قدسیہ مدثر
یمن کی عرب لڑکی توکل کامران کو نوبیل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا. جب وہ تقریر کرنے ڈائس پہ آئی تو سٹیج سیکرٹری نے مائیک میں سوال کیا.
"حیرت ہے آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں ، پھر بھی حجاب کرتی ہیں؟”
اس نے کہا : ” زمانہ قدیم میں جب لوگ جاہل تھے تو ننگے تھے ، کپڑوں سے باہر تھے . جو کچھ آج میں پہنے کھڑی ہوں یہ تہزیبِ انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے ، نا کہ رجعت پسندی. اب اگر کوئی کپڑوں سے باہر آتا ہے تو وہ زمانہ قدیم کو تنزلی ، رجعت پسندی ہو گی.”
حجاب ، پردہ ، حیا عفت و عصمت اسلام کی طرف سے عورت کو دی گئی ایک پورا نظام زندگی ہے جو اس کی عزت اور وقار میں اضافے کا باعث ہے ۔ دنیا میں موجود تہذیبیں ، معاشرتی روایات اس بات پر ہمیشہ سے متفق رہی ہیں جو چیز اپنی قدرو قیمت کے اعتبار سے جس قدر اہم ہو گی اس قدر اس کو خفیہ پوشیدہ اور چھپا کر رکھا جائے گا ۔ اور وہ کسی قسم کی بیرونی سازشوں ، پراپیگنڈا ، نفرت انگیز رویوں سے محفوظ رہے گی ۔
4 ستمبر کو یوم حجاب کے طور پر منایا جانا باعثِ اطمینان ہے۔ حجاب مسلم خاتون کی پہچان ، عزت اور حفاظت ہے ۔ یہ قرآن و سنت کا حکم ہے ۔ ہر حیادار خاتون اس کا اہتمام کرتی ہے ۔ مغربی تہذیب کے متوالے خود کو جتنا بھی روشن خیال اور ترقی پسند کہہ لیں، حقیقت میں وہ بے حیائی اور بے رحمی کی بدترین مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ غیر مسلم دنیا میں بھی بلاشبہ کچھ لوگ رواداری اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہیں ، مگر انتہا پسند عناصر ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔
شہیدۂ حجاب مروہ الشربینی مغرب کے انتہا پسند رجحانات اور مسلمانوں کی مظلومیت کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ جنہیں یکم جولائی 2009 کو جرمنی میں حجاب کا اہتمام کرنے کے ” جرم ” میں بھری عدالت میں شہید کر دیا گیا ۔ اور جرمنی کی حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہ لیا . مروہ شربینی تو دنیا سے رخصت ہو گئیں لیکن جرمنی جیسے معاشرے میں حجاب کا یہ عزم توانا سے توانا تر ہوتا چلا جا رہا یے ۔ اب یہ حجاب کا ایک گز کا ٹکڑا آزادی کی توانا علامت بن گیا ہے ۔ اور مسلمان عورت کے اعتماد سے بھرپورتفاخر اور مسلم شناخت کا احساس بن کر ابھر رہا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی پہچان اس کے ظاہری لباس سے ہوتی ہے ۔ اس کا حلیہ ہی اس کے ظاہر اور باطن کا واضح آئینہ دار ہوتا ہے اور بحیثیت ایک مسلمان خاتون ہمیں اپنے لباس میں اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم ایک مسلمان باوقار خاتون دکھائی دیں ۔ یقیناً حجاب ایک عورت کا وقار ہے اور اور اس کے شرم و حیا کی پہچان ہے ۔ اگر ہم کچھ عرصہ پہلے کی بات کریں تو ہمارے معاشرے میں چادر یا دوپٹے کو خاص اہمیت حاصل تھی اور خواتین چادر اوڑھے بغیر گھر سے نکلنے کو معیوب سمجھتی تھی اور خصوصاً چھوٹی بچیوں کو حجاب کی خاص تربیت دی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے ہمارے معاشرے میں ترقی اور فیشن پھیل رہا ہے ، اس ترقی یافتہ فیشن کے بے شمار منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں . اس فیشن انڈسٹری کے نام پہ خواتین نے لباس کو گھٹا دیا ہے اور آج کل فیشن کی جدت نے عورتوں کو ان کے حجاب سے بے نیاز کردیا ہے ۔
مسلمان معاشرے میں ہر خاتون اس کی ایک اہم رکن ہے چاہے وہ عرب میں رہے ، ایشیا یا مغرب میں ۔ ایک عربی مقولہ ہے۔ "النساء عماد البلاد ، عورتیں تہذیبوں کی عمارت کا بنیادی ستون ہیں ۔ ” کسی بھی معاشرے کی اساس ، اس کے رواج ، اسی کی رسومات عورت کی مرہون منت ہیں ۔ شیطان جب کسی معاشرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلا وار عورت کی صفت ” حیا ” پر کرتا ہے ۔ یہی اس کا اولین ہتھکنڈا اور وار ہوتا ہے جو اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا پر چلایا تھا اور آج تک وہی کرتا آ رہا ہے ۔
کسی بھی معاشرے میں بے راہ راوی بڑھنے کی ایک وجہ خواتین کی بے پردگی ہے لیکن آج اس نسل نو میں اپنے تشخص اور پہچان کے لیے بیداری کی لہر اٹھ گئی ہے اور پورا مغرب اب حجاب سے خوف زدہ نظر آرہا ہے ۔ بعض مغربی ممالک نے حجاب پر مکمل ، بعض نے جزوی پابندی عائد کی ہے ۔ مختلف تعلیمی اداروں اور آفس میں حجاب پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔
برقعے پر پابندی سب سے پہلے فرانس میں 2010 میں لگائی گئی تھی ۔ فرانس پہلا یورپی ملک ہے جس نے حجاب پر پابندی عائد کی ۔ اس کے بعد 2011 میں اس وقت کے فرانسیسی صدر ” نکولسن سرکوزی “ نے اس قانون کا پابند کرتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی صورت میں 205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ عائد کر دیا۔
2010 میں اسپین کے شہر بارسلونا میں، 2012 میں بلجئیم میں قانون کی خلاف ورزی پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید رکھی گئی تھی۔ 2010 میں شمالی اطالیہ کے شہر نووارا میں ایک مسلمان عورت کو برقع پہنے پر 500 یورو کا جرمانہ دینا پڑا۔ ہالینڈ میں کافی بحث کے بعد مئی 2015 میں مکمل چہرے کے اسلامی نقاب کو سرکاری عمارتوں ، اسکولوں ، اسپتالوں اور عوامی نقل و حمل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا ہے اور کہا گیا کہ قانون شکنی کی صورت میں 285 پاؤنڈ اسٹرلنگ تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔
روس کے علاقے فقاز میں بڑھتے روسیوں اور مسلمانوں کے تصادم کے پیشِ نظر مملک کے زیر انتظام اسکولوں میں اسکارف پر پابندی لگادی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ممالک ہیں جہاں حجاب پر پابندی عائد ہے اور کئی ممالک میں راہ چلتے یا اسکولوں، دفاتر میں حجاب کو جبرا اتروا دیا جاتا ہے اور بعض ممالک کے ائیر پورٹس پر مسمان خواتین کی چیکنگ کے طور پر حجاب کی توہین کی جاتی ہے اور حجاب کا اہتمام کرنے والی عورتوں کو خصوصاً ناگواری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
بعض مغربی ممالک میں حجاب پر پابندی اور آئے دن خواتین کے حجاب کے خلاف ابھرتے ہوئے برے جذبات کے پیشِ نظر جولائی 2004 میں لندن میں قائم مسلمانوں کی تنظیم ” اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب ” کے زیرِ اہتمام مغرب کے غیر اخلاقی اور امتیازی رویے کے خلاف کانفرس منعقد کی گئی . اس کانفرس میں اعلان کیا گیا کہ ہر سال 4 ستمبر کو ” عالمی یومِ حجاب “ منایا جائے گا ۔ اس کا مقصد حجاب سے متعلق خواتیں میں شعور پیدا کرنا اور حجاب کے خلاف بنائے گئے مغربی معاشروں کے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرنا ہے ۔
پاکستان میں حجاب ڈے کا آغاز جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی سرپرستی میں ہوا ۔ دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین حجاب سے ہی دوسری خواتین کے مقابلے منفرد اور باوقار نظر آتی ہیں اور ایک مسلمان عورت کی اصل پہچان اس کا حجاب ہے ۔ یہ حجاب ہی ہے جس نے مغرب کو ڈرا رکھا ہے کیونکہ ایک عورت کے حجاب سے یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اسے اپنی پہچان کا احساس ہے اور وہ اسلامی تہزیب اور ثقافت کے لیے سر اٹھا کر کھڑی ہے ۔ تقدس کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے۔
امریکہ ہی کی ایک ہسپانوی النسل نو مسلمہ نے اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا ۔ گھر سے ملنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور ، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں ، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی ۔ میں بظاہر آزاد و خود مختار ہوتی تھی ۔
پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے ، لوگ میری طرف متوجہ ہیں ۔ عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لئے مجھے اور زیادہ محنت کرنا پڑے گی لیکن اب اسلامی پردے نے مجھے ان الجھنوں سے بے فکر و آزاد کر دیا ہے "اور بہترین نسل کی تربیت وہی کر سکتی ہے جو باحیا ہو ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ مسلمان خواتین کو پردے کا حکم دیں۔
”اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘۔ (الاحزاب 59:33)
حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الحیاء من الایمان‘‘ (متفق علیہ) یعنی حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ایک دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: ”الحیاء شطر الایمان‘‘ یعنی حیا نصف ایمان ہے۔ مسلم معاشروں میں مختلف سروے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق خواتین نے بتایا کہ جو باپردہ ہوتی ہیں، ان سے راستوں میں چھیڑ خانی کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں جبکہ بے پردہ خواتین کو دیکھ کر اوباش قسم کے نوجوان اپنی خباثت پر اتر آتے ہیں ۔
ایسے بے شمار واقعات جو حال ہی میں معاشرے کی تنزلی کی وجہ بنے اس میں سے ایک مینار پاکستان میں ٹک ٹاکر لڑکی کا واقعہ ہے ۔اگر وہ حجاب میں ہوتی تو کیا اس پر آوازیں کسی جاتیں , کیا اس کی عزت یوں سر عام لٹتی ۔ معاشرے میں بڑھتے جنسی زیادتی کے ہے در پے واقعات ہماری اخلاقی پستی کا بھی منہ بولتا ثںبوت ہیں۔
جہاں اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے وہاں مردوں کو بھی اپنی نظروں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے . اسلام ہر گز ایسا تصور نہیں دیتا کہ پردہ و حجاب صرف عورت کے لئے ہے بلکہ اسلام پہلے مردوں کو ان کی نگاہوں کے نیچا رکھنے کی تلقین کرتا ہے پھر خواتین کو ۔ مرد اور عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں اور ایک باحجاب معاشرہ تبھی وجود میں آتا ہے جب عورت اور مرد اسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں ۔ ایک دوسرے کی عفت و آبرو کی حفاظت کرنے والے ہوں۔
۔آج 4 ستمبر عالمی یوم حجاب پر ہم مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں اس بات کا عزم کر لیں کہ حجاب محض سر کو لپیٹنے کا نام نہیں بلکہ اپنے پورے معاشرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزادی حاصل کرنے کی علامت ہے . یہ حجاب ایک تحریک ہے ۔ ہمیں اس کے زریعے اپنے معاشرے کا تحفظ کرنا ہے تاکہ اچھے خاندان وجود میں آ کر اچھے قوموں سے اس زمیں کو آباد کیا جا سکے۔ اور ہم میں ہر فرد اپنے حصے کی شمعیں ضرور جلاتا رہے ۔
ایک تبصرہ برائے “حجاب مسلمان عورت کی پہچان”
Its a very Informative article. Thanks for sharing your thoughts with badbaan readers.