سید علی گیلانی

سید علی گیلانی بڑے آدمی کیسے بنے؟ ان کی کہانی، انہی کی زبانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید علی گیلانی 29ستمبر1929ء کو اس دنیا میں آئے تھے اور یکم ستمبر 2021ء کو خالق حقیقی کے بلاوے پر چل دئیے۔ تعلیم کا آغاز بارہمولہ، سو پور سے کیا، اعلیٰ تعلیم لاہور کے اورنٹئیل کالج میں حاصل کی۔ ویسے تو سید علی گیلانی نے تین کتابوں ’قصہ درد‘، ’دید و شنید‘ اور ’روداد قفس‘ میں اپنی زندگی کا مفصل احوال بیان کیا ہے تاہم اگر کوئی مختصراً جاننا چاہے تو اس کے لئے انھوں نے اپنی کتاب ’اقبال، روح دین کا شناسا‘ میں بھی نہایت خوبصورت نثر میں داستان حیات بیان کی ہے۔

”میرے والد بزرگوار مرحوم سید پیر شاہ گیلانی نہر زینہ گیر میں سیزنل قلی تھے یعنی صرف سینچائی کے چند مہینوں کے لئے۔ وہ ماہوار دس روپیہ لیتے تھے۔ خود ان پڑھ تھے مگر بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق اور تمنا رکھتے تھے۔ میرے بڑے بھائی مرحوم سید میرک شاہ گیلانی اور میں ”زوری منز“ سے بوٹینگو زینہ گیر کے پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں، کبھی بھوکے پیاسے اور دودھ کے بغیر ”ٹیٹھ چائے“ پی کر۔ زوری منز اور بوٹینگو کے درمیان بابا شکور الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پہاڑی حائل تھی اور دوسرا راستہ نہر زینہ گیر کے کنارے کنارے جاتا تھا۔ ہم لوگ اکثر پہاڑی راستہ ہی اختیار کرتے تھے کیونکہ وہی زیادہ نزدیک پڑتا تھا۔

بڑے بھائی نے پرائمری سکول سے فارغ ہو کر ہر دو شیوہ سوپور میں ایک دینی عالم مرحوم سید ثنااللہ شاہ کے مکتب میں داخلہ لیا اور وہاں قرآن پاک، کریما، گلستان، بوستان اور دوسری کتابوں کا درس لینا شروع کیا۔ میں نے بوٹینگو سکول میں تیسری اعزازی پوزیشن حاصل کرکے سرکاری وظیفہ دئیے جانے کی برکت سے سوپور ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ساتویں جماعت تک میں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتا رہا۔ مشکلات اور تنگ دستی کے باوجود میں امتیازی نمبرات کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ میری تقدیر میں ایک نیا پڑاؤ آگیا۔

مرحوم محمد الدین فوق، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، سیم پورہ زینہ گیر میں سکونت پذیر اپنے رشتہ داروں کے یہاں لاہور سے تشریف لائے تھے۔ میرے بڑے بہنوئی مرحوم سید عبدالعزیز شاہ ہمدانی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کر رہے تھے، یہاں مرحوم غلام محمد صادق اور محترمہ محمودہ بیگم بھی زیر تعلیم تھے، لاہور میں قیام کے دوران میں ان کا مرحوم فوق صاحب کے ساتھ تعارف تھا۔ ان کے بڑے بھائی سید مبارک شاہ ہمدانی ڈورو سوپور میں ہی اپنے آبائی گھر میں مقیم تھے۔

تعلیم کے ساتھ میری دلچسپی، ذرائع اور وسائل کی کمی نے ان کو میرے بارے میں فکر مند بنایا تھا۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ لے کر مرحوم محمد الدین فوق کی خدمت میں حاضری دی تاکہ وہ اس بارے میں ہماری کچھ مدد اور رہنمائی کرسکیں۔ مرحوم فوق صاحب نے مجھے دیکھ کر بڑے پیار اور محبت کا اظہار کیا اور مرحوم مبارک صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اس لڑکے کو میرے ساتھ لاہور بھیج دیں۔ میں ان کو وہاں پڑھاؤں گا اور اپنی بڑی لڑکی کے گھر میں ان کے قیام کا انتظام کراؤں گا۔

چنانچہ تعلیم کے شوق میں والدین نے سینے پر پتھر رکھ کر مجھے مرحوم فوق صاحب کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ بارہ، تیرہ سالہ خوبرو لڑکا لاہور پہنچ کر، مزنگ نامی بستی کے ایک گھرانے میں بٹھا دیا گیا۔ مرحوم فوق صاحب کے داماد محکمہ ڈاک خانہ جات میں بڑے آفیسر تھے اور صوبہ سرحد میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ ان کی دو تین لڑکیاں تھیں جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ پڑھائی کا تو انتظام نہ ہوسکا لیکن میں گھریلو نوکر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اقبال ؒ کی نظم ”پرندے کی فریاد“ میں نے غالباً سکول سوپور میں پڑھی تھی اور پوری نظم مجھے ازبر تھی۔ اس عرصے میں میرا کام صرف اور صرف اس نظم کا پڑھنا، مکان کے صحن یا چھت پر بیٹھ کر رونا اور آنسو بہانا تھا……

میں یہ نظم پڑھتا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا۔ مجھے وُولر کے کنارے اپنی چھوٹی سی بستی یاد آتی تھی۔ عقب کی پہاڑی اور اس پر کبھی کبھی زیرہ کی تلاش میں چکوروں کی طرح اچھلنا کودنا، اپنے غریب والدین کی محبت، ان کا پیار، میری جدائی میں ان کے دکھ درد اور ان کے آنسو بہانا، یہ سب کچھ مجھے بے حد اداس اور غمگین بناتا تھا۔ مرحوم فوق صاحب کی نواسیاں مجھے دلاسا دیتی تھیں۔ ان کی بڑی بیٹی بھی اپنی اولاد کی طرح میری دیکھ بھال اور پیار کرتی تھیں لیکن مجھے اپنی تعلیم کے چھوٹ جانے اور گھر سے دور ہوجانے کا غم برابر اسی طرح ستاتا اور بے چین بناتا تھا جس طرح پرندہ قفس میں بند ہوکر اپنی فریاد کر رہا ہے۔

اقبال مرحوم کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا سوائے اس نظم کے جو میرے حال پر حرف بحرف چسپاں ہوتی تھی اور جس کو پڑھنے کے بجائے میری زبان دہراتی تھی۔ میری بے چینی، بے بسی اور محرومی تقریباً ایک سال تک میرا تعاقب کرتی رہی۔ ایک سال کے بعد میں کیسے اکیلے اور تنہا لاہور سے بذریعہ ٹرین جموں پہنچا اور جموں سے سرینگر، سرینگر سے سو پور، سوپور سے زوری منز اپنے منتظر والدین کی خدمت میں، یہ ایک معجزاتی عمل تھا جس سے میں گزرا۔ جس کی یادیں ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں میرے تحت الشعور میں منقش ہیں۔

گھر پہنچ کر کچھ دیر کئے بغیر میں نے پھر اپنا سلسلہ تعلیم شروع کیا اور سوپور میں دوبارہ داخلہ لے کر زوری منز سے پیدل سوپور اور واپس زوری منز آنے جانے کی روزانہ کی اس مشقت نے مجھے نڈھال بنادیا۔ اس عرصے میں بڑی ہمشیرہ کی شادی ’ڈورو‘ میں عبدالعزیز شاہ ہمدانی کے ساتھ ہوئی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کر رہے تھے۔ میری روزانہ کی مشقت پر ترس کھا کر، مرحوم مبارک شاہ ہمدانی نے مجھے ’ڈورو‘ آکر تعلیم جاری رکھنے کی پیشکش کی چنانچہ اب ڈورو زینہ گیر سے طلبا کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ میں سوپور ہائی سکول میں زیر تعلیم رہا۔ یہاں سے فراغت پاکر مجھے دوبارہ لاہور کے آب و دانہ نے بلالیا۔ اس عرصے میں بڑے برادر سید میرک شاہ مرحوم کو بہنوئی کی وساطت سے اسی کالج میں ملازمت مل گئی تھی مگر اب کی بار لاہور میں میرے پیش نظر صرف تعلیم تھی اور کوئی مقصد نہیں۔

پنجاب کے ہر شہر میں بالعموم لاہور اور امرتسر میں بالخصوص کشمیر کے طلبا کی اچھی خاصی تعداد زیرتعلیم ہوا کرتی تھی۔یہاں رواج تھا کہ کشمیری طلبا مساجد میں رہتے تھے اور مساجد سے وابستہ محلوں کے لوگ ان طلبا کی خدمت، کھانا، پینا، لباس اور کتابیں بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ فراہم کرتے تھے۔ میں موچی دروازہ، لال کنواں اور مسجد پیر گیلانیاں میں باری باری قیام کرتا رہا۔

میں نے مسجد وزیرخان میں حفظ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو سورۃ بقرۃ اور آل عمران کے بعد منقطع ہوگیا۔ موچی دروازہ میں ’مقام شہید میر بوٹینگو‘ کے غلام محی الدین رفیقی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ مسجد پیر گیلانیاں میں مرحوم حفیظ اللہ شتلوہ رفیع آباد کی سرپرستی اور نگہانی حاصل ہوئی۔اسی عرصے میں شاہی مسجد کی طرف آنا جانا رہا۔ مرحوم سید علی مصدر کی شفقت حاصل رہی جو نور القمرین کے والد بزرگوار تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے!

اقبال مرحوم کو دو سال رحلت فرمائے گزر چکے تھے، ان کی تربت کی مٹی ابھی تازہ اور تابندہ تھی۔ مجھے ان کی تربت کی قربت میں اتنا قلبی سکون اور طمانیت حاصل ہوتی تھی کہ میں گھنٹوں وہاں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔ اقبال ؒ کے کلام، ان کے مرتبہ اور مقام سے میں بالکل بے خبر اور نابلد تھا مگر یہ کشش اور وابستگی کیوں تھی؟ یہ میرے لئے ایک معمہ تھا۔

اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ دہلی دروازے لاہور میں ایک کالج ہے جہاں دفتری اوقات کے بعد مشرقی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میں نے وہاں جاکر دریافت کیا، مرحوم آقا بیدار بخت خان وہاں پرنسپل تھے۔ انھوں نے ایک معصوم کشمیری لڑکے کو دیکھا تو کھل اٹھے۔ بغیر کوئی فیس لئے مجھے ادیب عالم میں داخلہ دیا، حالانکہ ابتدائی درجہ ادیب کا تھا مگر انھوں نے میرے بول چال اور چہرہ مہرہ سے اندازہ لگالیا کہ کشمیریوں کی تر دماغی کا کچھ نہ کچھ حصہ یہاں بھی موجود ہے۔

کالج میں داخلہ لینے کے بعد لاہور کے ادبی رسائل، ادبی محفلیں، مشاعرے اور مباحثے اب میری مصروفیات کا اہم حصہ بن گئیں۔ ”ادیب“، ” ہمایوں“، ”نقوش“ ”الہلال“، ”مخزن“ اور ”البلاغ“ انہی ایام میں میرے مطالعہ میں آئے۔ انجمن حمایت الاسلام کی کوئی تقریب مجھ سے چھوٹتی نہ تھی۔ مرحوم رفیقی صاحب ان ساری ادبی مصروفیات میں میرے ہم دوش رہتے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے!

مقام شہید کے بزرگ، خدا دوست اور نہایت ہی متدین شخصیت مرحوم شریف الدین رفیقی ان کے والد بزرگوار تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے! آج کل ان کی پڑپوتی میرے لڑکے نسیم الظفر گیلانی کے عقد نکاح میں ہے۔ کالج میں پرنسپل صاحب نکیات سخن، محمد حسین آزاد مرحوم، مولانا حالی مرحوم اور دوسرے مضامین خود ہی پڑھاتے تھے۔ اقبال مرحوم پروفیسر عاشق حسین پڑھاتے تھے۔ اقبال کی جان پہچان، ان کے کلام کا تعارف، ان کے فلسفہ خودی اور 1908ء سنہ کے بعد ان کے ارتقائی منازل سے انھوں نے ہی واقفیت بہم پہنچائی اور مجھے تربت اقبال ؒ پر غیر شعوری طور پر حاضری دینے کا راز معلوم ہوگیا۔

بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبریل، درساً پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ اقبال ؒ اللہ کی طرف سے پوری ملت کے لئے ایک انعام تھا۔ کاش! ملت اس انعام الٰہی کی قدر کرتی تو آج کے زوال، انحطاط اور ادبار سے محفوظ و مامون رہتی۔ ادیب عالم سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرکے میں ادیب فاضل میں داخلہ لینا چاہتا تھا کہ میری تقدیر نے پھر پلٹا کھایا۔

والد مرحوم نے کسی سے خط لکھوایا کہ میں بیمار ہوں، آپ ملاقات کے لئے جتنا جلد ممکن ہوسکے گھر چلے آؤ۔ میرے دل و دماغ میں زبردست زلزلہ آیا۔ کالج کی پڑھائی، اساتذہ خاص طور پر پرنسپل اور پروفیسر عاشق حسین کی محبت، دلجوئی اور کرم فرمائی نے مجھے دنیا و مافیہا سے بالکل لاتعلق بنا دیا تھا، لاہور کے علمی اور ادبی ماحول نے میرے پروبال میں اڑان کی شاہینی قوت پیدا کردی تھی۔“

سید صاحب ساری زندگی اسی شاہینی قوت کے ساتھ ظالم کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ وہ چاہتے تو شیخ محمد عبداللہ سمیت بعض کشمیری سیاست دانوں کی طرح جبر ناروا سے مفاہمت کرکے آسائش بھری زندگی گزار سکتے تھے لیکن انھوں نے زندگی اپنے لئے نہیں، کشمیری قوم کے لئے گزاری۔ سید علی گیلانی نے مادی اعتبار سے مشکلات بھری زندگی گزاری۔ اپنی کتاب ’وولر کنارے‘ میں لکھا:
میری سادہ دل والدہ مجھ سے پوچھا کرتی تھیں کہ سرکار تمھیں کیوں بار بار گرفتار کرتی ہے؟ میں جواب میں کہتا کہ میں ’وعظ‘ پڑھتا ہوں (یعنی تقریر کرتا ہوں)۔ وہ جواب میں کہتی تھیں: ”وعظ تو اور بھی بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں انھیں کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا؟“

سید علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔ جن میں ’روداد قفس‘، ’نوائے حریت‘، ’ دید و شنید‘، ’بھارت کے استعماری حربے‘، ’صدائے درد‘۔ ’ ملت مظلوم‘، ’ مقتل سے واپسی، رانچی جیل کے شب و روز‘، ’ اقبال روح دین کا شناسا‘ اور ’وولر کنارے ‘ بھی شامل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “سید علی گیلانی بڑے آدمی کیسے بنے؟ ان کی کہانی، انہی کی زبانی”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    زبردست ۔۔۔۔سید صاحب کی کتابیں پڑھنے کی خواہش پیدا ھو گئی ھے اس تحریر کو پڑھ کر۔۔۔امید ھے عام دستیاب ھو ں گی