china and Taliban

طالبان اور پاکستان پالیسی

·

محمد بلال اکرم کشمیری

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو گیا ہے،دنیا نے دو سپر پاور طاقتوں کا انجام دیکھ لیا ۔افغانستان سے نکلنے والے امریکیوں کو اسلام آباد کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا ہے ۔جہاں سے وقتًا فوقتاً امریکی جہازوں کے ذریعے سے انہیں امریکہ منتقل کر دیا گیا ہے اور بعض دیگر شہریوں کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے ۔دوسری جانب طالبان کی دوحہ میں ہندوستان سے باضابطہ بات چیت کا بھی آغاز ہوچکا ہے حالانکہ طالبان کے پہلے دور اقتدار میں ہندوستان طالبان مخالف قوتوں سے مل کر طالبان کے خلاف لڑتا رہا ہے ۔ پاکستان اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا کہ آیا افغان طالبان کو تسلیم کرے یا نہیں ؟ تاہم طالبان کی جانب سے پاکستان کے لیے تاثرات مثبت ہیں،البتہ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) ایک دوسرے کی سیاست میں مداخلت سے گریز کریں۔

طالبان جہاں ایک جانب تیزی سے افغانستان میں مضبوطی سے قدم جما رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان مسلسل اندرونی اور بیرونی کشمکش کا شکار نظر آرہا ہے ، اس کی پالیسی مسلسل ابہام کا شکار نظر آرہی ہے ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں مگر ماضی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اب تک کسی نتیجے پر ضرور پہنچ جانا چاہیے تھا ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ماضی میں کی کسی غلطی کا احساس اب شدت اختیار کر چکا ہے اور پاکستان اس کے ازالے تک فوری طور پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہتا ۔اس سلسلے میں پاکستان کا اب تک موقف یہی ہے کہ وہ باقی دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں (جن میں ظاہر ہےکہ امریکہ سہر فہرست ہے ) کہ افغانستان کے بارے میں کیا موقف اپناتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی پاکستان بھی اپنا فیصلہ کرے گایا شاید ابھی پاکستان افغانستان میں امارات اسلامیہ کے باقاعدہ اعلان کا منتظر ہے تاکہ اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جاسکے۔

دوسری جانب چین نے طالبان سے قبل از فتح ہی تعلقات استوار کر لیے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فتح کے فوراً بعد ہی دنیا کی ویٹو پاور نے اسے تسلیم کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں کیا ۔اب چین کی نظر واہ خان پٹی پر ہے جہاں سے وہ افغانستان کے راستے سینٹرل ایشیا تک رسائی حاصل کر سکتا ہےاور واہ خان پٹی یا راہداری وہ علاقہ ہے جو کہ تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتا ہے،اس کا استعمال کرکے چین خطے میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھا سکتا ہے اور سپر پاور کے طور پرآنے کی پوری کوشش کرے گا ،اس سے نہ صرف چین کو تقویت ملے گی بلکہ امریکہ کا راستہ بھی باآسانی روکا جا سکتا ہے ، تاہم چین کا طالبان سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ چین میں چل رہی اسلامی تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے اور افغانستان میں موجود ان کے کیمپس کو بند کر دیں گے،ایسا ہی مطالبہ ہندوستان سے بھی آیا کہ افغانستان میں ہندوستان مخالفت قوتوں کا تدارک کیا جائے،کیونکہ ہمسایہ ممالک کو سب سے زیادہ تحفظات اس بات پر ہیں کہ افغانستان کی سر زمین ان کے خلا ف استعمال نہ ہو،ایسے تمام مطالبات اورخدشات پر طالبان نے رد عمل دیتے ہوئے کہاہے کہ وہ افغانستان کی سر زمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔

یورپی ممالک نے بھی طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے کچھ شرائط سامنے رکھی ہیں جن کا ماننا طالبان کے لیے بنسبت آسان ہے ،اس میں سے پہلی شرط ان کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے ،روسی صدر ولادی میر پوتن نے بھی اپنا جھکاؤ طالبان کی طرف ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں طالبان مہذب ہونے کا ثبوت دیں گے تاکہ عالمی برادری ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکے۔

اس ساری صورت حال میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن اور فوج کے ساتھ ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر ایک مضبوط اور جامع پالیسی بنائے اور پھر اس خارجہ پالیسی کی روشنی میں طالبان سے مذاکرات کرے ،اگر مالی مفادات سے کام نکل رہا ہوتو ماضی کی غلطیوں کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ چار و ناچار پاکستان کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔امید ہے کہ پاکستان ایک واضح اور ٹھوس پالیسی بنائے گا تاکہ افغانستان میں جاری امن عمل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ بنا سکے۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں