ڈاکٹر فصیح ہاشمی
25 ستمبر کو دنیا بھر میں ” لائف سیورز ڈے“ یعنی جان بچانے کی تربیت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں جان بچانے کی تربیت کے اس عمل کو CPR (Cardiopulmonary resuscitation) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایمرجنسی پروسیجر ہے جو مریض کو اُس وقت دیا جاتا ہے جب اچانک اس کے دل کی دھڑکن بند ہو جائے یا سانس لینے میں رکاوٹ کا سامنا ہو۔
اگر یہ عمل اچھی طرح کیا جائے تو ایسے مریض جنہیں دل کا دورہ پڑا ہو ، ان کا دورانِ خون اور سانس بحال کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہ عمل سیکھنا بہت آسان ہے۔ بطور مسلمان ہم پر اس کی اہمیت اور زیادہ واضح ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : ”جس نے کسی شخص کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔“ (المائدہ 32)
اس دن کے منانے کا آغاز 2014ءمیں برطانیہ سے ہوا۔ ’ برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘ نے سب سے پہلے اس دن مساجد اور اسلامک سینٹرز میں CPR کی ٹریننگ دینے کا آغاز کیا۔ اگلے سالوں میں 12سے زائد ممالک کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز نے بھی CPR ٹریننگ دینے کا آغاز کر دیا۔ ان تربیتی پروگرام کے مرکزی مخاطب عام لوگ ہوتے ہیں اور اسی بناءپر مساجد/ اسلامک سینٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان میں شریک کیا جا سکے اور انہیں CPR ٹریننگ دی جا سکے۔ پاکستان میں 2019ءسے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ( پیما ) کے تحت ” لائف سیورز ڈے“ منایا جارہا ہے اور گزشتہ سال 48 مساجد میں CPR ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا۔
ہم جانتے ہیں کہ دل کے امراض دنیا بھر میں اموات کی وجوہات میں سر فہرست ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دل کے دورے، کارڈیک اریسٹ ( Cardiac arrest ) اور دل کی دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں 46 اموات دل کے امراض کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ تین سال قبل یہ تعداد صرف 12 تھی جس میں اب چار گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔
ایک مشاہدے کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر (100 میں سے 77) مریضوں کو دل کا دورہ ہسپتال سے باہر یعنی گھر میں یا راہ چلتے، یا کسی اور مقام پر پڑتا ہے۔ 93 فیصد کیسز میں مریض کے ساتھ کوئی نہ کوئی فیملی ممبر یا دوست موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود دل کے دورے یا کارڈیک اریسٹ کے بعد زندہ بچ جانے والے مریضوں کی شرح صرف10 فیصد ہے ۔
ان حالات میں CPR کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ اسی کے پیش نظر دنیا بھر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ CPR کو نصاب میں شامل کیا جائے اور ہر فرد کے لیے اس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔ CPR کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ جب کسی مریض کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو صرف پچاس فیصد لوگ ہی ہسپتال پہنچ پاتے ہیں۔ اگر ان کا CPRکر دیا جائے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مزید پچاس فیصد کی بھی جان بچائی جا سکتی ہے۔
روایتی طور پر CPRکے دو طریقوں میں سینے پر ہاتھوں کے ذریعے دبائو اور منہ کی مدد سے سانس کی بحالی شامل ہے لیکن امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی حالیہ گائیڈ لائینز میں کمپریشن یا سینے پر دبائو کے طریقہ کار کو پہلی ترجیح قرار دیا گیا ہے۔
CPRکا پہلا مرحلہ Basic Life Support یا BLS ہے۔ اس کے ذریعے مریض کے دل کو پمپ کیا جاتا ہے تاکہ دماغ تک خون کی سپلائی بحال رہے۔ یہ معلوم ہے کہ دماغ کے خلیوں کو اگر تین منٹ تک آکسیجن نہ ملے تو وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور تقریباً دس منٹ بعد موت واقع ہو سکتی ہے۔ کسی فرد کے دل کی دھڑکن یا سانس بند ہونے کے بعد سے طبی امداد مہیا ہونے کے درمیانی وقفے میں CPR دیا جاتا ہے ۔ دنیا میں اس کے بہت مثبت نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔ خود بطور ڈاکٹر بھی ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جن افراد نے اس کی تربیت حاصل کی اور فیملی میں انھیں کارڈیک اریسٹ کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے CPR تربیت کا فائدہ اٹھا کر اپنے مریض کی جان بچا لی۔
CPR کی تین اقسام ہیں۔ یہ بڑی عمر کے افراد ، نو عمر اور شیرخوار بچوں کے لیے الگ الگ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بڑوں میں اس کی ضرورت کو زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔
CPRکا طریقہ کار درج ذیل ہے:
اگر آپ کسی بھی فرد کو زمین پر گرا ہوا دیکھیں تو سب سے پہلے قریب جا کر اسے آواز دیں یا ہلائیں۔ اگر وہ جواب دے رہا ہے تو جو ممکن مدد کر سکتے ہوں وہ فراہم کریں۔ اگر مریض کوئی جواب نہیں دے رہا تو CPR شروع کریں۔ اس کے 5 مراحل ہیں۔
1۔ اگر جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تو فوراً مدد طلب کریں اور ہنگامی نمبرز (1122یا کسی بھی ایمبولینس سروس) پر کال کریں۔
2۔ مریض کو محفوظ مقام پر پیٹھ کے بل لیٹا دیں۔
3۔ مریض کی سانس اور نبض کی رفتارچیک کریں ۔ اگر کوئی آمد ورفت محسوس نہ ہو تو اگلے مرحلے پر جائیں۔
4۔ اپنے ہاتھوں کو مخصوص انداز میں جوڑ کر مریض کے سینے کے اوپر دبائو دیں اور اندازاً ایک منٹ میں ساٹھ ( 60 ) مرتبہ دبائیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا ایک ہاتھ مریض کے سینے کے بالکل درمیان رکھیں اور دوسرا ہاتھ اس کے اوپر رکھ دیں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو جوڑ لیں۔ گائیڈ لائینز میں دبائو کی گہرائی 4-5 سینٹی میٹر تجویز کی گئی ہے۔
5۔ 30 مرتبہ دبانے کے بعد مریض کی تھوڑی کو تھوڑا اوپر کر کے منہ کے ذریعے منہ میں سانس دیں۔ یہ عمل ایک منٹ میں دو مرتبہ ہو گا۔
اس کے ذریعے سے اس کے دماغ اور دوسرے ضروری اعضاءکی طرف خون کی سپلائی بحال ہونے میں مدد ملے گی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھیں، جب تک
1۔ مریض کی سانس اور دھڑکن بحال ہوجائے
2۔ ایمبولینس یا پیرامیڈیکل سٹاف مریض تک پہنچ جائیں
3۔ آپ خود شدید تھکاوٹ کا شکار ہوجائیں اور مزید سکت نہ پائیں
4۔ 2 منٹ تک CPR کے باوجود مریض میں زندگی کے کوئی آثار پیدا نہ ہوں
مندرجہ بالا تمام امور کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس آرٹیکل میں عمومی معلومات بیان کی گئی ہیں ۔کسی ماہر ڈاکٹر کی زیر نگرانی تربیت حاصل کیے بغیر اس عمل کو تجربہ کرنے سے گریز کریں۔
CPRکے عمل کو انتہائی آسانی کے ساتھ چند منٹ کی تربیت حاصل کر کے سیکھا جا سکتا ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔
1۔ تھیوری کی مکمل وضاحت
2۔ عملی مظاہرہ
3۔ شرکاءکو تکنیک پر عمل کرنے کی تربیت
یہ ٹریننگ پروگرام ہر مرد، عورت، بڑے اور بچے کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔اسے سیکھ کر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں یا کسی فرد کو اچانک دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں محض تماشا نہ دیکھیں بلکہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کریں اور یقینی طور پر اس عمل کے ذریعے بے شمار زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
( ڈاکٹر فصیح ہاشمی ،اسریٰ یونیورسٹی حیدرآباد میں پروفیسر آف کارڈیالوجی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) سندھ کے صدر بھی ہیں۔ )