پردے کا دہرا معیار کیوں؟

پردے کا دہرا معیار کیوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

 ڈاکٹر خولہ علوی

“بیٹا ! اگر آپ نے میری بیٹی صبا کو اپنی طرح پردہ کروا دیا تو تب میں سمجھوں گا کہ آپ نے میری بیٹی سے حق دوستی ادا کیا ہے۔” میری سہیلی صبا کے والد نے مجھے کہا۔

ایف ایس سی میں، میں نے اور میری سہیلی نے فزکس اور میتھ کی ٹیوشن پڑھنے کے لیے ایک اکیڈمی میں داخلہ لیا ۔صبا سے میری کافی اچھی دوستی تھی ۔گھر نزدیک ہونے کی وجہ سے ہمارا آنا جانا بھی اکٹھے ہی ہوتا تھا ۔اس کے علاوہ بعض اوقات پڑھنے کے لیے بھی ہم ایک دوسرے کے گھر چلی جاتی تھیں۔ ایک دن میں صبا کے گھر گئی تو دروازہ اس کے والد صاحب نے کھولا ۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے مجھے صبا کو پردہ کروانے والی بات کہی۔

مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ اس کے والد صاحب اپنی بیٹی کو پردہ کروانا چاہتے ہیں۔ میں نے بعد میں صبا سے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ خاموش رہی ، کچھ نہ بولی ۔ میں نے اسے کافی سمجھایا ۔ وہ سلیم الفطرت لڑکی تھی ، بڑی سی چادر تو وہ پہلے ہی لیتی تھی ۔ میرے مسلسل سمجھانے پر رفتہ رفتہ اس نے اسی چادر سے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہوئی ۔

صبا نے مجھے بتایا کہ “اس کی والدہ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور اس کی والدہ اپنی شادی سے پہلے شرعی پردہ کرتی تھیں۔ اس کے نانا جان عالم دین تھے اور لوگوں کو دین کی رسمی و غیر رسمی تعلیم دیتے تھے۔ لوگ ان کے پاس مسائل وغیرہ پوچھنے آتے تھے ۔ اس کے والد صاحب اپنی شادی سے پہلے اس کے نانا جان کے پاس مختلف ذاتی مسائل کے حل کیلئے آتے تھے۔ وہ بڑے باصلاحیت انجینئر تھے اور اچھےعہدے پر فائز تھے۔

رفتہ رفتہ تعلق بڑھا تو دونوں خاندانوں کا میل جیل شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ اس کے دادا نے اس کے والد صاحب کے لیے اس کی والدہ کا رشتہ طلب کیا۔ اس کے نانا جان نے انہیں رشتہ دے دیا۔ اگر چہ اس کے والد کی دینی تعلیم بالکل نہیں تھی۔ شادی کے بعد اس کے والد صاحب کا ایک نیا روپ سامنے آیا جب انہوں نےاس کی والدہ کو پردہ کرنے سے منع کر دیا۔

اس کی والدہ نے برقعہ اوڑھنا اور نقاب کرنا چھوڑ کر چادر لینی شروع کر دی اور چہرے کا پردہ کرنا بھی ترک کردیا۔”اگر تم نے پردہ کرنا نہ چھوڑا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔” اس کےوالد صاحب نے انہیں کہا تھا۔

اس کے نانا جان کے سمجھانے بجھانے کا بھی اس کےوالد صاحب پر چنداں اثر نہ ہوا بلکہ انھوں نے اس کی والدہ کو اپنے ماں باپ کے گھر جانے سے بھی روک دیا۔ اپنی والدہ کی طرح ہم دونوں بہنیں بھی صرف چادر لیتی ہیں۔ ہمارا اب اپنے ننھیال والوں سے ملنا جُلنا تو ہے لیکن نانا جان اور نانی جان کی وفات کے بعد وہ سب لوگ مذہبی احکامات و روایات چھوڑ چکے ہیں۔

