ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
حیات میں حیا مضمر ہے۔ یا پھر حیا کے سنگ حیات خوبصورت ہے۔ وہی فرد اور معاشرہ تازگی اور حسن کے ساتھ زندہ رہتا ہے جس میں حیا باقی رہے۔
پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے تیار کیا گیا، حیا اس کا جوہر تھا؛ جیسے پھول میں خوشبو اس کا جوہر ہے۔ ہر چیز کو بناتے ہوئے اس کی اساس یا بنیادی خاصیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ نمکین یا میٹھا ہے ، کھٹا ہے یا پھیکا ، ہر چیز کو بنانے کے کچھ عناصر ترکیبی (ingredients) ہوتے ہیں۔ آدم کے پتلے کی تیاری والی مٹی میں نفس روحانی کے لیے جو ناگزیر چیز یا عنصر رکھی گئی وہ حیا ہے۔
اسی لئے انسانیت کی بقائے حیات میں حیا مضمر ہے۔ جب آدم کے مادی وجود میں "الحی القیوم” نے روحِ حیات پھونکی تو حیا اس کا لازمی جزو ٹھہری۔ حیا، حیات اور الحی کا بنیادی حرف "ح” اور "ی” ہے۔ زندگی عطا کرنے والی ذات "الحی” ہے۔ آدم کو جس مٹی سے بنایا گیا تھا اس کو حیا کے جوہر سے تیار کیا گیا تھا اسی لئے اس کے انداز و اطوار، بول چال اور لفظوں میں بھی حیا تھی۔۔۔ پردہ تھا۔۔۔ حجاب اور لحاظ تھا، تہذیب تھی۔
اماں حوا اُس وقت بے لباس نہ تھیں جب وہ عدم سے وجود میں لائی گئیں۔ آدم و حوا کی ملاقات ہوئی تو دونوں جنّتی تہذیب سے آشنا تھے ، جنت کے لباس زیب تن تھے ۔ نافرمانی کے نتیجے میں دونوں کا لباس اترا تو فطری حیا کے باعث ایک دوسرے سے ستر چھپانے لگے اور مارے شرم و حیا کے ایک دوسرے سے دور بھاگے ۔ اور اس عمل سے یہ سمجھایا گیا کہ "ستر اتر جانا نافرمانی کا نتیجہ ہے”۔ جو جس قدر نافرمان ہوگا مکمل لباس سے بے گانہ ہوتا چلا جائے گا۔
"حیا کلچر” کی ابتدا آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔
دینِ فطرت دراصل دینِ حیا ہے یہی ہر دین الٰہی کا "موٹو” (motto) رہا ہے۔ یہی ابتدا ہے یہی انتہا ہے، یہی اوڑھنا بچھونا اور کھانا کمانا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، خوشی غمی میں اس فطری تربیت سے غافل ہونا انسانیت کے درجے سے گرنا ہے۔
گویا کہ اسلام کی بنیاد اور خصلت حیا ہے۔
"حی” کا الٹ "موت” ہے تو حیا میں روحانی زندگی ہے اور بے حیائی میں انسانی فطرت کی موت ہے۔
کلمہ توحید کا اقرار کرتے ہی حیات بدل جاتی ہے کیونکہ اپنے رب کی نافرمانی سے حیا آتی ہے۔
سب سے زیادہ حیا اللہ کا حق ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیتﷺ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "ﷲ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے”۔لوگوں نے عرض کیا کہ "الحمدللہ ! ہم ﷲتعالیٰ سے حیا کرتے ہیں”،محسن انسانیتﷺ نے فرمایا :”نہیں، حیا کامفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ ﷲتعالیٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو، اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھرا ہے ان سب کی نگرانی کرو ، اور موت کو اور موت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو ، پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے ﷲتعالیٰ سے حیا کرنے کاحق ادا کر دیا”۔
انسان جس قدر اللہ تعالی کا نافرمان ہوتا جاتا ہے حیا سے عاری ہوتا جاتا ہے۔
بے حیائی کا پہلا مظہر لباس سے بے نیازی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
حیا نہ رہے تو وفا بھی نہیں رہتی ، معاملہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہو یا رب کے ساتھ۔
اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد حیا ہے جو افکار، اقوال، اعمال، باہم معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔
تربیتِ اولاد میں بنیادی سوچ حیا کی آبیاری ہے۔ جس کی پہلی گھڑی سے آخری گھڑی تک ضرورت ہے۔ بچوں کے دلوں میں یہ عقیدہ راسخ کرنا کہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر زندگی کے ہر لمحہ کا حساب دینے کی فکرمندی دراصل رب سے حیا ہے۔ رب العالمین کی ان گنت نعمتوں کا احساس زندہ رکھ کر دل اور زبان کو حمد سے تر رکھنا حیادار ہونا ہے ۔ رب کی عطا کردہ صلاحیتوں اور نعمتوں کا اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا حیا کا مظہر ہے ۔ حیادار غلام ہی اپنے آقا کی عنایتوں پہ شکر گزار رہتا اور ہر ممکن اطاعت کرتا ہے۔
جو بندہ اپنے آقا کی مرضی پہ چلتا ہے مہربان آقا اس کی ہمیشہ سرپرستی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پہ ان کی توقعات سے زیادہ مہربان ہے۔۔۔ پہلے عنایتیں کرتا ہے اور پھر اطاعتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ بندہ اپنی سی کوشش کرتا ہے رب کو راضی کرنے کی تو مہربان رب کو حیا آتی ہے کہ اپنے بندے سے منہ موڑے۔ گویا "راضیہ مرضیہ” ہونے کے لئے دونوں طرف حیا کا عنصر کام کرتا ہے۔
خوبصورت کامیاب خوشحال مطمئن زندگی ایک فرد کی درکار ہو یا پورے معاشرے کی، حیا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رب کے ساتھ معاملات ہوں یا اس کے بندوں کے ساتھ۔۔۔ ہر قدم پہ حیا ہی خیر لاتی ہے۔ ساری عبادتیں اور بندوں کا باہم میل ملاقات، لین دین، ایثار و ہمدردی، درگزر۔۔۔ غرض حُسنِ اخلاق کا ہر جذبہ حیا کے نور سے ہی روشن نظر آتا ہے۔
حیا کی فطری بنیاد پہ انسانوں کی تربیت ہی ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتی ہے۔ عموماً حیا کا تعلق صرف لباس سے یا عورت ذات سے ہی منسلک سمجھاجاتا ہے، حالانکہ ہر دو صنف کے لیے ماں کی گود سے گور تک حقوق و فرائض کا سارا سفر حیا کے زاد راہ کا تقاضا کرتا ہے۔
تربیت کے معنی ہیں ربوبیت یعنی بتدریج لمحہ بہ لمحہ وقت ، حالات ، عمر کے ساتھ ساتھ ہمہ پہلو نشونما کرنا۔ ایسی حُسنِ تربیت کہ جس میں حیا کا رچاؤ غالب ہو۔
حُسنِ اخلاق کے چمن کا ہر پھول حیا کے پانی سے سیراب ہو تو برے اخلاق کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔
اسلام نے تربیت کا ظاہری و باطنی کوئی پہلو ترک نہیں کیا۔
گھریلو زندگی کے آداب، جس میں اپنے ہی گھر میں داخلے، خواب گاہ کے اوقات کی وضاحت، دوسرے کے گھر میں جانے اور طعام کے آداب، لباس اور ستر کے احکامات، دوسرے کی عزت نفس کا احترام، ظاہری طور پہ نظروں کی حفاظت، آواز کا پردہ، غیر محرم سے آشنائی کی ممانعت، حتی کہ ازدواجی تعلق کے وقت دودھ پیتے سوتے بچے سے اوٹ کرنے اور نو عمر بچوں کا بستر الگ کرنے کی ہدایت۔۔۔ غرض کوئی چھوٹا یا بڑا پہلو ایسا نہیں جس سے حیا نہ ٹپکتی ہو۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے۔ ان کا تبسم ہو یا تکلم حیا کی خوشبو سے معطر تھا۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیا تو خیر ہی لاتی ہے“۔ ایک اور روایت میں ہے: حیا سراپا خیر ہے۔ یا پھر آپﷺ نے یہ فرمایا: حیا سرتاپا خیر ہے۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ متفق علیہ)
رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی لئے ارشاد فرمایا: "جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر”۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484)
معلوم ہوا کہ کسی بھی بُرے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے یعنی جس میں حیا نہ رہے تو پھر اس سے کسی خیر کی توقع رکھنا بے کار ہے۔
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکارِ مدینہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: "بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے”۔ (مستدرک للحاکم،ج 1،ص176، حدیث:66)
اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے: "بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے”۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص460، حدیث: 4181گ)
حیا نفس کی ایک صفت ہے، جو انسان کو ایسے عمل پر ابھارتی ہے جو عمدگی اور زیبائش کا سبب ہو اور ایسے عمل کو ترک کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو گندگی اور عار کا سبب ہو۔ اس لیے حیا خیر ہی کا سبب ہوا کرتی ہے۔
حیا اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور اخلاق حسنہ اور تقویٰ جس قدر زیادہ ہوگا اتنی حیاء زیادہ ہوگی یا جس میں فطری حیا جس قدرغالب ہوگی تقویٰ اسی لحاظ سے ہوگا۔
بچے کو شروع سے یہ تربیت کرنا کہ جسم اس کی بالکل ذاتی چیز ہے اس کو دکھانا یا دوسرے کا دیکھنا غلط ہے، گناہ کے لفظ اور عمل کا تصور اس کی عمر کے لحاظ سے سمجھایا جائے۔ اسی طرح آنکھوں اور دل کی حیا کے متعلق عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ سمجھایا جائے۔
جب ہم کسی کی پلیٹ پہ نظر ڈالنے اور اس میں اپنی طرف سے اپنا ہی حصہ کھانے کا سبق دیتے ہیں تو اس کے پیچھے پورا فلسفہ زندگی سمجھایا جا سکتا ہے۔
حرام اور حلال کی تمیز بھی دراصل حیا دار کو ہی آتی ہے۔
والدین کے باہم برتائو میں حیا جھلکنی ضروری ہے۔
یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے دور رہا جائے اور اپنے تَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے۔
فحش باتیں کرنا، گانے سننا یا مناظر دیکھنا دل کو سیاہ کرتا ہے۔شریعت کا مطالبہ ہے کہ میاں بیوی کے بالکل ذاتی معاملات بھی پردے میں رہیں ۔ غرض چادر اور چار دیواری کا ادب ، لحاظ اور حفاظت مسلم تہذیب کا بنیادی وصف ہے۔
بچوں کو سکھایا جائے کہ محرم اور غیر محرم میں کیا امتیاز ہے اور محرم سے بھی کتنی احتیاط لازمی ہے۔
دوسری طرف بے حیائی شیطان کا موٹو ہے۔ یہی اس کی ابتدا، انتہا اور مطمح نظر ہے۔ شیطانی تہذیب بے حیائی کی بنیاد پہ کھڑی ہوتی ہے۔ اور جہاں جاتی ہے شر کا موجب بنتی ہے۔ سب سے بڑی بے حیائی رب سے بے وفائی اور شرک ہے۔ اور رب کا انکار کرنے والے یا مشرک انسان رب العالمین کے نافرمان ہیں۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں بے حیائی عام ہو جائے۔ بے حیائی پھیلانے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی اور دردناک عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
اس لئے اگر خیر کی طلب ہے، ذلت ورسوائی سے بچنا ہے تو حیا کا کلچر عام کرنا ہوگا۔