محمدعثمان جامعی
ہم مغرب کو ترقی سے ہمکنار کرتے ہر ڈھنگ کے مقابلے میں اُس کے رنگ سے متاثر ہیں۔ لڑکوں کی مائیں بہو ڈھونڈتی ہیں تو پہلی شرط ہوتی ہے ’گوری ہو‘۔ بعض ایسوں کے لیے بھی گوری دلہن ڈھونڈی جاتی ہے جن کی رنگت گورے پن سے مکمل کوری ہوتی ہے۔ کسی کو ان کے چہرے پر اپنا اعمال نامہ نظر آتا ہے تو کوئی اپنے دل کا ایکسرے دیکھ لیتا ہے۔ ایسے بیٹوں کی ماؤں کی خواہش پوری ہوجائے تو جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کے راج کا منظر سامنے ہوتا ہے، اور گوری بہو لانے والی خاتون جو گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھیں اب اپنے سیاہ کی ملکیت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔
خیر یہ تو ہم نے یوں ہی برسبیل تذکرہ لکھا ہے، ہمیں تو رنگ گورا کرنے کا ٹوٹکا بتانا ہے۔ بڑا آسان ٹوٹکا ہے۔ بس کچھ دن تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ گزاریے، ڈھٹائی اور کھلی حقیقت سے انکار میں کمال حاصل ہوجائے گا۔ پھر دھڑلے سے جنید جمشید کا ایک گانا ذرا سی ترمیم کے ساتھ گا گاکر لوگوں کے ساتھ خود کو بھی سُنائیے، ’مجھے ڈر کس کا ہے، مرا تو رنگ گورا ہے‘۔ اس ٹوٹکے پر عمل کرنے کے بعد جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ٹام کروز اور بریڈ پٹ کا عکس نظر آئے گا۔