تھے ) میرے معدے میں ابال اٹھ رہے ہیں، ” غرض اس نے چھینکیں ، کھٹی ڈکاریں ، جمائیاں ، سُستی ، ٹھنڈے پسینے ، ہڈ حرامی ، یاداشت کی کمزوری سب ویکسین کے سر ڈال دی۔ ہر دکان پہ جاکے کہتی :
بھائی ! میں ویکسین کی مریض ہوں ذرا جلدی کریں “، عید پہ کھسہ لے آئی جو پہننے کے بعد ذرا سا کُھلا ہوگیا تو دوسرے دن آ کے بتا رہی تھی کہ “ویکسین سے پائوں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔” کل اس کی دوسری ڈوز کی باری ہے یا تو چھٹی کرے گی یا پھر ڈرامہ ، اتنی تو اب واقف ہوں کہ
ہوتا ہے ” شبو” روز تماشا میرے آگے
2 پر “ہوتا ہے ” شبو” روز تماشا میرے آگے” جوابات
واو !!! آصفہ عنبرین صاحبہ مزا آگیا ” شبانہ نامہ” پڑھ کر ، امید ھے ہمیں آئندہ بھی شبانہ کی activities سے محظوظ کرواتی رہیں گی۔۔۔
بے ساختہ اور برجستہ ۔۔ویل ڈن آصفہ