نگہت حسین
ہوتے ہوں گے جو کھڑکی باہر کے نظارے ، تازہ ہوا اور دھوپ روشنی وغیرہ کے لیے بناتے ہیں۔
کراچی میں کھڑکی بنیادی طور کوڑا پھینکنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔
یہاں فلیٹ کی کھڑکیاں خواتین کے لیے بڑے کام کی چیز ہیں ۔ رات میں سوتے بچے کا ڈائیپر تبدیل کیا تو ہاتھ بڑھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ کنگھی صاف کر کے اس میں موجود بالوں کا گول گول کس کر گھچا بنایا ، تھو تھو کیا اور ہاتھ بڑھا کر کھڑکی سے باہر۔
گھر کے کچن کی کھڑکی تو سبزیوں کے چھلکے ، چائے کی چھنی میں بچی ہوئی استعمال شدہ پتی ، اور خراب کھانے کو بے حرمتی سے بچانے کے بے انتہا کام آتی ہے۔
کچھ خواتین کی ریسیپی خراب ہو جائے تو سارا کھانا شاپر میں ڈال کر کھڑکی سے ایسے پھینکتی ہیں جیسے نیچے کوئی برمودا ٹرائی اینگل ہے جہاں جاکر سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ دال چاول ، ٹماٹر کی چٹنی ، ترکاری سب پھینک کر کچن اور فریج صاف ہوجاتا ہے پلٹ کر دیکھنا تک گوارا نہیں کرتیں کہ نیچے کون سا شریف زادہ گزر رہا تھا کہ جس کے سر پر یہ سب کچھ گرا
اور وہ اس ماہ جبیں کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوکر نگاہیں اوپر کیے صرف یہ قیاس ہی کر رہا تھا کہ کون سی منزل سے یہ سوغات ٹپکی ہے کہ عین منہ پر آکر مزید ایک شاپر پڑ جاتا ہے جو یہ سبق دینے کو کافی ہوتا ہے کہ آئندہ کھڑکی کے نیچے سے کبھی نہ گزریو اور اگر مجبوری پڑ بھی جائے تو ناک کی سیدھ میں برق رفتاری سے اپنا رستہ ناپ لیجیو۔ کپڑے پر طرح طرح کے نقش و نگار بنوانے کے بعد بندہ دیر تک یہی سوچتا ہے کہ کس منہ سے کس طرف قدم بڑھایا جائے۔
فلیٹ میں رہائش پزیر خواتین کھڑکی سے بچے پالوانے کا کام بھی لیتی ہیں۔جیسے ہی بچہ بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے قابل ہوا اس کو کھڑکی کی جالیوں کے سہارے کھڑا کر کے ایسے بھول جاتی ہیں جیسے وہ ان کا نہیں کھڑکی کا بچہ ہو۔
کراچی اس قدر گندہ شہر ہے لیکن یہاں کے گھروں کو صاف رکھنے میں سب سے بڑا ہاتھ کھڑکی کا ہے۔ اگر یہ کھڑکی نہ ہوتی تو نہ جانے لوگ گھروں کا کچرا کہاں پھینکتے اور گھروں کو کیسے صاف رکھتے۔ غرض اگر کھڑکی کے باہر یا نیچے کوڑا اور گند نظر نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ادھر کوئی غیر ملکی رہائش پزیر ہے، یا گھر خالی ہے۔
اکثر مرد حضرات گرمی سے پریشان انتہائی بے ہودہ حلیے میں کھڑکی میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور اس پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ اکثر تو جیل کی سلاخوں کی طرح کھڑکی کی جالیوں کو پکڑ کر سالوں پرانا بلغم نیچے تھوک تھوک کر اپنے دائمی نزلے کے مریض ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔حالانکہ نیچے کون سے دائمی نزلے کے ماہر حکیم صاحب گزر رہے ہوتے ہیں کہ مرض نظر آتے ہی دوا کی پڑیا اڑا دیں گے ۔البتہ ایسے بے ہودہ دل خراب کرنے والے لوگوں کو فلائنگ کک لگانے کا ضرور دل کرتا ہے۔
اردو ادب میں کھڑکی کے رومانی کردار کی بہت اہمیت ہے۔ کافی ادیبوں نے کھڑکی کے ذریعے کئی معصومانہ عشق پروان چڑھائے ہیں ۔
اسی لیے کھڑکی تانکا جھانکی ، عشق و محبت وغیرہ کے لیے بھی کافی کام آتی رہی ہے۔
شاعروں نے بھی کھڑکی کے ان استعمالات کو کافی واضح کیا ہے جیسے
اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا
جس پر تیرا نام لکھا اس تارے کو ڈھونڈوں گا
ناصر کاظمی ہی کو دیکھ لیں
سوگئے لوگ اس حویلی کے ۔۔۔۔۔ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی اور
ایک کھڑکی گلی کی کھلی رات بھر
جانے کس کی منتظر رہی رات بھر
کھڑکی تعلیمی میدان میں بھی طلبہ کی خاصی مدد کرتی ہے۔ امتحان میں کامیابی کا خاصہ دار و مدار امتحانی کمرے کی باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیوں پر ہوتا ہے۔
کچھ طلبہ کھڑکی کو اپنے لیے کمرہ جماعت میں ہونے والے تعلیمی تشدد سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں . اپنے آپ کو مثبت رکھنے اور روح کو زخمی ہونے سے بچانے کے لیے کھڑکی ہی واحد سہارا ہوتی ہے جو کہ موجود ہوتے ہوئے بھی منظر سے غائب کر دیتی ہے۔جدید کمپیوٹر کو انقلابی تبدیلی سے روشناس کروانے والی یہی کھڑکی ہے۔یعنی ونڈوز جس کے بغیر آپ کا کمپیوٹر کچھ بھی کر سکنے کے قابل نہیں۔
غرض کھڑکی بہت کام کی چیز ہے۔کچھ لوگ طرح طرح کی خوب صورت کھڑکیاں تو گھروں میں لگا لیتے ہیں لیکن اس کے استعمال کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ ان میں سے بعض کی کھڑکیاں ہمہ وقت باپردہ رہتی ہے خود کھڑکی ایسے گھروں میں اپنا دم گھٹتا محسوس کرتی ہے۔
پتہ نہیں آپ کھڑکی سے کیا کام لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