ڈاکٹر خولہ علوی
“بچو! کیا ہوا ہے؟”فوتگی سے واپسی پر گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی ماما جان کو کچھ ان ہونی ، کچھ گڑ بڑ ، کچھ غلط ہونے کا بے ساختہ احساس ہوا۔
“آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ آپ کو رونا کیوں آرہا ہے؟” انہوں نے چھوٹے بیٹے ثمامہ کی شکل پر لکھی ہوئی شکایت پڑھ کر پوچھا۔”ماما جان! مجھے اسامہ بھائی نے بڑا تنگ کیا تھا۔” اس نے فوراً زبردستی کے دو چار آنسو ٹپکاتے ہوئے کہا۔
“آپ کو رونا نہیں آرہا تو نہ روئیں۔ اتنا تنگ ہو کر اور دکھاوے کے آنسو بہانے کا کیا فائدہ ہے؟ ” بڑے بھائی اسامہ نے ثمامہ کو ڈانٹا تو اس نے آنسو پونچھ لیے۔
ستمبر کے دوسرے عشرے کے باوجود گرمی اپنے عروج پر تھی۔ یہ بہت گرم دن تھا۔ اور سورج گویا آگ برسا رہا تھا۔
ماما جان آج ایک ناگہانی ضروری وفات پر تعزیت کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ تقریباً سوا بارہ بجے وہ واپس اپنے گھر پہنچیں۔ ان کے میاں حسب معمول آفس گئے ہوئے تھے۔ جبکہ چاروں بچے سکول سے چھٹی کی وجہ سے گھر میں ہی تھے۔ تین بچے جلدی سے اٹھ کر ان سے باری باری ملنے لگے۔ جبکہ بڑی بیٹی مناحل بیڈ روم میں سوئی ہوئی تھی۔
انہیں بچوں کے چہروں پر تناؤ ، شکایتیں اور پریشانیاں نظر آئیں۔ بچے ایک دوسرے سے روٹھے روٹھے لگ رہے تھے۔ اور شکایات لگانے کو بیتاب دکھائی دے رہے تھے۔
“مناحل آپی اور اسامہ بھائی کی آپس میں بہت زیادہ لڑائی ہوئی ہے۔ اور اسامہ بھائی نے مناحل آپی کی خوب مار کٹائی کی ہے۔” چھوٹی بیٹی صائمہ نے بتایا۔
ماما جان ساتھ ساتھ گھر کے اندرونی و بیرونی حصوں کی ساری صورت حال کا جائزہ لے رہی تھیں۔ ایک تو گرمی بڑی شدید تھی، دوسرا گھر واپسی کے بعد، گھر کی ظاہری بے ترتیب صورت حال، اور بچوں کے پریشان چہروں نے انہیں بہت اپ سیٹ (upset) کر دیا تھا۔
“باہر صحن میں بالکل سامنے لوہے کا باریک سا راڈ پڑا ہوا تھا۔ صحن، لاؤنج اور بیڈروم میں جگہ جگہ پانی گرا ہوا تھا۔ پانی میں ماچس کی کئی جلی ہوئی تیلیاں گری ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے بڑی تشویش ہوئی تھی۔ کیونکہ کچن کے چولہے آٹومیٹک تھے جن کے لیے ماچس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
لاؤنج میں رکھی گئی کرسیاں اور میز بھی اپنی جگہ سے آگے پیچھے ہٹے ہوئے بے ترتیب تھے۔ بیڈروم کے اندر مصالحہ پیسنے والا موٹا ڈنڈا بھی ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں کے ساتھ پڑا ہوا اپنی بد بختی اور غلط استعمال پر ماتم کناں تھا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ اور میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی”انہوں نے بعد میں اپنے شوہر کو بتایا۔”اسامہ بیٹے! آپ بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟” انہوں نے پھر پوچھا۔
