نگہت حسین
ایک تو ہمارے گھروں میں ابھی تک جھاڑو کے درست مقام کا تعین نہیں ہوسکا ہے . دروازے کے پیچھے ، فریج کے نیچے، بالکونی کے کونے میں ، اسٹور روم ، تخت کے نیچے ، پلنگ کے نیچے، کسی پنجرے کے پیچھے ہی رکھی جاتی ہے ۔۔۔ جس سے جھاڑو کی بہت ناقدری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
دیکھا جائے تو جھاڑو کی ناقدری کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی۔۔۔۔۔۔کیوں کہ ازل سے انسان اور جھاڑو کا ساتھ رہا ہے ۔۔۔ اس کے باوجود یہ ابھی تک پتہ نہیں لگ سکا کہ پہلی جھاڑو کب اور کس نے ایجاد کی ہے اور سب سے پہلے جھاڑو کہاں اور کس جگہ لگائی گئی ۔۔۔۔۔ چینیوں کی ایجادات کی تاریخ دیکھ کر یہ گمان ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چینیوں نے ہی ایجاد کی ہو لیکن وہ فی الحال اس قدیم اور غیر الیکٹرونکس قسم کی ایجاد کا کریڈیٹ لینے کو تیار نہیں لہذا خاموش ہیں۔
تاریخ بھی جھاڑو کے بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے جھاڑو کی تاریخ کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے محدود گھریلو علم کے مطابق جھاڑو کی دو ہی اقسام ہیں ایک پھول جھاڑو جس میں ڈھونڈے سے بھی پھول نہیں ملتا ۔بلکہ عجیب چھپکلی کی کھال جیسے رنگ کی کمزور سی اس جھاڑو کو گھر لایا جائے تو اس کو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک کینچلی بدلنے جیسے عمل سے گزارنا پڑتا ہے۔ اس دوران پھول نامی یہ جھاڑو باریک باریک ذرات کو جھاڑ نے کے عمل سے گزرتی ہےجس کو آپ دل کی تسلی کے لیے خوشگوار انداز میں پت جھڑ کا موسم آنا کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔جس کے بعد سرکنڈے کے چند ڈنڈیاں ہی بچ جاتی ہیں جن کو آپ صفائی کے بجائے اگر سلیقے سے سنبھال لیں تو گرمیوں میں قلفی کو سہارا دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
جھاڑو کی دوسری قسم ہے تنکوں والی جھاڑو جس بے چاری کو نہ جانے کتنے عرصے سے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہوتا ہے کہ قیدیوں کی طرح اس کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو کار آمد بنانے کے لیے اس کی نوکیں کاٹنی پڑتی ہیں۔ پھر اس کے بکھرے تنکوں کو کپڑے کی لمبی سی دھجی سے کس کر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ تنکے سمٹے رہیں اور قابو میں رہے لیکن یہ جھاڑو بھی کیوں کہ اب ماڈرن ہوگئی ہے اس لیے اب اکثر بالوں میں لگائی جانے والی پونی سے اس کو کس کر باندھا جانے لگا ہے ۔
نوکیں کاٹنے کے اس عمل کو جھاڑو اپنا قد کاٹھ کم کرنے کی سازش سمجھتی ہے اس لیے یہ جھاڑو گھریلو عورتوں کے خلاف رہتی ہے کیوں کہ ان عورتوں کو اس کو استعمال کرنے کا یہی مخصوص انداز پتہ ہے البتہ خاکروبوں کے ہاتھوں میں خوش رہتی ہے کیوں کہ وہ اس جھاڑو کو بہت مہارت سے استعمال کرتے ہیں ۔ تنکے والی اس جھاڑو کو لاہور میں مانجا کہتے سنا ہے۔
جھاڑو کی تیسری قسم مغربی روپ میں ملتی ہے دونوں کی شکل و صورت اور کام کا فرق بھی وہی ہے جو مشرق و مغرب میں ہے ۔ البتہ مغربی جھاڑو کی جادوگرنی کے ساتھ بڑی وابستگی ہے جس پر بیٹھ کر وہ رفو چکر بھی ہوجاتی ہے ۔ اگر ہمارے گھروں میں ایسی جھاڑو دستیاب ہوجاتی تو خدشہ تھا کہ شام تک کتنی ہی عورتیں رفو چکر ہوچکی ہوتیں جن کے لیے یہ بات خود عورتوں ہی نے مشہور کی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ جادو گرنیاں ہیں۔
ہر چمکدار صاف ستھرے گھر کے پیچھے جھاڑو ہوتی ہے لیکن ہر جھاڑو کے پیچھے ایک غریب ہوتا ہے ۔ شاید اسی غریب کی وجہ سے جھاڑو کو کوئی عزت کے قابل نہیں سمجھتا ۔ جھاڑو دو ہی وجوہات کی بناء پر اٹھائی جاتی ہے ایک تو صفائی ستھرائی ، دوسرا کسی کی ٹھکائی ، پہلے یہ دونوں کام صنف نازک جھاڑو سے بخوبی لے لیا کرتی تھی ۔ کبھی جھاڑو پکڑنا اور لگانا دونوں ایک فن سمجھا جاتا تھا لیکن اب اسے ایک غم سمجھا جاتا ہے ۔ فن صرف ماسی تک محدود رہ گیا ہے جو کھڑے کھڑے جھاڑو پر جھاڑو پھیرتی ہے۔
جھاڑو جوتا اور بیلن گھریلو قسم کے وہ ہتھیار ہیں جن کو غریب اور گھریلو عورتوں کی پہنچ میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے بڑی مہارت سے گھروں میں استعمال ہوتے دیکھا گیا ہے۔
سب سے زیادہ اس کا نشانہ بچوں کو بنتے دیکھا ہے جبکہ شوہروں کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف لطیفے ہی ہیں بھلا جھاڑو کسی شوہر کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
امیر عورتیں البتہ اپنے جذبات کا اظہار کوئی قیمتی گلدان سر پر توڑ کر کرتی ہیں کیوں کہ جھاڑو ان کی پہنچ میں نہیں ہوتی ۔
سیاست میں بھی جھاڑو کی اہمیت سے انکار نہیں ، اکثر سیاہ ست دان جھاڑو پھرنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ یہ خود ملک و ملت کی ہر چیز پر جھاڑو پھیر چکے ہیں۔
جھاڑو کی عزت تو ہندوستان کی عام آدمی پارٹی نے پہچانی ہے جس نے اپنا انتخابی نشان ہی جھاڑو رکھا ۔ ہمارے ملک میں یہ انتخابی نشان ساری سیاسی جماعتوں کو دے دینا چاہیے کیوں کہ سب ایک ہی کام کررہی ہیں یعنی قومی خزانے اور غریبوں کی صفائی ۔ اس طرح کسی کا ووٹ ضائع نہیں ہوگا اور مشترکہ مفادات کی کونسل ٹائپ حکومت بننے کی وجہ سے جھاڑو پھیرنے میں بھی آسانی رہے گی۔
جھاڑو پر بہت سے اشعار بھی ہیں البتہ جھاڑو کا عشق و عاشقی اور محبت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس سے تعلق رکھنے والوں کا دماغ درست کرنے لیے اچھے طریقے سے استعمال کی جاسکتی ہے ۔ اب تو جھاڑو بھی وقت کی چکی میں پستے پستے بہت کمزور ہوگئی ہے . دکان تک تو اپنا بچا کھچا وجود برقرار رکھتی ہے لیکن جیسے ہی کسی مہربان کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے بکھر کر ختم ہوجاتی ہے ۔جیسے بس اسی کے ہاتھوں دم توڑنے کا انتظار ہو۔۔۔۔۔۔
ایسے میں جھاڑو خریدنے والا اگر مرد ہوا تو شکر ادا کر کے وہی پھینک آتا ہے اور عورت ہوئی تو جھاڑو کی لاش کو لے کر دکان تک دوبارہ پہنچتی ہے . دکان والے کے خوب لتے لینے کے بعد جھاڑو کے بکھرے وجود کو کس کر دوبارہ سے باندھتی ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کام چوری کے طعنے سن کر جھاڑو پھر سے کام کے لیے کمر کسوا لیتی ہے۔
آپ کیا کرتے ہیں جھاڑو لگاتے ہیں یا جھاڑو پھیرتے ہیں؟
2 پر “آپ جھاڑو لگاتے ہیں یا جھاڑو پھیرتے ہیں؟” جوابات
شکر ھے کہ بادبان میں کوئی ہلکی پھلکی مزاحیہ تحریر بھی نظر آئی ھے۔۔۔۔ورنہ مذہب اور سیاست کی اجارہ داری نظر آتی ھے ھاں اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل اشوز کی ڈسکشن نما تحاریر کے لئے بھی ” بادبان” ایک بہت موثر پلیٹ فارم ھے۔۔۔۔ بہرحال مصنفہ نے جھاڑو کے مقام کے تعین والی بات بالکل درست کہی ھے۔۔۔میرے گھر میں بھی اسے ھمیشہ چھپا کر رکھا جاتا ھے۔۔
مذہب اور سیاست کی اجارہ داری
آپ نے توجہ دلائی ، آپ کی رائے ہمارے لئے قابل قدر ہے۔ بہت شکریہ