عبید اللہ عابد
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے واقعات کو بیس برس بیت چکے ہیں، اس کے بعد امریکا اپنے اتحادیوں کا لشکر لے کر پہلے افغانستان پر چڑھ دوڑا ، پھر عراق پر ۔ افغانستان پہلے ہی ملبے کا ڈھیر تھا اور عراق بھی اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار ہوکر تباہ حال ہوچکا تھا ۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کو امریکا کی پابندیاں کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا ، تب افغانستان میں طالبان حکمران تھے۔ اب بیس سال بعد وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ایوان اقتدار میں داخل ہوچکے ہیں۔ پہلے وہ نوے فیصد علاقے کے حکمران تھے ، اب پورے افغانستان کے حکمران ہیں۔ پہلے انھیں کسی کی حمایت حاصل نہ تھی ، اب چین، روس ، ایران ، پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت دنیا کے کئی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکا کو کیا حاصل ہوا ؟
نائن الیون واقعات کے نتیجے میں امریکا کو کتنا نقصان ہوا؟ اس کا جواب نہایت مختصر انداز میں پڑھ لیجئے۔
انسٹی ٹیوٹ فار دی انیلیسز آف گلوبل سیکورٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے نتیجے میں چالیس ارب ڈالر کا بیمہ شدہ نقصان ہوا۔ اس واقعہ میں نقصان اٹھانے والوں کو سات ارب ڈالر دیے گئے ۔ ائیرلائن انڈسٹری کو انیس اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ نیویارک شہر کو پچانوے ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ٹاورز گرنے اور اس کے نتیجے میں ادھر ادھر ہونے والا نقصان ساٹھ ارب ڈالر ہوا۔ اس سارے نقصان کا مجموعہ بنتا ہے دو سو اکیس اعشاریہ چھ ارب ڈالر۔ یہ سارا نقصان ایک کھرب کا چوتھائی حصہ بھی نہیں بنتا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکا نے ان واقعات کے نتیجےمیں جنگ پر کتنے اخراجات اٹھائے؟ جی ہاں ! آٹھ کھرب ڈالر ۔ یعنی آٹھ ہزار ارب ڈالرز۔ برائون یونیورسٹی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے صرف افغانستان میں سات ہزار تین سو دنوں پر مشتمل بیس سالہ جنگ اور قومی ترقی کے نام پر یومیہ انتیس کروڑ ڈالر خرچ کئے۔ یوں امریکا کے دوہزار ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ واضح رہے کہ ان دنوں میں امریکا میں یہ بحث بڑے زور و شور سے جاری ہے کہ افغانستان پر حملہ کرکے اور وہاں بیس سال تک قبضہ کرکے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
امریکا میں ماہرین اپنا سر پیٹ رہے ہیں کہ ہمارے فراہم کردہ ڈالرز سے بڑی تعداد میں افغان خوب امیر کبیر بن گئے۔ جبکہ بعض افغان نوجوان انتہائی امیر بن گئے۔ ان میں سے بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کے طور پر کام شروع کیا تھا اور اب وہ کروڑ پتی ہیں۔کابل میں انگریزی کے ایک استاد فہیم ہاشمی تھے جنھیں امریکی فوج نے بطور مترجم اپنے ساتھ شامل کیا ۔ بعد میں فہیم ہاشمی نے ایک کمپنی قائم کی جو فوجی اڈوں کو سامان اور ایندھن فراہم کرتی تھی۔ اسی طرح حکمت اللہ شادمان بھی امریکی فوج کے مترجم تھے۔ دو ہزار سات میں پانچ برس بطور مترجم کام کرنے کے بعد انھوں نے ایک ٹرک کرائے پر پر لیا اور امریکی اڈے کو ایندھن اور سامان کی فراہمی شروع کردی۔
ایک امریکی نیوز چینل سی این بی سی نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کنٹریکٹرز کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر اس کی نازک جمہوریت کو تباہ کردیا۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو میں یہ تمام کوششیں کیں پھر بھی طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبجہ کرنے ، فوج کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف نو دن لگے۔
کہا جاتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعات کے ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ تھی۔ اگر ایسا تھا تو اس معاملے کو یوں سمجھ لینا چاہئیے کہ اسامہ بن لادن نے امریکا کو ایک بڑے نقصان سے دوچار کیا۔ اچھی بھلی معیشت کا حامل امریکا اب تباہ حال ہوچکا ہے، القاعدہ کے سربراہ کو امریکا زندہ گرفتار نہ کرسکا جیسا کہ اسامہ بن لادن نے پاکستانی صحافی حامد میر کو انٹرویو میں کہا تھا۔ اسامہ بن لادن کے جانشین ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بارے میں امریکا نے کئی بار دعوے کیے لیکن ڈاکٹر ایمن الظواہری نے چند روز پہلے ویڈیو ریلیز کردی۔ امریکا نے ایک بڑی تعداد میں القاعدہ کے شبہے میں لوگوں کو پکڑا لیکن پھر انھیں چھوڑنا پڑا۔
امریکا جو مقاصد لے کر افغانستان پر قابض ہوا تھا، وہ سب کے سب ناکام رہے۔ چین ، روس اور ترکی جیسے ممالک اب افغانستان میں اپنے مقاصد لے کر اتر رہے ہیں ۔ وہ قابض قوتیں بن کر نہیں دوست ممالک کے طور پر آ رہے ہیں۔ طالبان جنھیں قوم کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ، ان ممالک کو اپنے ہاں کام کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں۔ ان کے مابین معاملات تیزی سے طے پا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا سمیت مغربی ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن اب انھیں ویسا کچھ نہیں ملے گا جیسا وہ کبھی چاہتے تھے۔ یہ ہے حاصل امریکا کی ہم جوئی کا۔
اب امریکی ماہرین کو خیال آیا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد کریمنل انویسٹی گیشن ہونی چاہئیے تھی، جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اب امریکی قانون سازوں کو سمجھ آئی ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ جنگوں سے نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سبق اس قدر زیادہ نقصان کے بعد ہی کیوں حاصل ہوا؟
ایک تبصرہ برائے “نائن الیون واقعات : نقصان ہوا 22 ارب ڈالر، جنگ پر لگا دیے 8000 ارب ڈالر”
اس مضمون میں افغان امریکہ جنگ پر اخراجات کا بہت بہترین تجزیہ کیا گیا ھے جس اکثریت واقف نہیں ھے۔ امید ھے کہ ہمیں اس کا کوئی اگلا حصہ پڑھنے کو ضرور ملے گا ، کیونکہ فاضل مصنف نے قاریئن کے لئے جو سوال چھوڑا ھے کہ ” امریکہ کو جنگ کے بعد ہی کیوں جنگ کے نقصان کا سبق ملا ؟ تو یقینا اس کے جواب تک ان کی ذہنی اور علمی رسائی ھے وہ بس اپنے قاری کو تھوڑا سوچ اور کھوج کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