محمود جان بابر اور تزئین حسن

طالبان کا افغانستان : خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں، موسیقی چل رہی ہے ( پہلا حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آج کا افغانستان کیسا ہے؟ اہم ترین سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہیں محمود جان بابر ، معروف صحافی جنھوں نے گزشتہ ہفتے کابل کا تفصیلی دورہ کیا

انٹرویو : تزئین حسن

پندرہ اگست دو ہزار اکیس سے کابل کی صورت حال کا سب لوگ نہایت باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، اس وقت افغانستان دنیا کا سب سے زیاہ گرما گرم موضوع ہے جو ہاٹ کیک کی طرح بک رہا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا مسلسل افغانستان کی خبروں سے بھرا ہوا ہے۔

جناب محمود جان بابر سینئر صحافی ہیں ، مختلف بڑے میڈیا گروپس کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، بی بی سی اردو ، انڈیپنڈنٹ اردو کے ساتھ بھی وابستہ رہے، آج کل فری لانسر صحافی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہ گزشتہ روز افغانستان سے واپس پاکستان پہنچے ہیں۔ یہ تین دن کابل میں رہے ہیں ۔افغانستان کی تازہ ترین صورت حال جاننے کے لئے جناب محمود جان بابر سے رابطہ کیا ، ان سے چند سوالات کئے اور ان کے جوابات لے کر آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

تزئین حسن : مغربی اخبارات ان خبروں سے بھرے پڑے ہیں کہ کابل کے اندر شدید خوف و ہراس ہے۔ لوگ بالخصوص خواتین طالبان سے ڈری ہوئی ہیں، سابق افغان حکومت کے اہلکار ڈرے ہوئے ہیں ، افغان فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار خوف زدہ ہیں ، امریکی فوج کی مدد کرنے والے مترجم بھی ، وہ کابل سے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ امریکی فوج کو دیگر سہولتیں فراہم کرنے والے شدید خوف کا شکار ہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ وہاں کی اصل صورت حال کیا ہے؟ کیا یہ خوف والا تاثر درست ہے؟

محمود جان بابر : اس صورت حال کو تھوڑا سا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان ایسا ملک ہے جہاں ایک گروہ کی حکومت آتی ہے تو دوسرا گروہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کوئی بندوق کے زور پر لڑ رہا ہوتا ہے تو دوسرا سیاسی پراپیگنڈے کے ذریعے۔ وہ ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو نائن الیون کے بعد جب امریکا نے حملہ کیا تو اس وقت افغانستان سے نکلنے والی پوزیشن طالبان کی تھی۔ طالبان نکل رہے تھے اور انھیں پکڑ کر ، ان کی لاشوں کو آگ لگائی جاتی تھی۔ ان کے سروں کو کاٹ کر ان میں پٹرول بھرا جاتا تھا اور پھر انھیں ہوائوں میں اڑایا جاتا تھا۔

اب جب طالبان بیس سال بعد امریکا کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی سرزمین پر واپس آئے ، ایک قانونی گروہ کے طور پر ۔ انھیں کہا گیا ہے کہ آپ افغانستان واپس آئیں ، اس ملک کو سنبھال لیں۔ یہ بات انھیں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور نے کہی ہے۔ امریکا نے طالبان سے یقین دہانی لی ہے کہ آپ لوگ افغانستان میں افغان حکومت کو چھوڑتے ہیں یا نہیں ، آپ کسی بھی افغان گروہ کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں ، لیکن اس کے بعد امریکا کو کچھ ہوا ، تو اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے۔ افغانستان کی سر زمین امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئیے۔ چاہے وہ گروہ القاعدہ ہو یا کوئی اور۔ میں ایک صورت حال کو واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ پہلے طالبان افغانستان سے نکل رہے تھے اب ان کے مخالف نکل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں جا رہے ہیں؟آپ کو پتہ ہے کہ افغانستان سے جو لوگ نکل رہے ہیں اور جو پریشان ہیں ، وہ کیوں پریشان ہیں؟

افغانستان کا اسی فیصد علاقہ دیہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کو طالبان کے آنے کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ یہ بڑے شہروں کا مسئلہ ہے۔ بڑے شہروں میں بیس فیصد آبادی رہتی ہے۔ یہاں کے مرد و زن ، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ، اقلیتوں کے لوگ ، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ، اتحادی افواج کے ساتھ کام کرنے والے لوگ۔۔۔۔۔ ان سب میں زیادہ پریشان وہ ہیں جنھوں نے اتحادی افواج کے ساتھ کام کیا ہے ۔ انھوں نے افغانستان میں غیرملکی افواج کو راستے دکھائے ہیں ۔ انھیں بتایا ہے کہ اس وقت کون کہاں موجود ہے۔ ان کی مخبری کی بنیاد پر امریکا اور اس کے اتحادی وہاں پر حملے کرتے تھے ۔ پھر افغان فورسز بنیں ، انھوں نے طالبان کے خلاف براہ راست خود حملے شروع کئے ،یہ وہی لوگ ہیں۔ اب انھیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انھیں پتہ تھا کہ جب طالبان آئیں گے تو وہ انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ طالبان نے آکر عام معافی کا اعلان کردیا۔

تزئین حسن : کیا یہ خوف درست ہے اور طالبان کی طرف سے معافی کا اعلان دکھاوا ہے؟

محمود جان بابر : طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے ، میں نے سارے کابل میں دیکھا کہ وہاں خواتین پھر رہی ہیں ، وہ پہلے کی طرح پھر رہی ہیں، ہاں ! اب انھوں نے عبایا پہن لیا ہے۔ طالبان کی طرف سے ہم نے کوئی حکم نامہ نہیں دیکھا ہے لیکن خواتین نے عبایا پہن لیا ہے ۔ ان کے چہرے کھلے ہوئے ہیں ، میں نے خود دیکھا کہ بہت سی جگہوں پر خواتین چادر لے کر پھر رہی ہیں جس طرح ہمارے ہاں پختون سوسائٹی میں ہوتا ہے۔ ٹی وی پر بھی خواتین آ رہی ہیں۔ میڈیا کو آزادی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف بھی بات کر سکتا ہے ۔

تزئین حسن : کیا واقعی یہ بات صحیح ہے کہ میڈیا طالبان کے خلاف بات کر سکتا ہے؟

محمود جان بابر : ہاں ۔ ابھی تک میں سمجھتا ہوں کہ طالبان اس بات کو ہضم کر رہے ہیں ۔ ابھی تک وہ اپنے پرانے روپ میں واپس نہیں آئے ۔ یہ بہت بڑا ریلیف ہے اور عجیب سی بات ہے، کیونکہ جب میں گاڑی میں گاڑیوں میں پھرا ہوں تو وہاں موسیقی لگی ہوئی تھی۔ ٹی وہ پروگراموں میں موسیقی چل رہی ہے۔ تمام ریڈیو چینلز پر میوسیقی چل رہی ہے ، خواتین فون کال کرکے اپنی پسند کے گانے سنتی ہیں ۔ ابھی تک خواتین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ طالبان اس معاملے کو اپنے نظریے کے مطابق کسی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ کابل میں ایک بہت بڑا پارک ہے ، حبیب اللہ زا زئی پارک ، وہ بہت بڑا پارک ہے۔ بہت خوبصورت پارک۔ میں نے وہاں خواتین کو بچوں کے ساتھ آتے دیکھا ، وہ جھولے جھول رہی تھیں ۔ یہ کابل ائرپورٹ پر دھماکے سے دوسرے دن کی بات ہے۔

ابھی تک طالبان نے ایسا کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے پتہ چلتا ہو کہ وہ نوے کی دہائی والے طالبان ہیں ۔ خواتین کے حوالے سے لوگ ان سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ آپ کیا کریں گے؟ وہ کہتے ہیں کہ صبر کریں ، ابھی ہمیں حکومت بنانے دیں۔

میں آپ کو ایک بات بتائوں کہ طالبان نے جو معاہدہ کیا اور پوری دنیا کے ساتھ جو بات چیت کی ہے ، اس معاہدے میں بنیادی حقوق پر طالبان نے دستخط کئے ہیں کہ وہ بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ وہ خواتین کے حقوق فراہم کرنے کو یقینی بنائیں گے۔ لڑکیوں کی تعلیم جاری رہے گی ۔ خواتین ملازمتوں پر رہیں گی ۔ یہ ساری چیزیں چل رہی ہیں ، اس لئے کہ وہ بہت زیادہ آزاد نہیں کہ انھیں گھروں تک محدود کردیں ۔ میرا نہیں خیال کہ وہ خواتین کو گھروں تک محدود کریں گے۔ لوگوں میں اس بات کا خوف بھی نہیں ہے۔

ہاں ! ایک خوف ہے کہ اس وقت افغانستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ معاشی سرگرمیاں بند ہیں ، لوگ گھروں کا سامان بیچ کر گزارا کر رہے ہیں ۔ افغان حکومت بہت جلدی میں چلی گئی ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا بہت بڑا قصور ہے۔ انھیں چاہئیے تھا کہ وہ وہاں کوئی کانفرنس کرتے ، سب کو اکٹھا کرکے بٹھاتے ، سب کے سامنے طالبان کو حکومت ہینڈ اوور کر کے جاتے لیکن ایک خلا پیدا کیا گیا ،

اس خلا کے بارے میں وہاں کے لوگ بات کرتے ہیں کہ اشرف غنی حکومت نے یہ قصدا کیا ہے۔ طالبان کے لئے حکومت کو اپنے کنٹرول میں لینا ، حکومتی محکموں کو سمجھنا ، اس میں وقت لگے گا اور اس میں عام آدمی کا نقصان ہوگا۔ جن عام لوگوں کا نقصان ہوگا ، ان میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جن کی پرانی حکومت میں ملازمتیں تھیں ، انھیں نہیں پتہ کہ طالبان حکومت میں جب وہ ملازمتوں پر آئیں گے تو ان کی ملازمتیں رہیں گی یا نہیں ۔ نجی کاروبار بند ہے ، بنک بند ہیں ، ٹرانزیکشنز جو ہوتی تھیں ، انٹرنیشنل بزنس جو ہوتا تھا ، وہ بنکوں کے ذریعے ہوتا تھا ، لیکن اب بنک بند ہیں ۔

تزئین حسن : کیا وجہ ہے بنک بند ہونے کی ؟

محمود جان بابر : بنک بند ہونے کی یہی وجہ ہے کہ اب وہاں پر کوئی سنٹرل اتھارٹی نہیں ہے جو سنٹرل بنک کو چلا سکے۔ سنٹرل بنک کھلے گا تو نیچے والے بنک کھلیں گے۔

تزئین حسن : حکومت کا سب سے پہلا فرض ہوتا ہے امن قائم کرنا ۔ امن کی کیا صورت حال ہے وہاں پر ؟

محمود جان بابر : امن کی صورت حال یہ ہے کہ میں وہاں گھروں پر رہا ہوں ۔ کسی ہوٹل میں نہیں رہا ۔ میں گلیوں میں رہا ۔ میں مسجدوں میں گیا ۔ میں لوگوں سے ملا۔ ان کی بیٹھکوں میں بیٹھا ، حجروں میں بیٹھا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ امن کی صورت حال کیا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ پورے کابل میں ہم ایک موبائل ہاتھ میں لے کر نہیں گھوم سکتے تھے۔ ہمارے پاس گاڑی ہوتی تھی، وہ ہمیں مار دیتے تھے اور گاڑی لے جاتے تھے۔ یہاں پر قبضہ گروپ تھے اور ان قبضہ گروپوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔ اب ہمیں یہ ریلیف مل گیا ہے کہ جہاں طالبان کھڑے ہوتے ہیں ، ہم پیسے ہاتھوں میں اچھال کے جاتے ہیں۔ جن سے میری بات ہوئی ، وہ طالبان کے مخالفین تھے۔

تزئین حسن : لیکن عام تاثر یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں طالبان گاڑیاں چھین لیتے تھے، وہ گھروں میں گھس جاتے تھے ، تلاشی لیتے تھے ، بالخصوص فارسی بولنے والوں ، غیر پشتونوں کے ساتھ طالبان کا رویہ بہت برا تھا ۔ ۔۔۔۔۔

محمود جان بابر : وہ تو پچھلی حکومت کی بات تھی۔ اس وقت کے طالبان کون تھے؟ اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت وہ ایک عسکریت پسند قوت تھے۔ وہ افغانستان میں بزور قوت داخل ہوئے تھے۔ ان کی اور کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اب ان کی حیثیت ایک عسکریت پسند گروہ سے زیادہ ایک ایسی حکومت کی ہے جسے امریکا نے معاہدہ کرکے افغانستان آنے کا کہا ہے۔ اب سب لوگ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان افغانستان آگئے ہیں۔ اس لئے انھوں نے جو بھی ایسا کام کیا جسے دنیا غیر ذمہ دارانہ کام سمجھتی ہے ، اب میں توقع نہیں کرتا کہ وہ غیر ذمہ دارانہ کام کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور حکمران آ رہے ہیں، پہلے وہ عسکریت پسند گروہ کے طور پر آئے تھے ۔ ان کے پاس کسی کو بھی مارنے کی آزادی تھی۔ انھیں پتہ تھا کہ وہ کسی بھی کام کے لئے کسی بھی فورم پر جواب دہ نہیں ہیں۔

تزئین حسن : کیا واقعی یہ بات درست ہے کہ قانون کی حکمرانی طالبان کے پچھلے دور میں بھی نہیں تھی؟ جب وہ پنج شیر کے سوا باقی افغانستان پر قابض تھے

محمود جان بابر : امن تو تھا ، میں یہاں پر ایک مثال دینا چاہتا ہوں ۔ آپ ہنڈیا پکاتے ہیں، وہ ایک پوری ریاستی شکل ہوتی ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں امن ایک جزو ہوتا ہے ۔ اگر آپ اس امن کو سبزی کے طور پر ہنڈیا میں ڈال دیں تو کیا ہوگا؟ کیا اس وقت طالبان کی کوئی معاشی سرگرمی تھی؟ کیا دنیا ان کے ساتھ معاملات کر رہی تھی ؟ آپ معاشی معاملات کو گھی کے طور پر لے لیں تو کیا ہنڈیا میں گھی ڈالا گیا تھا؟ اس وقت امن موجود تھا۔ اس وقت صرف امن تھا ، یقینا وہ بندوق کے زور پر تھا۔ لوگ اس امن کی وجہ سے خوش تھے کیونکہ اس سے پہلے لوگ مجاہدین کا دور دیکھ چکے تھے ، جس میں سب لڑ رہے تھے اور ہر کوئی ” میری حکومت ” ، ” میری حکومت ” کہے جا رہا تھا۔ انھوں نے کابل کو مکمل طور پر تباہ کردیا تھا۔

پھر جب طالبان آئے تو لوگوں نے ریلیف کا سانس لیا کہ چلیں ! جینے کا موقع تو ملا ۔ان مجاہدین سے تو جان چھوٹ گئی ۔ میں کہتا ہوں کہ طالبان پرانی حیثیت سے نہیں آئے، اس لئے میرا خیال ہے کہ وہ ہر کسی کا خیال رکھیں گے، جس طرح انھوں نے عبداللہ عبداللہ کو کچھ نہیں کہا ، حکمت یار کو بھی کچھ نہیں کہا ، حامد کرزئی اور باقی لوگوں کو بھی کچھ نہیں کہا۔

گزشتہ دنوں طالبان نے پغمان کے ایک گورنر کو رہا کیا۔ جب طالبان نے اسے گرفتار کیا تھا تو سب لوگوں کو خوف تھا کہ طالبان اسے مار دیں گے چنانچہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کے حق میں مہم شروع کردی ۔ طالبان نے بخوشی اسے رہا کردیا کہ جائو ! لوگوں کو بتائو کہ ہم نے تمھیں چھوڑ دیا ہے۔ جب وہ وہاں سے نکلا تو لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ طالبان نے اتنے بڑے مخالف کو رہا کردیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت لوگوں کے دل خدشات 100فیصد تھے ، گورنر کی رہائی کے بعد خدشات 40 فیصد کم ہوگئے ۔
خواتین کے خلاف اقدامات نہ کرنا ،زبان اور نسل کی بنیاد پر اب تک کوئی کارروائی نہ کرنا ، یہ ایک چھوٹا سا پیغام ہے کہ ہم وہ نہیں ہیں جو پہلے کبھی آئے تھے۔

تزئین حسن : معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بتائیں کہ طالبان کے پاکستان ، چین ، روس اور ایران سے مذاکرات ہوئے ، پندرہ اگست سے پہلے انھیں ایک سٹیٹ ایکٹر کے طور پر دکھایا جارہا تھا، ان ممالک کی مدد سے آنے والے چند ہفتوں میں معاشی سرگرمی میں اضافے کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے؟

محمود جان بابر : افغانستان میں ایک مسئلہ ہے ۔ یہ معدنیات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے مالدار ترین ملک ہے۔ اگر وہاں کے لوگ باہم اکٹھے ہوکر بیٹھ جائیں ، ملک کو اتفاق سے چلائیں ، اس جتنا مال دار ملک کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ باقی ممالک اسی لئے یہاں آتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالبان ہی کو باہر سے کچھ دیا جائے گا۔ طالبان کے پاس ملک کے اندر اتنا کچھ ہے کہ وہ بیرونی ممالک کو کچھ دینا چاہیں تو دس بار افغانستان بن سکتا ہے۔ میں نے اس پر باضابطہ ایک سروے کیا ہے ۔ جو میٹلز موبائل فون میں استعمال ہوتے ہیں ، وہ پوری دنیا کے لئے کافی ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے کہ طالبان کو باہر سے کچھ ملے گا بلکہ طالبان بھی لوگوں کو کچھ دیں گے۔

اگر ہم سوچتے ہیں کہ طالبان ہر کہیں پر دست نگر ہوں گے اور ہر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے ، ایسا نہیں ہوگا ۔ میرا خیال ہے کہ طالبان نے سمجھ داری سے کام کیا تو چین بھی مدد کرنے پر مجبور ہوگا، پاکستان بھی مدد کرے گا ، ایران اور روس بھی مدد کریں گے۔ اگر یہ چاروں ممالک طالبان کی مدد نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ طالبان چلے جائیں لیکن ان چاروں ملکوں کے لئے مسئلہ زیادہ ہوگا۔ یہ بات یہ چاروں ملک سمجھتے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کی حکومت بنی تو ان چاروں ممالک نے مدد کی جیسا کہ لگ رہا ہے کہ وہ مدد کریں گے، ایسے میں میرا خیال ہے افغانستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔

تزئین حسن : آپ نے بتایا کہ کابل میں امن موجود ہے ، خواتین کو کچھ نہیں کہہ رہے، موسیقی اور ویڈیوز وغیرہ چل رہی ہیں، ٹی وی چینلز کھلے ہوئے ہیں، طالبان کے خلاف بات کرنے کی اس وقت آزادی ہے ، ٹی وی چینلز طالبان پر تنقید کر رہے ہیں ، کیا یہ سب باتیں صحیح ہیں ؟ میں تصدیق کے لئے دوبارہ پوچھ رہی ہوں۔

محمود جان بابر : جی بالکل ، میں نے خود ٹی وی چینلز پر رپورٹس چلتے دیکھی ہیں کہ طالبان نے صحافیوں کے ساتھ یہ کیا ، انھوں نے فلاں کے ساتھ یہ کردیا۔

تزئین حسن : طالبان نے ایک کامیڈین کو مارا تھا جو ان پر تنقید کرتا تھا۔ اس پر طالبان نے کوئی کارروائی کی؟ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت اہم ہے۔

محمود جان بابر : اس کی ویڈیوز بھی طالبان نے ہی لوگوں کو بھیجی تھیں ۔ اس کے بارے میں دو رائے تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ایک کامیڈین تھا بس! دوسری رائے یہ تھی کہ وہ حکومت کا بھی حصہ تھا اور کسی فورس کا بھی ۔ اس کی کچھ ایسی ویڈیوز آئی تھیں ، جن میں وہ طالبان کو ایسے للکار کر بات کر رہا تھا ، جو کوئی بھی شخص برداشت نہ کرتا ، میرے بارے میں بھی کرتا تو میں بھی برداشت نہ کرتا ۔ ہاں ! مار دینا ایک دوسری بات ہے۔ اس سے کسی کو اتفاق نہیں ہوسکتا۔ بہرحال وہ صرف ایک کامیڈین نہیں تھا۔ ہم نے جو ویڈیوز دیکھیں ، وہ کسی فورس کا حصہ تھا۔

تزئین حسن : کیا اسے باقاعدہ کسی پالیسی کے تحت مارا گیا ہے؟

محمود جان بابر : ابھی تک طالبان نے اس کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ہاں ! جو لوگ نظر آئے تھے، وہ طالبان ہی لگ رہے تھے۔ طالبان نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں گے۔ اس کا جائزہ لیں گے اور پھر دنیا کو بتائیں گے کہ انھوں نے کیا کچھ کیا۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ۔

تزئین حسن : یعنی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔۔۔

محمود جان بابر : ابھی تک طالبان کی حکومت نہیں بنی۔ جب حکومت قائم ہوگی تو انھیں اعلان کرنا پڑے گا کہ ان کے پاس فلاں فلاں شکایات آئی تھیں ، فلاں فلاں کمیشن بنایا تھا اور یہ کارروائی ہم نے کی ۔ ابھی طالبان کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ انھیں ابھی باضابطہ طور پر ملک ہینڈ اوور بھی نہیں ہوا تو وہ کس قانون کے تحت کارروائی کریں؟

تزئین حسن : کابل پر طالبان نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ اب حکمران کی حیثیت سے بات کر رہے ہیں ، چاہے جو بھی بات کر رہے ہیں ، جو بھی اقدامات کر رہے ہیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔

محمود جان بابر : میں جب وہاں موجود تھا تو طالبان نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ افغانستان ان کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان میں ایک بھی امریکی فوجی موجود ہوگا، وہ افغانستان کو اپنی ذمہ داری تسلیم نہیں کریں گے ۔ کیونکہ اگر وہ شریک کے طور پر افغانستان میں موجود ہیں اور افغانستان کو اسی طرح چلا رہے ہیں ، جس طرح پہلے چلا رہے تھے یا اس میں دخل اندازی کر رہے ہیں ، اس لئے ہم سے توقع نہ رکھی جائے کہ ہم افغانستان کے ذمہ دار بنیں گے ۔ افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری اس وقت تسلیم کریں گے جب تمام امریکی چلے جائیں گے۔ ابھی تک طالبان نے افغانستان کو اپنی ذمہ داری قرار نہیں دیا۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں