شیباءعرفان
تاریخ کے بارے میں عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ تاریخ ایک خشک اور غیر دلچسپ مضمون ہے ۔ لوگ بڑی حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے پڑھ لیتے ہیں اس خشک مضمون کو؟ پھر لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ نے تاریخ سے کچھ نیا اخذ کیا آج تک ؟ آپ کو یا د کیسے ہو جاتی ہے؟ ہمیں تو مطالعہ پا کستان کی کتاب سمجھ نہیں آتی تھی ۔ نفرت تھی اس سے ۔
یہ باتیں اور یہ سوالات عمومی طور پر طلبہ و طالبات اور ارد گرد کے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ جنھیں میں اچھے سے سنتی ہو اور مطمئن کرنےکی کو شش کر تی ہوں۔
تاریخ کے بارے میں ایسے سوالات اور خیالات صرف اس لئے ابھرتے ہیں کہ ہم نے تاریخ کو مذاق بنا کر رکھا۔ جب ہم میں اپنے زمینی ، جغرافیائی خدوخال اپنے آبائو اجداد کو یا د کرنے ، انہیں تلاش کرنے کی رمک نہ رہی تو ہم نے سنی سنائی باتوں کو تاریخ مان لیا ۔ اسی پر تکیہ جما کے اونگھنا شروع کر دیا ۔ جب ہم کسی بات کو ، کسی شخص کو ،حقائق کو پس پشت ڈالیں گے تو دوری تو جنم لے گی نا !.
تاریخ ہمیشہ اس استاد نے پڑ ھائی جس کا تعلق یا تو دینیا ت سے ہوتا تھا یا اردو اور دیگر مضامین سے ہوتا . وہ آ کے ہمیں کہتے آج فلاں صفحے سے فلاں صفحے تک پڑ ھ لینا ، بس کام ختم ، تو نفرت تو یقینی تھی نا ! خشک اور مشکل تو لگنا تھا ۔
تاریخ ہو یا کوئی بھی مضمون ، جب تک اس کی سمجھ اور اس مضمون سے دلچسپی رکھنے والا استاد آپ کو نہیں پڑھائے گا ، نہیں سمجھائے گا تو آپ کب سمجھ سکیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین ، سرپرست شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان ، جامعہ پنجاب ، لاہور تاریخ سے محبت اور اس نفرت کو کم کرنے کے لیے کہتے ہیں:
"تاریخ ہمارا حافظہ ہوتی ہے ، جس یاد کو ہم بھولنا نہیں چاہتے اس سے دلچسپی کے کئی پہلو تراش لیتے ہیں۔”
ڈاکٹر شا ہ زیب خان اسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ انگریزی ادب ، جامعہ پنجاب کہتے ہیں :
” میرے نزدیک تاریخ انسان کی زندگی کی مقصدیت اور مستقبل کی راہ کی جستجو اس کو ماضی کی جانب دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔”
ڈاکٹر خضر جواد شعبہ تاریخ ،فارمن کرسیچن کالج ، یونیورسٹی ، لا ہور کہتے ہیں :
تاریخ کا ہر پہلو نمایاں ہو تو تاریخ میں دلچسپی جنم لے سکتی ہے . تا ریخ سے محبت اور شعور پیدا کرکے بہت سے ابہام اور وسوسوں سے بچا سکتا ہے ۔ تاریخ سے محبت پیدا کرنا اور نئی نئی جہتوں کو سامنے لانا ہر پہلو کو اہمیت دینا تاریخ سے محبت پیدا کر سکتا ہے۔
تا ریخ معاشیات ، سیاسیات ، دینیات ، طبعیات حتی کہ زندگی کے ہر شعبہ کے ساتھ منسلک ہے ۔ مگر شعور کی کمی ، آگہی کا نہ ہونا ہمیں تاریخ سے نفرت سکھا دیتا ہے ۔ حالانکہ تاریخ کے بغیر تو کسی علم کا وجود نہیں ، کامل ہونا یہ سمجھنا تو ایک حماقت ہے۔ کیا جو کیمسڑی ، فزکس اور ہر شعبہ تعلیم میں جو پڑھایا جا رہا ہے کیا وہ فی الواقع نازل ہوتا ہے ؟
نہیں ، ناں ! صدیوں پہلے کیے ہو ئے تجربات کو آج پڑ ھایا جاتا ہے , اصل میں یہی تاریخ ہے ۔ اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لامحالہ تاریخ سے پالا پڑتا رہے گا۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں ، کسی بھی علاقے میں چلے جائو تاریخ سے بھاگ نہیں سکتے ۔
برصغیر کی تاریخ ہو ، یا تاریخ پاک و ہند ہو ، برطا نوی راج کے بعد اصلی بیا نیے سے ہٹا کے ریا ستی اور جبری بیانیے کا استعمال کروایا گیا جس نے تاریخ کا اصل چہرہ مسخ کر دیا ۔ اور نفرتوں کا ایسا جال ڈالا کہ مسلما ن کا ہیرو ہندووں کا ولن ( دشمن ) اور ہندووں کا ہیرو مسلمانو ں کا دشمن بن گیا ۔جس کی صرف ایک مثال پاکستانی بیا نیے کی ہے کہ
محمدعلی جناح مسلمانوں کے لیے قائد اعظم محمد علی جنا ح ہیں اور گاندھی جی بزدل اور مکار بتائے جاتے ہیں ۔یہی حال انڈین بیانیے کا ہے۔
وقت کی ضرورت یہی ہے کہ مخصوص حالات میں سمجھداری کے ساتھ ریاستی بیانیے کو تاریخ سے دور رکھا جا ئے اور لو گوں کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جا ئے۔ اب دنیا بدل گئی ہے رد نو آبادیات کی تحریکات نے جبری بیانے کو بدلنے کی کوشش کی ہے جو تاریخ سے انسانوں کو متنفر کر رہی تھی ان تحریکات نے تاریخ کو اصل حقائق کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کا کام شروع کیا اور متعصب رویہ کو کم کرنے اور سوال اٹھانے کی اجازت دی۔
پروفیسر رومیلا تھاپڑ اپنی کتاب Interpreting early "india میں لکھتی ہیں ہماری ابتدائی تاریخ کا بیانیہ یورپین مفاد سے جوڑا گیا ہے وہ لکھتی ہے اسی یورپین بیانیے نے ہمارے قومی بیانیے پر سوالیہ نشان ڈالا ہے۔ Edward Said اپنی کتاب Orientalism (استشراق)میں لکھتے ہیں
"مشرقیت کی روح ناقابل تلافی ہے،جو مغربی برتری اور مشرقی کمتری میں امتیاز کرتی ہے”۔
تاریخ کے ساتھ ایک اور ظلم ہمیشہ سے روا رکھا گیا ہے۔
امریکن مصنف ڈان برائون(Dan Brown) اپنی کتاب The Da Vinci Code میں لکھتے ہیں،
"تا ریخ ہمیشہ فاتحین لکھواتے ہیں،جب دو ثقافتیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے تو پسپا ہو نے والوں کو ختم کر دیا جاتا ہے اور فاتحین لکھتے ہیں ، کتابوں میں وہ اپنے مقصد کو عظمت دیتے ہیں اور فتح یافتہ دشمن کو نا پسند کرتے ہیں۔
جیساکہ نیپو لین نے کہا تھا ” تاریخ کیاہے؟ ترویج یافتہ داستان”
تاریخ دان کو چاہیے کہ زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرتی ،معاشی ،سیاسی اور مذہبی احساسات کا بھی خیال رکھے ۔ تاکہ تاریخ سے نفرت ، لو گوں سے نفرت ، مطا لعہ سے دوری اور شخصیت پرستی سے نکالا جا سکے ۔ تاریخ دان کے جذبات کو اہمیت دی جائے تا کہ وہ لو گوں کے دلوں پر اثر کر سکے اور حقائق سے آ شنائی ہو۔ نہ کہ اسے پڑھتے ہو ئے اکتا ہٹ محسوس ہو۔
تا ریخ دان ہی اس تاریخ سے دوری اور بیزاری کو کم کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ لو گوں کے اندر سوال کا جذبہ پیدا کر کے اور
تا ریخ کو ہر پہلو سے سمجھا کے۔
6 پر “ایک نئی اختراع تاریخ میں : احساسات و جذبات کی تاریخ” جوابات
بہت ہی عمدہ تحریر۔۔۔ الفاظ کا چناؤ بہت خوب کیا گیاہے اور جس طرح سے تاریخ کے حوالے سے بات کی گئی انتہائی خوبصورت انداز۔۔۔۔ ہم ہمیشہ تاریخ کو خشک ہی کہتے ہیں در حقیقت اس میں جو دلچسپ حقائق ہیں ہماری نظر اندازی نے ہی اسے ہم سے دور رکھا۔۔۔۔
میں سچ کہوں تو جو تعارف آپ نے کروایا
"یہ خشک لگتا ہے اور لوگ اسے سنجیدہ نہیں لیتے”
حقیقتاً میرا بھی کچھ اسی طرح کا نظریہ تھا میں انٹر کی زندگی تک اسے رٹے سے پاس کرتی آئی
زندگی میں موڑ تب آیا جب آپ نے مجھے پڑھایا 🌹 اور آج یہی نتیجہ ہے کہ مجھے جہاں پر بھی اس دنیا کے ماضی کا پردہ چاک کرنے کو ملے میرا سارا دھیان اسی طرف ہوتا ہے (صرف پاکستان کی تاریخ نہیں بلکہ ہر وہ تاریخ جو اس دنیا کے ساتھ اور اس کے لوگوں کے ساتھ جڑی ہے)
سچ میں آپ کی تحریر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی🌹✨ ہمیشہ اسی طرح کامیاب ہوں
یہ تحریر جو تاریخ کے مضمون کے متعلق میں نے ابھی پڑھی ہے بہت زبردست ہے ایسا لگتا ہے جیسے آج کل کے طلباء کے تاریخ سے متعلق بہت سے سوالوں کا جواب اس میں ہے ہمیں ایسی باتوں کو زیادہ سے زیادہ آگے پہنچانا چاہیے تاکہ معاشرے میں آگاہی پیدا ہو۔
بہت زبردست 💫
❤ Well said
مس شیبا میں آپ کی بات سے متفق ہوں ہمیں تاریخ کے بارے میں صحیح پڑھایابھی نہیں گیا۔جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کو تاریخ ایک بوج لگتی ہے اور جو ملک اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی ؤہ اپنا حال ،مستقبل بھی ٹھیک نہیں کر سکتی۔
زبردست بہت اچھا ہے ، اس سے پہلے واقعی کبھی تاریخ پڑھنے میں دلچسپی محسوس نہیں ہوئی ،لیکن یہ بہت اچھا لکھا ہے۔