یکساں نصاب تعلیم ، کتابیں

یکساں نصاب تعلیم پر بودے اعتراضات کے پیچھے کہانی کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا جو وعدہ پورا کیا ، وہ اپنی سوچ اور بساط کے مطابق پورا کر رہی ہے، پہلے مرحلے پر پرائمری تک یکساں نصاب تعلیم ہوگا ، اس کے بعد اگلے مراحل طے ہوں گے ۔ یکساں نصاب تعلیم کی غرض سے صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈز نے جو کتابیں شائع کی ہیں ، ہمارے معاشرے کا سیکولر اور لبرل طبقہ ان میں سے بعض کتب کے سرورق کو بنیاد بنا کر اعتراضات کی ایک بوچھاڑ کر رہا ہے۔ اعتراضات کافی دلچسپ ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور سر دھنیے:

پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی پانچویں گریڈ کی انگلش کی کتاب کے سرورق کے بارے میں اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں مرد یعنی باپ اور بیٹا صوفے پر بیٹھے ہیں اور خواتین یعنی ماں ، بیٹی زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ کہا گیا کہ دیکھیں مردوں نے مغربی لباس پہن رکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ذہنیت نہیں بدلی اور انھوں نے عورتوں کو نیچے ہی بٹھایا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک خاتون نے تبصرہ کیا کہ یہ صرف ایک کتاب کا سرورق نہیں بلکہ پورا ایک مائنڈسیٹ ہے ۔ خاتون نے کافی مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا نہیں جاسکتا۔

سوشل میڈیا ہی پر ایک ادیبہ نیلم احمد بشیر نے تبصرہ کیا : نوکرانی عورتیں۔

ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ آخر گھر میں بیٹھی ہوئی ان ماں بیٹی نے سکارف کیوں پہن رکھا ہے؟
ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ باپ بیٹے نے جوتے پہن رکھے ہیں لیکن بیٹی کو موزے پہنا دیے اور ماں کے پائوں چھپا دیے
ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ صوفے کا رنگ سبز کردیا مائنڈ سیٹ نے۔۔۔۔۔ حد ہے بھئی

خیر ! یہ تو عام سیکولرز اور لبرلز کے اعتراضات تھے۔ اب آئیے ! دنیا کے بڑے میڈیا اداروں میں سے ایک ، بی بی سی کی طرف ۔

بی بی سی نے اپنی اردو ویب سائٹ پر یکساں نصاب تعلیم کے تحت شائع ہونے والی تمام کتب پر کڑی تنقید کی ہے۔ تنقیدی رپورٹ میں سب سے بڑا اعتراض یہی پیش کیا گیا ہے کہ زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کو حجاب یعنی سکارف کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

بی بی سی کی ٹویٹ جس میں اس کی سٹوری کا لنک دیا گیا ہے

بی بی سی کے مطابق
ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی کس انداز سے عکاسی کر رہے ہیں۔ تاریخ دان اور مصنف یعقوب خان بنگش کا کہنا ہے کہ ’ان کتب میں آخر کون سی ثقافتی اقدار دکھائی جا رہی ہیں؟ ایسا تو ان عرب ممالک میں بھی نہیں ہوتا جہاں سے حجاب کی یہ روایت آئی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’ ایک لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ حجاب پہن کر کیوں بیٹھے گی؟‘

یعقوب بنگش نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نصاب کی کتب چھاپتے ہوئے یہ احتیاط برتنی چاہیے کہ ان میں لوگوں کی کیسی تصویر کشی کی گئی ہے کیوں کہ بچے جو کچھ سکول میں سیکھتے اور دیکھتے ہیں، وہ بعد میں ویسا ہی اپنے گھر میں دہرانا چاہیں گے۔

بی بی سی نے ایک ماہر تعلیم تلاش کیں ڈاکٹر عائشہ رزاق ، جو وفاقی وزارتِ تعلیم و فنی تربیت کی تکنیکی مشیر ہیں ، ان کا کہنا تھا:
اگر لڑکے اپنی کتب میں خواتین اور بچیوں کو صرف سر ڈھانپیں ہی دیکھیں گے تو وہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی کتب میں عکاسی کی جانے والی خواتین سے مختلف لباس پہننے والی کو ہراساں کرنا جائز ہے۔ ’آہستہ آہستہ آپ بچوں کی تربیت کر رہے ہیں کہ اگر کوئی عورت ان کپڑوں کے علاوہ کسی اور کپڑوں میں ملبوس ہو تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔‘

ان کتب میں خواتین کا ایک مخصوص لباس تو مسئلے کا ایک پہلو ہے لیکن دوسرا تشویشناک امر ان کتب میں خواتین کو روایتی کرداروں میں دکھایا جانا ہے۔ یکساں نصاب کی تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں گرامر کی ایک مشق دی گئی ہے جس میں ایک جملہ کچھ یوں ہے کہ ’عائشہ نے نماز پڑھی‘ جبکہ اس سے اگلا جملہ ہے کہ ’لڑکوں نے فٹ بال کھیلا۔‘

پانچویں جماعت کی انگریزی کی نصابی کتاب میں ایک جملہ ہے کہ ’میرے والد روزانہ اخبار پڑھتے ہیں‘ اور اسی صفحے میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ ’میری والدہ کپڑے دھوتی ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کتب میں عمومی تاثر یہی دیا گیا ہے کہ خواتین گھر کو اچھے طریقے سے سنبھالتی ہیں یا صرف ٹیچر اور نرس ہوتی ہیں۔‘

جماعت پنجم کی انگریزی کی 102 صفحات پر مبنی کتاب میں خواتین کی صرف دو تصاویر تھیں اور ان دونوں خواتین کو دوپٹہ اوڑھے دکھایا گیا ہے۔”

مذکورہ بالا تمام اعتراضات جان کر میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ معترضین کو سب سے زیادہ اعتراض حجاب یعنی سکارف پر ہے۔ جس طرح کپڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فرانس سمیت بعض یورپی متعصب حلقوں سے برداشت نہیں ہورہا ، اسی طرح ہمارے سیکولرز اور لبرلز بھی آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ یہ جملہ بھی برداشت نہیں ہو رہا کہ "عائشہ نے نماز پڑھی "۔

یہ جو مرد صوفے پر اور عورتیں نیچے زمین پر والا اعتراض ہے، اس کے جواب میں بھارت ، اسرائیل اور تمام مغربی ممالک کی نصابی کتب پیش کی جاسکتی ہیں جن میں ایسی کئی تصاویر مل جاتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ میڈیا کا بین الاقوامی ادارہ اور ایسے بودے دلائل پر مبنی رپورٹ شائع کر رہا ہے۔

یکساں نصاب تعلیم پر اعتراضات صرف سیکولر اور لبرل طبقہ ہی نہیں کررہا، مذہبی طبقہ بھی اس سے مطمئین نہیں ہے۔ مذہبی طبقہ کے مطابق تعلیمی نصاب میں سے اسلامی مواد کو کافی حد تک خارج کردیا گیا ہے۔ ماہر تعلیم پروفیسر محمد حسین کے مطابق : اقلیتوں کے نام نہاد نمایندے، یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی پشت پناہی سے اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی سرپرستی میں درسی کتب سے اسلامی مواد کے اخراج کے لیے شوروغوغا کرتے رہے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ 2015ء سے 2019ء تک درسی کتب سے 70 اسلامی تصورات خارج کرائے گئے اور باقی جو بچا ہے اس کے اخراج کے لیے کوشش جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس سلسلے کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ’’درسی کتب میں اسلامی مواد کا ہونا اقلیتوں کے حقوق کی نفی ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے ‘‘۔

ہر دو طبقات کی طرف سامنے آنے والے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے ایک طفل مکتب بھی پکار اٹھے گا کہ مذہبی طبقہ کے اعتراضات تو علمی بنیادوں پر ہیں لیکن سیکولر اور لبرل طبقہ کو کیا ہوا ؟ وہ کیوں مضبوط اعتراضات تلاش نہ کرسکا؟؟ اگلے روز اسی سوال پر ایک جگہ بحث ہو رہی تھی۔ ایک شخص کا کہنا تھا :
ہوسکتا ہے کہ سیکولرز اور لبرلرز اس قسم کے اعتراضات کرکے مذہبی طبقے کو ایک ایسے نصاب کے حق میں کھڑا کرنا چاہتے ہوں جس میں سے کافی حد تک اسلامی مواد نکال دیا گیا ہے ۔ پروفیسر محمد حسین کے مطابق ” حقیقت تو یہ ہے کہ نیشنل کریکولم کونسل ایسے ہی سیکولر لبرل لوگوں کا گڑھ ہے، جہاں پر ٹیکنیکل ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس (Consultants) کے نام پر لبرل سیکولر لوگ بھرے گئے ہیں۔ اور وہ اندر کی خبریں دے کر اخباروں میں زہر یلے مضامین لکھواتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام دوست اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو نکّوبنادیا گیا ہے ” ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “یکساں نصاب تعلیم پر بودے اعتراضات کے پیچھے کہانی کیا ہے؟”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    جناب محترم یہ ایک چشم کشا اور تکلیف دہ حقائق پر مبنی مضمون ھے۔۔۔بہت حیرانی کی بات ھے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ھوئے ایسے اعتراضات سن رہے ہیں۔۔۔ایسے لوگ جو نصاب میں اخلاقی اور مذہبی تصورات کے لئے عدم برداشت رکھتے ہیں خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہوں ان کی مذمت میڈیا، صحافت اورعوام کی ذمہ داری ھے۔