میرے ماموؤں اور خالاؤں کے خاندان میں ایسی تمام رسومات اور طور طریقے پائے جاتے ہیں جو "جدیدیت” کے نام پر ہمارے معاشرے میں متعارف ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی موبائل ، ٹی وی ، وی سی آر ، کیبل ، انٹر نیٹ غرض ہر چیز موجود ہے اور ان کا ہر وقت استعمال ہوتا ہے ۔ گھر کا ماحول بگڑا ہوا ہے ۔ بڑا بھائی ابو کے کنٹرول میں نہیں ہے اور نہ ہی اچھی تعلیم حاصل کر سکا ہے۔ جب سے میں اور میری بہن نے کالج میں داخلہ لیا ہے ، تب سے میرے والد صاحب کے رویے اور سوچ میں مجھےقدرے تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ 

میں نے انہیں کئی دفعہ پریشان اور تنہا بیٹھے دیکھا ہے ۔ پتہ نہیں ، وہ کیا سوچتے ہیں؟ مجھے اور میری بہن کو انہوں نے کبھی پردہ کرنے نہیں کہا لیکن مجھے ان کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کے نظریات میں پردہ کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے۔

اب آپ سے انھوں نے کہا ہے کہ ‘میری بیٹی کو بھی پردہ کی طرف مائل کرو۔” تو مجھے حیرت تو نہیں ہوئی لیکن میرے دل میں یہ خیال تو ضرور آتا ہے کہ میری والدہ کا تو انھوں نے پردہ ترک کر وا دیا تھا اور ہماری والدہ کے پردہ کرنے پر انہیں شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ وہ "جدیدیت” کے نام پر اسے دھبہ سمجھتے تھے۔ اب اپنی بیٹیوں کے لیے تو ان کی غیرت جاگ اٹھی ہے۔ وہ ان کا صرف چادر لینا ناکافی سمجھتے ہیں اور انہیں پردہ مکمل کروانا چاہتے ہیں۔”

میں صبا کے منہ سے ساری داستان سن کر دم بخود رہ گئی۔ مجھے بےحد حیرت ہو رہی تھی۔ میرا ذہن پردہ کے بارے میں اس تضاد کو مشکل سے قبول کر رہا تھا۔ آخر انسان کا اتنا دہرا معیار کیوں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے کچھ اور چاہتا ہے اور اولاد کے لیے اس کی خواہشات اور ترجیحات کچھ اور متعین ہو جاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اپنی خواتین کو خاندانی طور پر یا رسما پردہ کرواتے ہیں یا خواتین خود بھی ایسا پردہ کرتی ہیں۔ تو یہ لوگ شریعت کے احکامات کے مطابق پردہ کے مقاصد اور اس کی حقیقی روح سے واقف نہیں ہوتے۔ پھر وہ خواتین پوری طرح پردہ کی پابندی نہیں کرتیں بلکہ اپنے تئیں سمجھ دار بن کر صرف “حسبِ ضرورت” پردہ کرتی ہیں۔ مثلاً اگر وہ اپنے محرم مردوں کے ساتھ گھر سے باہر جائیں ، بائیک پر یا گاڑی میں ، تو تب وہ پردہ نہیں کرتیں لیکن اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں انہیں مردوں کے ساتھ یا خود جانا پڑے تو پردہ کر لیتی ہیں۔

اگر گھر میں کوئی بھی غیر محرم مرد آجائے تو اس سے پردہ نہیں کرتیں کہ “یہ تو ہمارے ابو کے دوست اور ہمارے انکل ہیں۔ یہ بڑے بھائی کے دوست ہیں ، یہ ہمارے چچا کے میل ملاقات والے ہیں۔ یہ میرے شوہر کے کزن یا دوست یا باس ہیں۔ ان سے کیا پردہ کرنا! وغیرہ وغیرہ”

اسی طرح بعض اوقات خواتین راستے میں جارہی ہوں تو انہوں نے پردہ نہیں کیا ہوتا لیکن اگر کوئی جان پہچان والی خاتون یا مرد نظر آجائیں ، تو اس وقت فوراً اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ گویا باقی سارے جہان سے پردے کی ضرورت نہیں اور صرف جان پہچان والوں کے سامنے پردہ کرنا ہوتا ہے ۔ جیسے انہوں نے آپ پر  پردہ کرنا فرض قرار دیا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ہے اور ان کے سامنے پردہ کرکے آپ پردے کا مقصد پورا کر رہی ہیں۔

بعض طالبات  مخلوط تعلیمی اداروں اکیڈمی ، کالج یا یونیورسٹی وغیرہ میں پہنچ کر گاؤن اور سکارف یا سٹالر اتار دیتی ہیں اور صرف میچنگ دوپٹہ یا برائے نام پٹی گلے میں ڈال لیتی ہیں۔ بسااوقات خواتین سارے جہان میں پردہ کرکے اپنے محلے یا گلی میں پہنچ کر پردہ اتار دیتی ہیں جیسے یہاں ان کے سارے محرم موجود ہوں اور اب انہیں پردہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

؎ بے پردہ کل نظر آئیں جو چند بیبیاں 

  اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا 

  پوچھا جو آپ کا پردہ کیا ہوا؟ 

کہنے لگیں عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

یاد رکھیں! یہ سارا کچھ پردہ کے مقاصد کے خلاف ہے۔ شریعت کے مطابق احکامِ ستر و حجاب پر عمل درآمد میں معاشرہ چھوٹی بڑی بے شمار برائیوں اور گناہوں سے پاک رہتا ہے ، معاشرے میں فکر و نظر کی پاکیزگی غالب رہتی ہے اور سماج ترقی کرکے اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ جہاں معاشرے میں خواتین گھروں سے باہر نکل کر معاشرے میں غیر ضروری کردار ادا کریں اور پردہ ختم کردیں یا اس میں حیلے بہانے تراش کر برائے نام پردہ کریں تو وہ معاشرہ بتدریج زوال کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس میں اخلاقیات مذاق بن جاتی ہیں۔ اور مرد و زن کا آزادانہ اختلاط رفتہ رفتہ بہت سے گناہوں اور مسائل کو جنم دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احکام ستر و حجاب کا نزول معاشرے کی پاکیزگی اور حقیقی تعمیر وترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل وکرم ہے اور اس پر عمل درآمد میں عورت کی عزت اور وقار ہے۔ یہ شرم و حیا اور فطرت سلیم کی علامت ہے۔ عورت کا حجاب مرد کی غیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ مردوں کو غض بصر (اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھنے ) کا حکم دیا گیا ہے تو خواتین کے لیے غض بصر کے حکم کے ساتھ ساتھ احکام ستر و حجاب بھی نازل ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
ترجمہ: “اور جب تم ان (ازواجِ نبیؐ) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ (طریقۂ کار) تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔”(سورۃالاحزاب: 53)

اللہ تعالیٰ نے عورت کا اصل مقام اس کے گھر کو قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ۔
(سورۃ الاحزاب: 33)ترجمہ: “اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔”

اس عفت مآب معاشرے میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جس کی خواتین باپردہ ہوتی ہیں اور جو گھروں میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرتی ہیں۔ جو نسلوں کی امین ہوتی ہیں اور انہیں پروان چڑھا کر، ان کی تعمیر کردار کرکے، انہیں ملک وملت کے لیے نافع اور کارآمد بنا کر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔

تاہم اسلام نے خواتین کو ضرورت کے وقت پردے کی پابندیوں کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
(صحیح مسلم)ترجمہ: “تمہیں (اللہ کی طرف سے) حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔”

چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ: ترجمہ: “اے نبی! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر اپنی چادریں (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں۔ یہ طریقہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔”(سورۃ الاحزاب: 59)

اللہ تعالیٰ ہمیں احکامِ ستر و حجاب پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں