با حجاب مسلمان خواتین

حجاب : ایک مکمل نظام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرۃ العین

ہمارے معاشرے میں "حجاب” کو محض لباس کے ساتھ مخصوص سمجھا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام میں حجاب ایک پورا معاشرتی اخلاقی نظام ہے جس کے اندر غض بصر سے لے کر مرد و زن کے ضرورتاً اختلاط تک کے سارے اصول ضوابط بیان ہوئے ہیں۔

یہ نظام ایک مکمل پیکج کی صورت میں ہے جس کو مکمل اپنانے سے ہی اس کے تمام ثمرات کا حصول ممکن ہے ۔ افراد معاشرہ کی باطنی حیاء جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سر اور اس میں موجود تمام خیالات سے شروع ہوتی ہے ، سے لے کر اس کا ظاہری حال حلیہ ، دوسرے افراد خصوصاً مخالف جنس کے ساتھ اس کا میل جول حتی کہ ہم جنس کے ساتھ تعلق کی بھی حدود بتا دی گئی ہیں۔یہ وہ نظام عفت وعصمت ہے جس پر معاشرے کے امن وسکون کا دارومدار ہے ۔ ان اصولوں پر عمل میں جس قدر جھول ہوگا اتنا ہی معاشرے میں فساد برپا ہوگا۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس نظام حجاب کی ایک بڑی اور ظاہری علامت لباس سےمنسلک ہے ۔ دنیا کی ہر فوج حتی کہ تربیتی اداروں کا ایک مخصوص ڈریس کوڈ ہوتا ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا اور انہیں ایک خاص پہچان عطا کرتا ہے ۔ بالکل اسی طرح الٰہی فوج میں شامل افراد کا بھی ایک خصوصی لباس ہے جس میں ستر پوشی کا اہتمام لازم ہے ۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے اپنے ستر ڈھانپنے ضروری ہیں ۔ عورت چونکہ سراپا کشش ہے لہذا اس کی حفاظت کا بھرپور انتظام کرنے کے لئے اس کے سر اور چہرے کو بھی ستر میں شامل کیا گیا ہے۔اللہ نے فرمایا:”

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔’”الاحزاب59

اس آیت کی تعبیر صحابیات نے عمدہ طریقے سے کی اور اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپ کر اس کا حقیقی مفہوم سمجھا دیا۔

دنیا کا عام اصول ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہو گی اتنا ہی اس کے گرد حفاظتی حصار مضبوط رکھا جائے گا چنانچہ عورت کا یہ اضافی لباس اس کے قیمتی ترین ہونے کی علامت ہے اسی لئے خالق کائنات کی اس فوج میں شامل عورت پردے اور حجاب کو اپنا وقار سمجھتی ہے ۔ اسے اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں گردانتی بلکہ یہ حجاب تو معاشرے کے ناپاک عناصر اور اس کے درمیان حفاظتی باڑ protection shield کا کام کرتا ہے۔ یہ اسے اعتماد دیتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لئے آزاد ہے اور وہ دیگرانسانیت کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے مستفید کر سکتی ہے ۔

مگر کچھ عرصہ سے مغرب نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاشرتی تعبیر نو social reframing technique اپناتے ہوئے مسلمانوں کے شعار کو نشانے پر رکھ لیا جس کے تحت جہاد کو دہشت گردی سے ، اسلامی اصولوں پر عمل کو انتہاء پسندی اور پردے کو قید اور عورت کے استحصال کے ساتھ جوڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں غیر مسلموں کے دل میں اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کو بھی اپنی بنیاد سے بے زار کر دیا گیا اور اب مسلمانوں میں بھی کثیر تعداد ایسی ہے جو اسلامی اصولوں کو دقیانوسی سمجھتے ہوئے ان سے گریزاں ہے ۔

خصوصا حجاب کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور اس کی قید تصور کر لیا گیا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ہمارے اردگرد کتنی ہی ایسی باحجاب خواتین ہیں جو بہت عزت کے ساتھ اپنی معاشرتی اور معاشی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں ۔ ان کا حجاب ان کا سب سے بڑا محافظ و معاون ہے ۔ ہمیں دنیا کو یہ بآور کرانے کی ضرورت ہے کہ حجاب عورت کی تعظیم و تکریم اور شرف کی علامت ہے ۔ دور جاہلیت میں برہنگی کو جہالت اور کم حیثیت کی علامت سمجھا جاتا تھا جبکہ حجاب کو اعلی خاندانی علامت۔چنانچہ مسلم عورتوں کو باہر نکلتے ہوئے خاص تاکید کی گئی کہ جب باہر نکلو تو جاہلیت کے طرز پر اپنی سج دھج نہ دکھاتی پھرو اور اپنے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کرو۔یہ تمہاری شرافت اور اعلیٰ اقدار کی علامت ہوگی اور تم ستائی نہ جاؤ گی ۔

یعنی خدائی فوج میں شامل ہر عورت کا وقار و مرتبہ بہت بلند ہے ، وہ ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہے کیونکہ وہ بہت قیمتی ہے ، نہ ہی وہ ہوس پرستوں کے لئے نظروں کو سیر کرنے کا سامان ہے اور نہ ہی آسانی سے دستیاب جنسی تسکین کا کھلونا ۔ یہ بات غلط نہیں کہ عورت کا لباس معاشرے میں اس کے مقام اور اس کی طرف اٹھنے والی نگاہوں کا تعین کرتا ہے ۔

بلاشبہ معاشرے میں پھیلتی بے حیائی کی بہت بڑی وجہ لباس کی بے حیائی ہے اور اس کے ساتھ دیگر فحاشی کے عوامل نے شامل ہو کر جو گل کھلائے ہیں وہ سب کی نظروں کے سامنے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ باحجاب عورتوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں ہیں تو ان کے لئے عرض ہے کہ اس کی وجہ حجاب کے پورے اخلاقی نظام کو نہ اپنانا ہے ۔

حجاب ایک تہذیب کا نام ہے جو اسلامی معاشرے کے تمام افراد کو مخصوص اصولوں کا پابند کرتی ہے اور اس تہذیب میں لباس سب سے بڑا اور نمایاں عنصر ہے ۔ اس کے بعد یہ حجابی فکر فرد کے ہر عمل کو گھیرے میں لے لیتی ہے ۔ ایک انسان کے لئے اچھائی اور برائی کے درمیان ایک حجاب ہی تو حائل ہے جو اس میں جتنے چھید کرے گا اتنا اپنے آپ کو برائی کی دلدل میں پھنسائے گا پھر اس کا خمیازہ نہ صرف وہ خود بھگتے گا بلکہ اس کے چھینٹے معاشرے پر بھی پڑیں گے اور جب عمومی افراد معاشرہ اس حجاب کو تار تار کر دیں تو معاشرے کا امن و چین غارت ہو کے رہ جاتا ہے ۔

یہ حجاب خالق کی قائم کردہ حدود اور احکام ہیں جو ہمارے ظاہر سے لے کر باطنی خیالات ، لباس سے لے کر نظروں کی حفاظت ، ہمارے قول اور فعل کے ہر زاویے پر لاگو ہوتے ہیں جو فلاح انسانی کی مصلحت پرمبنی ہیں اور جن کی پاسداری ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہم سب پر لازم ہے۔

ارشاد ربانی ہے’””
کسی مومن مردوں عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔الاحزاب36


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں