عمرعبدالرحمن جنجوعہ

“ان موضوعات کا مطالعہ پسند ہے جن پر معاشرے میں بات کرنا مشکل ہے”

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

برادرعمر عبد الرحمن جنجوعہ ،تعلق راول پنڈی سے ہے ، مصنف ہیں اورعرصہ سات سال سے کالم نگاری ، بلاگنگ کر رہے ہیں،روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں ، اس وابستگی کے دوران میں رئیل اسٹیٹ اور ایجوکیشن کے شعبوں سے متعلق شخصیات کے انٹرویوز کرتے رہے ہیں،
انٹرویوز پر مشتمل نومبر 2016 میں پہلی کتاب ”زمین “شائع ہوئی۔ جس کا موضوع رئیل اسٹیٹ تھا،یہ پاکستانی تاریخ کی پہلی کتاب تھی جو زمین اور جائیداد کے حوالے سے لکھی گئی اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کوئی کتاب نہیں چھپی۔ حال ہی میں نومبر 2018 میں دوسری کتاب” لب گویا“ شائع ہوئی جو کالموں کا مجموعہ ہے ۔
ان کے ذوق مطالعہ کی بابت سوال کیا تو کہنے لگے:
“آج کل ‘الرحیق المختوم’ اور ‘شاہکار رسالت’ زیر مطالعہ ہے، الرحیق المختوم صفی الرحمن مبارکپوری کا شاہکار ہے اس کتاب میں آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل عرب کے حالات اور حضرت محمد ﷺ کی ولادت کے بعد اور ان کی نبوت سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک کے حالات پر عمدہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے”۔
“انسانیت کے رہبر حضرت محمد ٬ﷺ کے حوالے سے’ الرحیق المختوم’ کو بہترین کتاب کہوں گا ۔اس کے بعد شاہکار رسالت جو غلام احمد پرویز کی تخلیق ہے وہ بھی زیر مطالعہ ہے ،ان سے ہزار اختلافات کے باوجود یہ کہوں گا کہ اگر کسی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جاننا ہے تو وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کرنے سے پہلے اور بعد کے حالات پر بہترین انداز میں بیان فرمایا، غلام احمد پرویز کے نظریات کو ایک طرف رکھ کر بات کی جائے تو وہ شاندار اور بہترین لکھاری تھے، ان کی تحریریں دل کو چھوتی ہیں ، ان کا انداز بیاں قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے”۔
عمومی طور پر کیسے موضوعات پسند ہیں؟
عمرعبدالرحمن کہتے ہیں:
“ان موضوعات کا مطالعہ پسند ہے جن پر ہمارے معاشرے میں بات کرنا مشکل یا ناممکن ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے تمام مصنفین میرے پسندیدہ ہیں۔ بابا اشفاق احمد اور عمیرہ احمد پسندیدہ مصنف ہیں،انسانیت کا درد رکھنے والے نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے کی تحریروں کا اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہوں،کالم نگار وسعت اللہ خان ، ہارون رشید اور گل نوخیر اختر پسندیدہ ہیں ۔انسانیت کے حوالے سے اپنے ملک،مسلک اور نسل سے بالاتر ہو کر بات کرنا پسند ہے اور ایسے رائیٹرزکو زیادہ پڑھتا ہوں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسلکی نفرت کو پروان چڑھانے والی کتابوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے دوسری طرف انسانیت پر بات کرنا اور لکھنا انتہائی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مکالمہ کی فضا معدوم ہو چکی،اگر کوئی اس حوالے سے بات کرنا چاہے تو اس پر فتوی لگا دیا جاتا ہے۔مذہب تو دور اگر سیاست پر بھی مخالف نظریہ رکھنے والے سے بات کریں تو نوبت مرنے مارنے تک جا پہنچتی ہے۔ اس معاملے پر قابو پانے کا بہترین رستہ کتابوں سے محبت اور مکالمے کی فضا کو عام کرنا ہے”۔
“مصنف کا انتخاب کرتے وقت اس کے مذہب اور مسلک کو جاننے سے بہتر ہے اس کا موضوع دیکھا جائے اور اس کا انداز بیاں مدنظر رکھا جائے،المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات سے مطابقت رکھنے والے اور ہم مذہبی، مسلکی مصنفوں کو مطالعہ پسند کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب کسی بھی موضوع پر لکھااور بات کی جائے تو ہمارے پاس دلیل اور ریفرنس کی کمی ہوتی ہے جس بنا پر ہماری قاری کو نہ تو بہتر انداز میں سمجھا پاتے ہیں اور نہ ہی اس کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں”۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں