ام محمد عبداللہ
بے حیائی کا امڈتا سیلاب ہماری بنیادوں سے نہیں پھوٹ رہا۔ہماری اساس تو شرم و حیا پر اٹھائی گئی ہے۔
سورہ الانعام آیت 151میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
اور بےحیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی.
وہ مالک الملک، ذوالجلال والاکرام، وہ سمیع و بصیر ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ بےحیائی خواہ سر عام اپنائی گئی یا چھپ چھپا کر بھیانک نتائج سامنے لے کر آئے گی۔۔
گلی بازاروں میں آئے دن کے سانحات معاشرے میں پھیلتی بےحیائی کا نتیجہ ہیں جس کا شکار ہمارے معصوم بچے اور نوجوان نسل بن رہی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
"حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ بےحیائی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔” (جامع ترمذی:جلد اول : حدیث نمبر 2074)
ایک جہنم، جنت کا فیصلہ تو روز قیامت ہوگا۔ ایک جنت، جہنم ہم اس دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر رہے ہیں۔ بےحیائی ظلم کی شکل میں معاشرے کو لپیٹ میں لے کر اسے جہنم کی آگ میں جھونک رہی ہے۔ اس جہنم میں ہر بڑا، چھوٹا، امیر، غریب، عالم، جاہل جل رہا ہے۔ اس بے حیائی کا ، اس ظلم کا اس جہنم کا الاؤ ہمارے ارد گرد دہک کر سب کو جلا رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
*اگلی نبوت کی باتوں میں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے۔ اس میں ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ *جب تم میں شرم و حیا نہ ہو،تو پھر جو چاہو کرو.* (صحیح بخاری)
اس کا عملی مظاہرہ مغرب کی وادیوں میں ہر جانب بکھرا ہم دیکھ سکتے ہیں۔ شرم و حیا کو خدا حافظ کہنے کے بعد شر اور جرائم کے جو آتش فشاں مغرب میں پھٹے ہیں۔ اس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔ بے حیا تہذیبوں نے ڈپریشن ۔ کینسر۔۔ ایڈز۔۔۔ خودکشی اور انہی جیسی کئی اور ذہنی ،جسمانی اور روحانی عفریتوں کا تحفہ دنیائے عالم کو دیا۔
بے حیائی کی اس یلغار نے اب ہمارے معاشرے کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ ہر طرح کے شوز ، گانے ، فلمیں ، ڈرامے حتی کہ خبریں بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔ شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ آخرت پسندی کی نفسیات نفس پرستی میں بدل جاتی ہے اور پھر ہوس ہی ہوس رہ جاتی ہے۔ دنیا و آخرت کی بربادی مقدر بن جاتی ہے۔
بےحیائی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے اور ہمیں اسی دشمن کا گلا گھوٹنے کی ضرورت ہے۔
ہماری مائیں صدیوں سے اپنے بچوں کی تربیت کرتی آئی ہیں۔
⚘سر ڈھانپ کر رکھو۔
⚘بڑوں سے فاصلہ اور ادب،،
⚘اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ دوستی،،
⚘مغرب کے بعد گھر سے نہ نکلنا،،
⚘دس برس کے بچے کا اپنا الگ بستر،،
⚘کپڑے صاف ستھرا رکھنے کی ہدایت کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ہر بات نپی تلی صاف اور واضح لیکن شرم و حیا کے دائرے میں۔
آج تعلیمی اداروں میں میڈیا کے ذریعے ویلنٹائن ڈے جیسی تقریبات کو فروغ دینا ان خوبصوت تعلیمات کے منافی ایک قبیح فعل ہے اور ہماری دینی و معاشرتی اساس پر کاری ضرب لگانے کی کوشش بھی۔
ہم میں سے جو بھی اپنی شناخت کو قائم رکھنے اور اپنی عاقبت سنوارنے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس ظلم و بے حیائی کے خلاف اعلان جنگ کر دے۔ اس ظلم و بےحیائی کو سر عام پھانسی پر لٹکا دے۔۔۔
وہ اپنے ذہن و دل کو ، جسم و زبان کو حیا کی چادر میں مستور کر دے۔اپنی نگاہیں نیچی کر لے۔ اپنے بچوں کو شرم و حیا کی تعلیم دینے میں لگ جائے۔
وہ اعلان کر دے میں نے سنا
حیا ایمان کا حصہ ہے
اور میں نے اطاعت قبول کی ۔
یقین مانیں۔
اس اطاعت کی طرف بڑھنے والا ہر قدم
شرم و حیا کے راستے پر رکھا جانے والا ہر قدم احیائے ملت کی جانب اٹھنے والا قدم ہوگا۔
معاشرے میں برپا فساد کو کچلنے والا قدم ہو گا۔
🔴⚫🔴
ہمارا خالق، ہمارا مالک ، ہمارا مہربان رب ہم پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔ یہ تو ہم ہی ہیں جو اپنے نفس پر ظلم ڈھاتے اپنی جنت سے نکلتے اور گردش ایام کی ٹھوکریں کھاتے ہیں. نیو ائر ناٸٹ ، ویلنٹائن ڈے ، بسنت ، شوز اور اسی طرز کی دیگر بے حیائی کو فروغ دینے والی تقریبات گھروں کے ٹوٹنے معصوم بچوں کو مختلف سانحات سے دوچار کرنے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں آگے بڑھنے سے روک رہی ہیں۔
لیکن
وہ پاک بلند و بالا عظیم الشان ہستی ہمیں پھر سے اپنے دامن رحمت میں تحفظ دیتی ہے، جب ہم توبہ و استغفار کرتے اس کی جانب پلٹتے ہیں۔
تفریحات کے نام پر کبھی ویلنٹائن ، تو کبھی نیو ائر ناٸٹ ، کبھی بسنت تو کبھی کچھ اور بلکہ وہ سب جو کچھ ہم مناتے رہے یا منا رہے ہیں سے من حیث القوم منہ پھیر لیں کہ یہ وطن دین اسلام پر عمل کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔۔ اغیار کے تفریحی دن منانے کے لیے نہیں
آئیں توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے مہربان رب کی جانب پلٹ جائیں کہ جس کے پاس بہر طور ایک روز ہمیں جانا ہی جانا ہے۔
اے رب ہمارے! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔
اے اللہ! بخش دے میری خطا، میری جہالت، میرے کام میں میری زیادتی اور وہ جس کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ!ہنسی مذاق میں، سنجیدگی میں، بھول کر اور جان بوجھ کر کیے ہوئے میرے گناہ بخش دے اور یہ سب میرے اندر ہیں.
🔴⚫🔴
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اور کیا خوب کہا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یقین مانیے سب کچھ میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس قوم کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں ہے۔
آئیں بے حیائی کے خلاف اعلان جنگ کر کے
ہم اپنے بچوں کی تقدیر روشن کر دیں۔
آئیں دل و زباں کو استغفار سے تر کر دیں
بے حیاٸی کو خیر باد کہہ کہ
شرم و حیا کی چادر میں مستور ہوں ایسے
اس وطن کے ہر گلی کوچے کو گھر کر دیں۔