سید علی گیلانی

سید علی گیلانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مسعود احمد

فکر مودودی کے ترجمان اقبال رحمہ اللہ کے شاہین کا جیتا جاگتا تصور۔ میں یہ جرات کرنے کا متحمل نہیں کہ سید علی شاہ گیلانی پر کچھ لکھوں مگر ایک بات نے بہت آزردہ کردیا کہ کچھ دن پہلے یہ نزول قرآن کانفرنس میں خطاب کر رہے تھے ، اس دوران ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے جن میں ارتعاش تھا . میں ایک دوست کے ساتھ یہ ویڈیو دیکھ رہا تھا . اچانک دوست نے کہا کہ شاید گیلانی صاحب کو سردی لگ رہی ہے۔

جب وہ اپنی لرزتی ہوئی آواز میں شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے یہ الفاظ بول رہے تھے تو میری آنکھوں کے پیمانے چھلک پڑے میری آنکھیں نم ہوگئیں کہ کہ خطابت کا بادشاہ اقبال کا شاہین اس عمر میں پہنچ گیا ہے جہاں قوائے جسمانی میں اضطراب پیدا ہوتا ہے . اسی لئے اپنی طرف سے آج اس شاہین کو خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہا کیوں کہ ایسے شاہین ہر بار نہیں ملتے ہیں۔

ولر جھیل کے شمال مغرب میں وٹلب اور بابا شکور دین کے مزار کے قریب زوری منز نامی ایک خوب صورت گاﺅں میں پیدا ہوئے ۔ سیاہ زیرے اور سنہری سیبوں سے مہکتا ہوا اور اخروٹ و آلو بخارے کے باغوں سے لدا پھدا گائوں ہر روز ولر کے نیلے پانیوں میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔ سید علی گیلانی ستمبر 1929ءکو اسی گاﺅں میں پیدا ہوئے۔

کون کہہ سکتا تھا کہ نہر زینہ گیرکی کھدائی کرنے والے مزدور سید پیر شاہ کا یہ بیٹا ایک دن پورے کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کا حکمران ہوگا اور قائد تحریک حریت کہلائے گا ۔ وہ منا سا بچہ جو چھ برس کی عمر میں گردو نواح کی پہاڑیوں سے زیرہ جمع کر کے بازار میں فروخت کیاکرتا تھا اور جو ایک دن زیرے کی گٹھڑی سمیت نہر میں گر پڑا تھا اور اس کو بمشکل ڈوبنے سے بچایاگیا تھا ۔کس کو خبر تھی کہ سید علی ہمدانی ؒ کی میراث کا وارث بننا اس کے مقدر میں لکھا ہے . کون جانتا تھا کہ ننھا سا بچہ غربت و افلاس کی مار جھیل رہا معصوم ایک دن ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن جائے گا .

سید علی گیلانی (تاریخ پیدائش:29 ستمبر 1929) کشمیر کے ایک سیاسی رہنما ہیں۔ آپ کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبےسوپور سے ہے۔ آپ کشمیر کی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جہاں مخلتف ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور اپنی عمر کے ایک بڑے حصہ میں اسی کے لئے جیتے رہے ان کا جماعت اسلامی سے والہانہ لگائو ہے

1949ءمیں پہلی بار انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر سے شناسائی حاصل کی ۔ فکر اقبال کے بعد سید مودودی ؒ نے انہیں اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کا درس دیا اور وہ آزادی اور اسلام کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے یکسو ہوتے چلے گئے ۔ پھر مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ایک نئے انقلاب سے شناسا ہو ئے.

کتاب کے بعد فیضان نظر کے قتیل ہوئے ۔ مولانا سعد الدین نے جواں سال سید علی گیلانی کو اس قافلہ عشاق میں شامل کر لیا جسے ” جماعت اسلامی “ کہتے ہیں ۔ اس وقت سید علی گیلانی بیس برس کے تھے . سید علی گیلانی اقبال کے شیدائی ہیں . ان کی تحریر و تقریر میں اقبال کی فکر جھلکتی ہے . ” اقبال روح دیں کا شناسا ” تحریر کر کے اقبال سے اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کردیا اور اقبال سے شناسا لوگوں کو اقبال کا ایک عاشق اسی تحریر سے ملا جس نے اپنے ماہ و سال اپنی قوم و ملت کے نام وقف کردئے رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی ہیں.

ان سے پہلے برصغیر سے سید ابوالحسن علی ندوی و سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ رکن رہے ہیں ان کی تحریر میں بلا کا تسلسل ہے کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھئے تو ایک طالب علم کو وافر مقدار میں اپنی علمی پیاس بجھانے کا مواد مل جاتا ہے . ان کی خطابت کا کیا کہنا بقول محمد اشرف صحرائی صاحب کہ ایک بار شب قدر پر بارہمولہ میں چھ گھنٹوں تک مسلسل بولتے رہے . ان کی زبان میں بلا کی تاثیر ہے جب بولتے ہیں تو ایک نوجوان مقرر کی طرح بڑے ہی دلنشین انداز میں بولتے ہیں . کبھی گرجتے ہیں تو کبھی ان کی آنکھیں برستی ہیں . پیر و جوان ان کے خطاب پر فدا ہوتے ہیں۔

ان کی خطابت میں الفاظ کا انتخاب اور بر محل کسی بھی بات پر پوری قوت سے دلائل سے اپنی بات رکھنے کا انداز ہی نرالا ہے . سید علی شاہ گیلانی اپنی پیرانہ سالی میں بھی ایک شاہین صفت نوجوان کی طرح ہی خطاب کرتے ہیں . حقیقت میں اقبال کے شاہین کی منہ بولتی تصویر ہیں . ان کی باتوں سے قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انہیں کس قدر لگائو ہے اپنے مرشد اعظم قائد انقلاب محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے . ان کی ہر بات کی ابتداء اور انتہا اسی بات پر ہوتی ہے کہ رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے مسائل کا حل سیرت طیبہ سے نکالا جائے

جماعت اسلامی کا تیار ہوا یہ تیز طرار مقرر اپنے امراء کی اطاعت و فرمانبرداری کی منہ بولتی تصویر ہے . گرچہ ان کی رگ رگ میں بغاوت ہے پر کیا مجال کہ جماعت اسلامی میں رہ کر کبھی اس بغاوت کا اظہار بھی کیا ہو بلکہ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ ان کی آنکھیں اپنے امراء کے سامنے چھلک پڑیں . سیاست ان کی زندگی کا ایک ایسا جز رہا ہے جس سے انہیں علیحدہ کرنا ہی محال ہے . جماعت اسلامی میں یہ جملہ زبان زد عام رہا ہے کہ انہیں آپ مسائل وضو بھی اگر بتانے کو کہیں گے یہ تب بھی جاکر سیاست پر ہی جا پہنچیں گے ان کی امارت کا دور بہت ہی مختصر رہا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے.

سید علی گیلانی کی امارت کا دور مختصر رہا ‘ لیکن امیر منتخب ہونے کا ایمان افروز منظر بہت سے لوگوں کو آج بھی یاد ہوگا
” مولانا سعد الدین نے شرکائے اجتماع سے کہا کہ میری صحت خراب ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ بار امارت کسی دوسرے شخص پر ڈال دیا جائے ۔ بہت سی اہم شخصیات موجود تھیں۔ سب نے یک زبان ہو کر سید علی گیلانی کا نام لیا ۔

سید علی گیلانی کھڑے ہو کر رقت آمیز اور لجاجت بھرے لہجے میں بولے کہ وہ بار امارت کے قابل نہیں ہیں ‘ خدا کے لیے انہیں معذور سمجھا جائے ‘ لیکن تمام ارکان مطمئن تھے۔ جب ذمہ داران نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور قرعہ فال ان کے نام پڑ کر رہا تو جناب گیلانی کی حالت غیر ہو گئی ۔ کسی نے بھی ان کی اس جذاتی کیفیت کو پہلے نہ دیکھا تھا نہ بعد میں ۔ انہوں نے روتے ہوئے ‘ شدت جذبات میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے بمشکل کہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں

کشمیر میں جماعت اسلامی کا اصول ہے کہ ہر رکن جماعت اپنی سال بھر کی آمدنی میں سے ایک ماہ کی آمدنی بیت المال میں داخل کراتا ہے ۔ سید علی گیلانی ممبر اسمبلی تھے ‘ان کا پرانا مکان خستہ ہو چکا تھا ‘ اس لیے نیا مکان بنوا رہے تھے۔ جماعت کے بیت المال میں رقم جمع نہ کرا سکے۔ حکیم غلام نبی امیر جماعت تھے۔ انہوں نے سید علی گیلانی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کر دی ۔ یہ جماعت اسلامی کے مثالی نظم کی ایک مثال تھی . اس کارروائی سے پہلے ایک جگہ ان کا پروگرام تھا۔ وہ پروگرام میں تو گئے لیکن خطاب نہیں کیا ۔ یہ اطاعت نظم تھا۔

رکنیت سے معطل کیے جانے کے عرصے میں اسمبلی میں آپ نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ایک مرحلے پر جب آپ کسی کو جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کا دفاع کر رہے تھے ‘ مخالف ممبران اسمبلی نے کہا ” آپ کس جماعت کی بات کر رہے ہیں ۔ اس نے توآپ کو نکال دیا ہے۔“

آپ نے بڑی متانت سے مگر بر جستہ فرمایا۔” جماعت نے مجھے نکالا ہے ‘ لیکن میں تو نہیں نکلا ہوں ۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی مجھے اپنے نصب العین اور مقصد کی آبیاری کرتی نظر آتی تو میں نکل بھی جاتا ۔ لیکن اب تو یہ معاملہ ہے کہ جماعت مجھے دروازے سے نکالے گی میں کھڑکی سے اندر آ جاﺅں گا.

پھر وہ زمانہ بھی آیا جب انہیں شدت سے احساس ہوا کہ جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت تحریک حریت کا پلیٹ فارم بنانا لازمی ہے جس میں ایسے رفقاء کی اکثریت ہے جو جماعت اسلامی کے ہی تربیت یافتہ ہی ہیں . آج تحریک حریت کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے جو کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں مصروف العمل ہے .

سید علی شاہ گیلانی آزادی کشمیر کا سیاسی چہرہ قرار پائے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اگر عالمی سطح پر بھی تعصب کے بغیر بے لاگ طریقے سے دنیا کی با اثر شخصیات کے انتخاب پر سروے کیا جائے تو اس میں بھی سید علی شا ہ گیلانی کا انتخاب ایک ایسی شخصیت سے ہو گا کہ جن کی بصیرت اور عظمت کا برملا اعتراف کیا جائے گا .

دراصل اس طرح کا اعزاز اور افتخار ایسے ہی حاصل نہیں ہوتا ، اس کے لئے بڑی ریاضت ، محنت ، جفا کشی اور جرات کے ساتھ ایسی راہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو بہت کٹھن ہے، جس کے ہر خم ہر خوفناک سائے اور قدم قدم پر کانٹے ہوتے ہیں۔ خدا جسے چاہے اور جس پر مہربا ن ہو جائے اسے اوصافِ حمیدہ سے نوازتا ہے ، اس کے لئے نیت میں اخلاص ، عزم راسخ اور جہدِ مسلسل کا سرمایہ ہونا چاہئے۔ کسی سیاسی منافقت کے بغیر جس ڈنکے کی چوٹ پر سید علی گیلانی حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کے روادار ہیں۔اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ظاہر و باطن کے ایک ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی لغزشوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ کتاب ِ زندگی میں بشری غلطیاں انسان سے ہوتی رہتی ہیں.

اپنے عقیدے اور فکر کے ساتھ والہانہ لگاﺅ رکھنے کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ سید علی گیلانی نے پوری زندگی اپنی فکر اور عقیدے کی بے خوفی سے دفاع کیا ہے

سید علی گیلانی نے اپنی زندگی میں سیاسی ،سماجی اور دینی شعبوں کے اندر جتنا حصہ ادا کیا ہے اور لگا تار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، وہ بہت ہے۔ ایک انسان سے اُس سے زیادہ توقع رکھنا، اُس کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے ۔ سید علی گیلانی کی زندگی اُن کی تحریروں ، تقریروں ، تنظیمی دوروں ، مذہبی سرگرمیوں اور قید و بند پر مبنی ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ اُنہوں نے کب اپنی نجی زندگی گزاری ہے ۔

آج بھی جب وہ عمر کی اُس حد تک پہنچ گئے ہیں جہاں دوسروں کی محتاجی ایک فطری ضرورت بن جاتی ہے ، وہ لگاتار اپنی نجی زندگی کو قربان کرتے ہوئے اُسی ’ ویٹر‘ کی حیثیت سے سرگرم ہیں اور لوگ آج بھی اپنے اپنے ’آرڈر‘ پورے کرانے کیلئے ایک ساتھ گھنٹیاں بجا بجا کر اُن کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں مصروف ہیں۔ حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ’ریستورانٹ‘ میں بیٹھی لوگوں کی ایک بھاری تعداد ایسی بھی ہے جو گھنٹیاں بجانے کے بجائے اس بات کی توقع رکھے ہوئے ہیں کہ ’ویٹر‘ خود ہی اُن کے پاس آکر اُن کا آرڈر لے گا۔

مزاحمت کی علامت کے طور پر پہچانے جانے والے سید علی گیلانی نے اپنی ’زندگی‘ کے ایک حصہ کو ’ولر کنارے‘ کا نام دیکر منظر عام پر لا چکے ہیں ۔میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جو اس بات کیلئے بیتاب تھے کہ’ولر کنارے‘ کا کونا کونا چھان کر اس راز کو حاصل کریں کہ آخر کس طرح سید علی گیلانی نے اپنے اندر اتنی طاقت سمولی ہے کہ وہ آج بھی اپنی اُسی بات پرقائم ہیں جس کا مطالبہ اُنہوں نے پانچ دہائیاں قبل کیا تھا۔ اور پھر دوران مطالعہ یہ بھی میرے لئے دلچسپی کا باعث تھا کہ مجھے اُس شخص کی باتیں پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے جو اُن واقعات و حالات کا عینی گواہ ہے جن کا وقوع پذیر ہونا ہی موجودہ صورتحال کی اصل وجہ ہیں

سید علی گیلانی نے عمر نصف سے زیادہ زندگی اسیری کی حالت میں مختلف جیلوں میں گزاری جہاں پر ان کے روز و شب کی داستان روداد قفس کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے جسے پڑھتے ہوئے کئی جگہ پر فرط جذبات سے آنکھیں چھلک پڑھتی ہیں . مذہبی اعتبار سے کشمیر کا یہ مرد حر ، ہمت و عزیمت کا کوہ گراں سید ابو الاعلی مودودی علیہ رحمہ کا عاشق صادق ہے جو کہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اور کشمیر میں سید مودودی رحمہ اللہ کا حقیقی وارث جس کے روز و شب صرف ملت اسلامیہ کشمیر کے لئے ہی وقف ہیں

پھر یہ بے لَوث اور حریتِ کشمیر پر زندگی کی ہر نعمت نچھاور کرنے والا شخص ہمیں پیارا اور جاں کا دلارا محسوس کیوں نہ ہو! زندگی کی آٹھ عشروں کو محیط بہاریں دیکھ چکے۔ اصل بہار دیکھنے کے لیکن ہنوز منتظر ہی ہیں

نوے کے پیٹے میں ہیں، دل کے مریض ہیں، ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے اور دل کی دھڑکن کو نارمل رکھنے کے لیے ان کے دل میں پیس میکر (Pace Maker) لگا ہوا ہے۔ ان کا ایک گردہ بھی ناکارہ ہوچکا ہے جب کہ ڈاکٹروں نے ان کا پتّا بھی نکال دیا ہے، وہ بہت سی بیماریوں کی لپیٹ میں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناقابل شکست عزم اور حوصلے سے نوازا ہے ، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوئے ، انہیں یقین ہے کہ اللہ تعالی ان کی مدد و دستگیری فرمائے گا اور اسی یقین کے سہارے وہ اب تک ڈٹے ہوئے ہیں اپنے نظریہ پر رب الکریم اپنی رحمتوں سے نوازے۔

نوٹ
یہ تحریر دو سال قبل کی ہے جب سید علی گیلانی حیات تھے اور وہ گرچہ بہت ضعیف تھے پر زبان کی قوت باقی تھی . اب اس وقت سید علی گیلانی صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کا انتقال 2 ستمبر کو حیدر پورہ سرینگر میں ہوا . حق تعالی مغفرت فرمائے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں