Taliban

طالبان ،خدشات و توقعات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد بلال اکرم کشمیری

بلاآخر 20سالہ جدوجہد اور لاکھوں قربانیوں کے بعد طالبان نے افغانستان کو ایک بار پھر فتح کرکے اپنا کھویا تشخص دوبارہ بحال کرالیا، یہ بھی تاریخی موقع تھا جب طالبان بغیر خون خرابے کے کابل میں داخل ہوئے اور پھر عام معافی کا اعلان کر دیا ۔ دنیا اس بات پر بھی انگشت بداں ہے کہ کیسے ایک قوم نے سپر پاور کو اتحادیوںسمیت ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اتحادی اس غیر متوقع شکست کا الزام امریکہ پر ڈال رہے ہیں جبکہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ اس نے اپنا کام پورا کر دیا تھاجبکہ اس شکست کی ذمہ دار خود افغان حکومت ہے۔

دوسری جانب افغان رہنما اشرف غنی طالبان کی فتح کو بھانپتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑ کر ڈالرو ں سے بھرے بیگ لے کر ملک سے فرار ہوگئے،بعد ازاں طالبان کی کابل پر فتح کے بعد اشرف غنی نے ٹوئیٹر کا سہارا لیتے ہوئے پیغام جاری کیا کہ وہ ملک کو کشت و خون سے بچانے کے لیے ملک چھوڑ آئے ،جبکہ اس وقت دنیا جس نظام یعنی جمہوریت کے لیے طالبان پر زور ڈال رہی ہے اس نظام میں رہتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ اپنی توجہ اپنے اقتدار کو بچانے پر رکھی ۔خود ان کے اپنے ساتھیوں جیسا کہ عبد اللہ عبداللہ نے ان کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ۔اشرف غنی کے دور میں افغان عوام ان سے کس قدر خائف تھی اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے تو مقامی عوام ان کا بھر پور استقبال کر رہی تھی ،ان کے ساتھ سیلفیاں بنوارہی تھی ۔اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغان عوام کس قدر کٹ پتلی حکومت سے نالاں تھی،دوسری جانب امریکی تربیت یافتہ اور انڈیا کہ دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق سب سے بہترین کم و بیش دو لاکھ افغان فورسز بھی کچھ کرنے سے قاصر نظر آئیں ،ان کا کچھ نہ کرپانا بھی امریکی تربیت پر سوالیہ نشان تھا۔

طالبان کی فتح کے ساتھ ہی قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ آیا اب طالبان کی اس حکومت کو تسلیم کیا جائےیا نہیں ؟ اس حکومت کو تسلیم کرنے کا معیار کیا ہوگا؟ البتہ چائنہ نے اس حصار کو توڑتے ہوئے طالبان کو سب سے پہلے تسلیم کر لیا۔پاکستان کا اب تک صرف یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ ’’ہم افغان سرزمین کو اپنے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘ اس بیانیے کا ایک صاف سا مطلب یہ ہے کہ طالبان انتقامی کاروائی سے گریز کریں ۔ دوسرا اس بیان کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ ’’طالبان ہندوستان کیساتھ ہاتھ نہ ملائیں‘‘ ورنہ ماضی میں امریکہ نے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو نشانہ بنایا تھا،جس کی وجہ سے جنگ افغانستان سے نکل کر پاکستان تک پھیل گئی تھی۔شاید جب تک اس بیانیے کی وضاحت پاکستان خود نہیں کرتا اس وقت تک اس کی مختلف توجہیات پیش کی جا تی رہیں گی،

طالبان کے کابل صدارتی محل میں داخل ہوتے ہی اشرف غنی کے چھتری تلے کام کرنے والے افغان حکام نے پاکستان کا رخ کیا ،ان میں موجود ایک سابق کمانڈر کے بیٹے کا کہنا تھا کہ زور زبردستی والی حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلتی بلکہ لوگ اب جمہوری ہو چکے ہیں ،تو ان سے یہ سوال بنتا تھا کہ آپ نے بیس برسوں میں کتنی جمہوریت قائم کی ؟ لوگ آپ سے ناراض کیوں تھے ؟ اور پھر اگر افغانستان میں جمہوریت تھی تو اشرف غنی کو فرار کیوں ہونا پڑا؟ اگر بزور شمشیر طالبان پہلے آئے اور بقول ان کے کہ طاقت کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی تو پھر طالبان نے اپنی کھوئی حکومت دوبارہ کیسے حاصل کر لی ؟ عوام نے ان کیخلاف مزاحمت کیوں نہ کی؟ ظاہر ہے طالبان باہر سے نہیں آئے بلکہ وہ افغانستان کا ہی حصہ ہیں کیا اس تمام عرصہ میں افغان عوام یہ سمجھ گئی تھی کہ طالبان کا نظام ہی بہتر تھا؟

احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود نے لیبیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ قذافی کے پاس بہت پیسہ تھا اس کی عوام کے پاس بھی بہت پیسہ تھا مگر چالیس سال بعد وہ ناکام ہوا ،کیونکہ ادارے جمہوری نہ تھے ،حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ لیبیا ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلے میں اپنی کرنسی لانے کا سوچ رہا تھا جو کہ بڑی طاقتوں کو کسی طور پر قابل قبول نہ تھا،اور امریکہ نے جمہوریت کے نام پر اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے معمر قذافی کو خاک میں ملا دیا ، بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں انہوں نے جب اسلامی طرز حکومت اور نظام کی بات کی تو امریکہ اور دیگر اسلام مخالف طاقتوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے،انہوں نے اسی وقت سے ہی اسے ناکام بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی جس کو عملی جامہ 9/11کے بعد پہنچایا گیا اور اس نظام کو روک دیا گیا،کیوں اگر وہ نظام کامیابی سے جاری رہتا تو دنیا کو اسلام کی حقانیت کا بخوبی علم ہو جاتا اس لیے ضروری تھا کہ اس نظام کو ہی ختم کر دیا جائےاور اپنے بنائے گے نظام یعنی جمہوریت کو متعارف کرایا جائے جس کے ذریعے سے وہ باآسانی مداخلت کر سکتے ہیں ۔اسی طرح عراق پر حملہ درحقیقت عراق کو مضبوط معاشی قوت بننے اورفلسطینیوں کے لیے صدام کی آواز کو دبانا تھا ،جب کہ صدام حسین کو قابو کرنا مشکل تھا لہٰذا کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر اور جمہوریت کا نعرہ دے کر صدام کو بھی پیوند خاک کر دیا گیا ۔ اس وقت افغانستان میں بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ جمہوری نظام نافذ کرایا جائے تاکہ اس کے ذریعے سے اسلامی نظام کے نفاذ میں مشکلات برقرار رہے سکیں ۔لیکن اس وقت طالبان کو درپیش چیلنجز میں سب زیادہ بیرونی مداخلت کےبجائے اندرونی حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔

بین الاقوامی میڈیا میں طالبان کے خلاف پروپیگینڈے کا آغاز ہو چکا ہے ،جس میں طالبان کے پہلے دور اقتدار کی طرح ہی ان کے خلاف مذہبی شدت پسندی کے عنصر کو نمایا ں کر کے دکھایا جا رہا ہے۔تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار طالبان پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں ،باقاعدہ طور پر میڈیا ہاوس کا آغاز ہو چکا ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ اس مرتبہ طالبان گزشتہ دور کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہیں دوبارہ نہیں دوہرائیں گے اور افغان عوام کو ہمراہ لے کر چلیں گے ۔ابھی طالبان کو بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے پہلا چیلنج یہ درپیش ہے کہ امارات اسلامیہ کے اعلان کے بعد اس کےنفاذ کا مرحلہ سب سے مشکل مرحلہ ہو گا،کیونکہ افغانستان کسی ایک قبیلے یا شخصیت کا نام نہیں بلکہ بہت سے قبائل اور شخصیات اور اقلیتوں کا ملک ہے ۔اس لیے اسلامی قوانین کے نفاذ میں درپیش مسائل کو احسن انداز سے حل کرنا ہوگا۔

دوسرا چیلنج یہ درپیش ہوگا کہ اندرونی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنا ہو گا ،جس میں دیگر شہری بھی متاثر نہ ہوں ۔

تیسرا چیلنج بین الاقوامی میڈیا کا پروپیگینڈے کا مقابلہ بھی کرنا ہو گااس کے لیے طالبان کو بھی میڈیا کا سہارا لینا ہوگا تاکہ پروپیگنڈے کا مثبت جواب دیا جاسکے۔

چوتھا چیلنج ملک کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی غرض سے بین الاقوامی تعلقات استوار کرنے ہونگے اور ملک کو مزید وسائل فراہم کرنے ہونگے۔

طالبان کا حقیقی مقصد تو افغانستان میں کلمتہ اللہ کا قیام ہے مگر توقع ہے کہ وہ اس مرتبہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں افغانستان میں بسنے والی مختلف برادریوں اور قبائل کو مناسب نمائندگی دیتے ہوئے انہیں ساتھ لے کر چلیں گے تاکہ ہر ایک پرامن زندگی گزار سکے اور اسلام کا حقیقی تصور دنیا پر واضح ہوسکے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں