عبید اللہ عابد
”اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔“
”کشمیر کے پہاڑوں پر کالی برف بھی پڑنے لگے، ہم تب بھی آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔“
”یہاں نیشنل ازم نہیں چلے گا، یہاں سیکولرازم نہیں چلے گا، یہاں امریکا کا ورلڈ آرڈر نہیں چلے گا، یہاں صوبائیت اور قومیت نہیں چلے گی، یہاں صرف اور صرف اسلام کا سکہ چلے گا، اسلام کے تعلق سے اور اسلام کی نسبت سے اور اسلام کی محبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔“
”بھارت اپنی ساری دولت ہمارے قدموں میں ڈال دے اور ہماری سڑکوں پر تارکول کے بجائے سونا بچھا دے، تب بھی ایک شہید کے خون کی قیمت نہیں چکا سکتا۔“
یہ زور دار آواز سید علی گیلانی ہی کی ہوسکتی تھی۔ یہ وہی تھے جنھوں نے کشمیری قوم کو حق خود ارادیت کا سبق سکھایا۔کوئی کچھ بھی کہے تاہم ان سے بڑا رہنما کشمیری قوم کو نہیں ملا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا فطری حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا،اسی لیے وہ پاکستانیوں سے بڑے پاکستانی قرار پائے۔ دنیا میں سب سے زیادہ قید و بند کی صعوبتیں کسی حریت پسند رہنما نے سہیں تو وہ سید علی گیلانی ہی تھے، نیلسن منڈیلا کا نام بھی ان کے بعد ہی آتا ہے۔
تمام تر مظالم سہنے کے باوجود سید علی گیلانی اپنے موقف سے بال برابر پیچھے نہیں ہٹے۔ کوئی ترغیب کام آسکی نہ ہی کوئی جور اور جبر۔ بھارتی حکومتیں مسلسل کشمیریوں کے مقبول ترین رہنما سے خائف ہی رہیں۔ان کی رحلت کے بعد بھارت پہلے سے بھی زیادہ خوف زدہ ہے۔ بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کی میت اہل خانہ سے چھینی اور اپنے تئیں تدفین کردی۔
سید صاحب کے صاحبزادے نعیم گیلانی کے بقول ”ابا جان کو کس نے غسل دیا، اْن کے جنازے میں کون شامل ہوا اور ان کی کس نے تدفین کی؟ اس کا ہمیں بالکل پتا نہیں۔“ دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر نسیم گیلانی نے بتایا:”ہم نے ابا جان کی قبر کو آج صبح دس بجے کے قریب دیکھا اور وہاں فاتحہ پڑھی۔“
سید علی گیلانی کے نمائندہ خصوصی عبداللہ گیلانی کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ پر تشدد بھی کیا گیا، اہل خانہ کا مطالبہ تھاکہ سید علی گیلانی کی تدفین ان کی خواہش کے مطابق مزار شہداء میں کرنے دی جائے۔ بھارتی میڈیا نے بھی اعتراف کیا کہ سید علی گیلانی کی حیدرپورہ قبرستان میں صبح ساڑھے چار بجے تدفین کی گئی ، نماز جنازہ اور تدفین میں چند قریبی افراد کو ہی شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں ایک فوجی افسر واضح طور پر کہہ رہا تھا کہ کسی کو بھی سید علی گیلانی کے گھر جانے اور نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب قابض بھارتی فورسز نے پورے جموں و کشمیر بالخصوص دارالحکومت سری نگر کومکمل طور پر بند کر دیا، وادی میں کرفیو نافذ کر کے مواصلاتی رابطے بھی معطل کر دیے گئے۔ وائس آف امریکا نے بھی بتایا کہ ’سری نگر کے مختلف علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری تعینات ہے جب کہ سیکیورٹی فورسز نے حیدر پورہ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر دی۔ انتظامیہ نے صحافیوں کو بھی حیدر پورہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی۔ سری نگر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور کسی بھی جگہ جلسے یا تعزیتی اجتماعات منعقد کرنے یا جلوس نکالنے پر پابندی ہے۔ سوپور، بارہمولہ، کپواڑہ، بانڈی پور، اننت ناگ، پلوامہ، کلگام، ترال اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی سخت حفاظتی پابندیاں نافذ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔‘
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد، کیا بھارت کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دبا سکے گا؟ جیسے ہی سید صاحب کی تدفین کی گئی، پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کے یہ دعوے اب بھی مکمل طور پر غلط ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ ایسا ہوتا تو سید علی گیلانی کی میت کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہوتا، کشمیر میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا! کشمیری قوم اب بھی سید علی گیلانی کے راستے پر ہے۔ بدترین مظالم، کرفیو، لاک ڈاؤن بھی کشمیری قوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکے۔
٭سید علی گیلانی کیا چاہتے تھے؟
کشمیر کی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما قیامِ لاہور کے دوران میں، علامہ اقبال کے بعد جس دوسری شخصیت سے متاثر ہوئے، وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ سید علی گیلانی لاہور میں تھے کہ والد نے بذریعہ خط انھیں واپس آنے کی ہدایت کی۔ وہ والد کا خط پڑھ کر کشمیر واپس آئے اور پھر یہاں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ آنے والے سارے برسوں، عشروں میں وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر پورے جوش و جذبے کے ساتھ جدوجہد کرتے رہے۔
جماعت میں شامل ہوکر اپنی سحر انگیز تقاریر کے ذریعے جماعت اسلامی اور کشمیر کی سیاست میں نمایاں مقام و مرتبہ پر فائز ہوئے۔ انھوں نے جماعت اسلامی ہی کے ٹکٹ پر مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔1972ء، 1977 ء اور 1987ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ تاہم بعد ازاں سید علی گیلانی اور جماعت اسلامی اس نتیجے پر پہنچے کہ انتخابات کے ذریعے حق خود ارادیت کا حصول ممکن نہیں۔ چنانچہ انھوں نے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لئے ہمہ پہلو جدوجہد شروع کردی، جس میں نوجوانوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت بھی شامل تھی۔ یوں پوری وادی میں سید علی گیلانی کا نام گونجنے لگا۔
انھوں نے ’آل پارٹیز حریت کانفرنس‘ کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے، تمام حریت پسند جماعتوں کو جمع کیا۔ بھارت نے ان کی مقبولیت اور قوت کو دیکھتے ہوئے ان سے دو طرفہ مذاکرات کی بارہا کوشش کی لیکن سید علی گیلانی نے ایسی ہر پیشکش کو مسترد کردیا۔ ان کا موقف تھا کہ مذاکرات صرف بھارت اور کشمیری قیادت کے درمیان نہیں ہونے چاہئیں، پاکستان بھی اس مسئلے کا فریق ہے، اس کے بغیر مذاکرات فضول مشق ثابت ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت مذاکرات کا ڈول ڈال کر وقت گزارنا چاہتا ہے۔ کشمیری قوم کی اکثریت نے سید علی گیلانی کے موقف کا ساتھ دیا۔
نائن الیون کے تناظر میں پاکستان کی جنرل پرویز مشرف حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بوسیدہ قرار دے کر بھارت کے ساتھ اعتماد سازی شروع کردی اور چار نکاتی فارمولا تیار کرکے مذاکرات کی میز پر آن بیٹھے۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ اس فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت اتفاق رائے کے انتہائی قریب آ چکے تھے۔ تاہم سید علی گیلانی نے جنرل مشرف کے اس موقف کو غلط قرار دیا، ان کے موقف کے بالمقابل جنرل مشرف کا فارمولا پنپ نہ سکا۔
نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے میں جنرل مشرف سے 2005 میں ہونے والی ملاقات میں سید علی گیلانی نے مشرف سے کہا کہ ”اْنھیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اْن کے سیاسی مستقبل کا یکطرفہ فیصلہ لینے کا حق حاصل نہیں۔“ یہ موقف اختیار کرنے سے سید علی گیلانی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ کشمیری قوم نے جنرل مشرف کے فارمولے کے تحت بھارت سے مذاکرات کرنے والے کشمیری رہنماؤں کو مسترد کردیا۔
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں قانون کے پروفیسر شیخ شوکت حْسین کے مطابق ”گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اْن کا موقف مزید مضبوط ہوگیا اور وہ نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اْن کی تصویر ایک انقلابی رہنما کے طور بلند کرنے لگے۔“
اس کے بعد بھی سید علی گیلانی سے بھارت کی طرف سے متعدد بار رابطہ کیا گیا، ان سے موقف میں لچک لانے کی درخواست کی گئی تاہم وہ اپنے اس موقف پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے اور ’اگر اس میں دلی کو دِقت ہے تو پاکستان، انڈیا اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔‘
2014ء کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے سخت اور بدترین سلوک شروع کیا تو جنرل مشرف کے دور میں آل پارٹیر حریت کانفرنس کا الگ دھڑٖا بنانے والے’ماڈریٹ‘ کشمیری رہنماؤں نے اپنے موقف سے رجوع کیا، انھیں اندازہ ہوگیا کہ مذاکرات کی میز کی طرف بڑھنا ان کی غلطی تھی۔ اب وہ بھی سید علی گیلانی کے ساتھ آن کھڑے ہوئے۔
سید علی گیلانی کے موقف کو اس قدر مقبولیت کیوں ملی؟ دراصل سید علی گیلانی سے پہلے کشمیریوں نے شیخ محمد عبداللہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھا، تاہم جب انھوں نے1971ء میں جب اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کشمیر کا اقتدار سنبھال لیا تو کشمیریوں کی توقعات کا خون ہوگیا۔ سید علی گیلانی کو مواقع بھی دستیاب ہوئے، انھیں متعدد انداز میں ترغیب دی گئی لیکن انھوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یوں وہ کشمیریوں کے ہیرو بن گئے۔ کشمیری انھیں اپنے باپ کا درجہ دینے لگے۔ وہ آخری دم تک اس مقام پر فائز رہے۔
ایک تبصرہ برائے “سید علی گیلانی اس قدر مقبول کیوں تھے؟”
A painful but Informative writ ing
.specially for our Young generation