“تقریباً سوا گیارہ بجے ہم دونوں بھائی ( اسامہ اور ثمامہ ) اور ہمارا کزن ( تایا زاد بھائی ) غفران تینوں اکٹھے بیٹھ کر کمپیوٹر پر کارٹون دیکھ رہے تھے کہ اچانک چھوٹے بھائی ثمامہ نے اپنی آواز کو پنجم سر میں چڑھا کر نہایت دردناک چیخیں مارنا شروع کر دیں۔” اسامہ نے بات کی ابتدا کی۔
“تب ہم دونوں بہنیں ( مناحل اور صائمہ ) بیڈ روم میں سوئی ہوئی تھیں۔”صائمہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔”یہ دونوں سو نہیں رہی تھیں بلکہ تائی جان کے موبائل پر کارٹون دیکھ رہی تھیں۔”اسامہ نے فوراً ہی انکشاف کر دیا۔”بہرحال ثمامہ کی چیخ و پکار کی وجہ سے ہم دونوں بہنیں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔” صائمہ نے اسامہ کی بات کا نوٹس لیے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔
“کیا ہوا ہے ثمامہ؟” مناحل آپی نے پوچھا۔”اسامہ بھائی میری گود میں بیٹھ گئے تھے، مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ اس لیے میں نے اتنی زور سے چیخیں ماری تھیں۔” آٹھ سالہ ثمامہ نے بتایا۔بعد میں اسامہ اور ثمامہ دونوں اس بات سے مکر گئے۔
“میں نہیں بلکہ غفران بھائی ثمامہ کی گود میں غلطی سے بیٹھ گئے تھے اور وہ جلدی سے اٹھ بھی گئے تھے۔ لیکن ثمامہ نے اتنی کان پھاڑ اور دلدوز چیخیں ماری تھیں، جیسے اس کے ساتھ پتہ نہیں زندگی و موت کا کتنا بڑا حادثہ پیش آگیا ہو!” اسامہ نے بعد میں غصے سے بتایا۔
“اسامہ بھائی نے غفران بھائی کو کسی بات پر ناراض ہو کر اچانک دھکا دیا تھا۔ اور وہ میرے اوپر آکر گر گئے تھے۔ مجھے اتنا درد ہوا تھا اور اتنا زیادہ برا بھی لگا تھا۔ ساری غلطی غفران بھائی کی ہے۔ وہ کیوں میرے اوپر آکر گرے تھے؟” ثمامہ نے بھی اپنا بیان بدل لیا۔”میں نے کچھ نہیں کیا۔” غفران اس بات سے مکمل انکاری ہو گیا۔
“کدو ، ٹینڈے ، کمینے ، بد تمیز ، منحوس، تم کیوں چھوٹے سے بچے کی گود میں بیٹھے تھے؟ اسے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔” مناحل آپی نے فوراً ڈیڑھ سالہ چھوٹے بھائی اسامہ کو غصے سے بے قابو ہوکر گالیاں دیں اور رنگا رنگ باتیں سنادیں۔
عجیب بات ہے کہ ان کے گھریلو ماحول میں والدین کی عمدہ تربیت کی وجہ سے گالم گلوچ کرنا یا لعنت ملامت کرنا یا دوسروں کو بددعائیں دینا نہایت برا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے والدین نے نہ تو انہیں کبھی گالیاں یا بددعائیں دی ہیں۔ نہ ہی آپس میں کبھی گالم گلوچ کی ہے۔ لیکن ارد گرد کا ماحول، سکول میں مختلف قسم کے ہم جماعت اور کارٹونز کے اثرات ان پر بھی اپنے کافی اثرات مرتب کر چکے ہیں۔
آپس کی بات ہے کہ مناحل اس طرح کے کبھی کبھار پیش آنے والے مواقع پر بہن بھائیوں کو بے دریغ گالیاں دینے کی وجہ سے بدنام ہے۔ دوسری گالیوں کے ساتھ سبزیوں کے نام کی گالیاں اس نے نجانے کہاں سے اور کیونکر ایجاد کر رکھی تھیں؟ مثلاً کدو، ٹینڈا، بینگن، کریلا وغیرہ
اور صائمہ جب چھوٹی تھی تو اس نے بھی جانوروں کے ناموں کی عجیب وغریب گالیاں خود ایجاد کر رکھی تھیں مثلاً معروف گالی “گدھے” کی طرز پر “ڈوگی والا”، “ڈونکی والا”،”بھینس والی”، “گائے والی” وغیرہ کہہ کر وہ بہن بھائیوں کو نہایت غصے میں کبھی کبھار خود ساختہ گالیاں دیتی تھی۔ البتہ گھر سے باہر یا دوسرے لوگوں کے سامنے تو اس طرح کی کوئی بات یا گالم گلوچ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
“تم ہوگی ٹینڈی، کمینی، منحوس۔ مجھ سے تمیز سے بات کرو۔” اسامہ نے بھی اسے گالیاں دیں اور بندر کی طرح منہ بنا بنا کر اسے چڑانے بھی لگا۔
اور پھر یہاں سے دھواں دھار لڑائی شروع ہوگئی جو کچھ دیر بعد “جنگ عظیم” میں بدل گئی۔ مناحل نے اسامہ کو تھپڑ مارا اور اسامہ نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے مناحل کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے ایک زوردار جھانپڑ رسید کر دیا۔
پھر دونوں بہن بھائی لڑتے، بکتے جھکتے اور ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے ایک دوسرے کے پیچھے ساتھ والے تایا جان کے گھر میں درمیانی راستے سے گزر کر پہنچ گئے۔ مناحل نے اسامہ کو ناخن بھی مارے اور اسامہ بھی اسے جوابا اپنے طریقے سے “حسبِ توفیق” مارتا رہا اور مناحل چیختی چلاتی اور اسے برا بھلا کہتی رہی۔صائمہ اور ثمامہ بھی ان دونوں کے پیچھے پہنچ گئے۔
“بچو! لڑائی نہ کرو۔ بری بات ہے۔ اسامہ ! آپ مناحل کو نہ ماریں۔ دیکھیں، اس کا کتنا برا حال ہوگیا ہے۔” وہاں تائی جان نے اسامہ کو پہلے پیار سے، پھر سختی سے سمجھایا اور لڑائی سے منع کیا۔
“دوسروں کے گھر لڑائی نہ کریں۔ تایا جان کو غصہ چڑھ جائے گا اور تائی جان بھی بہت ناراض ہوں گی اور ماما کو ساری باتیں بتا دیں گی۔ چلیں ، اپنے گھر چلیں ۔” صائمہ نے تائی جان کی ناراضی دیکھی تو موقع غنیمت جان کر انہیں سمجھایا لیکن اسامہ گھر واپسی کے لیے تیار نہ ہوا۔
پھر وہ مناحل آپی اور چھوٹے بھائی ثمامہ دونوں کو سمجھا بجھا کر اور اصرار کرکے گھر واپس لے آئی۔ جبکہ اسامہ آنٹی کے گھر میں ہی رہ گیا تھا۔ وہ بھی اسے چھوڑ کر آگئے کہ “فتنہ”جب تک خاموش رہے یا “علیحدہ” رہے، بہتر ہوتا ہے۔”
پانچ منٹ بعد اسامہ بھی گھر واپس آگیا اور پھر مناحل آپی کو تنگ کرنے اور اسے مارنے لگا۔ پھر اس نے کہیں سے لوہے کا باریک سا راڈ اٹھا لیا اور دونوں بہنوں کو ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔ “شائد وہ ہمیں ڈرا رہا ہے۔ لیکن یہ حرکت نہایت خطرناک ہے۔”صائمہ نے مناحل سے کہا۔
اسامہ جب راڈ مارنے کا ایکشن لیتا تو دونوں بہنیں مل کر اس سے راڈ پکڑ لیتی تھیں درحقیقت وہ خود بھی راڈ مارنے کا ڈرامہ ہی کر رہا تھا۔
پھر مناحل نے زبردستی اسامہ کو تایا جان کے گھر دوبارہ بھیج دیا اور گھر کے اندر سے لاؤنج کے دروازے کی کنڈی لگالی لیکن سیڑھیاں چڑھ کر چھت کی کنڈی نہ لگا سکی۔
چند منٹ بعد اسامہ نے گھر واپس آکر دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا لیکن کسی نے نہ کھولا۔ اس پر اسامہ غصے سے اتاؤلا ہوگیا اور اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔ وہ کچھ دیر تک دروازہ کھلوانے کی کوشش کرتا رہا لیکن کسی نے نہ کھولا۔
پھر وہ تایا جان کی چھت پر گیا اور وہاں سے درمیانی دیوار پھلانگ کر اپنے گھر کی چھت پر آگیا اور وہاں سے چھت کے دروازے سے گزر کر، سیڑھیاں اتر کر نیچے گھر کے اندر لاؤنج میں آگیا۔ بچے ابھی لاؤنج میں موجود تھے۔ سب سے پہلے ثمامہ نے اسے نیچے اترتے دیکھا اور بے ساختہ ایک زور دار چیخ ماری۔
اسامہ نے ان کے قریب آتے ہی نہایت غصے سے چھوٹی بہن صائمہ کو ایک گھونسہ مارا۔ جوابی کاروائی کرتے ہوئے صائمہ نے بھی اسے ٹانگ ماری۔ اسامہ نے صائمہ کا بازو پکڑ کر بری طرح مروڑ دیا جس سے اسے بےتحاشا تکلیف ہوئی اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ لیکن اس نے ہار نہ مانی اور دونوں ایک دوسرے کو مارتے رہے۔ لڑائی اور مار پیٹ میں کوئی بھی کمی نہیں کر رہا تھا۔ لیکن لڑکا ہونے کی وجہ سے اسامہ کا پلہ بھاری تھا۔
پہلے بھی یہ لوگ لڑائیوں میں ایک دوسرے کا، چھوٹے بڑے ہونے کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ اب بھی اسامہ زبان اور ہاتھ دونوں چلاتا رہا اور صائمہ حسب توفیق مارنے کے ساتھ ساتھ خوب چیختی چلاتی رہی اور برا بھلا بھی بھی کہتی رہی۔
اسامہ دوسروں کو چڑانے کے فن میں بڑا ماہر تھا۔ بندر کی طرح منہ بنا بنا کر، منہ سے آوازیں نکال کر، ناک پھلا کر، بعض اوقات نقلیں اتار کر بڑوں تک کو عاجز کر دیتا ہے۔ “دوسرے بندے کا دل چاہتا ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے پر اسامہ کی اچھی طرح پٹائی کرے اور اسے چڑانے سے باز کرے۔”ان کے “اکلوتے” چاچو کہتے تھے جو اس کی اس قسم کی حرکتوں سے سخت نالاں تھے۔ ( تایا جان تو ابو جان کے بڑے بھائی تھے)
پھر اسامہ نے مناحل کو دوبارہ مارا اور مناحل نے بھی حسبِ توفیق اسے مارا لیکن اسامہ کا مردانہ ہاتھ بہنوں کے نازک ہاتھوں کے مقابلے میں بہت سخت تھا۔
“اسامہ بھائی ہم پر لڑکا ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھا کر تینوں بہن بھائیوں کو اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے کہ ہم اس کی حاکمیت اور ہر بات کو من و عن تسلیم کریں اور اس کی پوری اہمیت ہو۔ اس لیے وہ حسبِ موقع ہمیں سختی سے مارتا پیٹتا اور گالیاں دیتا رہتا ہے۔ اور بعد میں معصوم بن جاتا ہے۔” مناحل ہمیشہ اسامہ کی یہ شکایت کرتی ہے۔ لیکن دونوں بہنیں اس سے پنگے لینے سے بھی باز نہیں آتیں۔
“ماما جان! یہ دونوں پہلے پورا مقابلہ کرتی اور بدلہ لے لیتی ہیں اور پھر شکایتیں بھی لگاتی ہیں۔” اسامہ نے جواباً وار کیا۔
“مجھے اپنی بہنوں سے یہ شکایت ہمیشہ رہتی ہے۔” اسامہ نے مزید کہا۔ “اسامہ اپنے سخت مردانہ ہاتھوں اور قوت و طاقت کا ہم بہنوں پر بے دریغ استعمال کرکے ہمارے نازک ہاتھوں سے جواباً کیے گئے وار کو برابر ٹھہرا لیتا ہے۔” صائمہ کو بھی بڑے بھائی سے یہ شکایت بہت زیادہ ہے۔
“مار دو، مار دو، مجھے مار دو۔” صائمہ نہایت جذباتی ہو کر دوسرے پر چیخنے لگتی ہے۔”یا اللہ! میں مر کیوں نہیں جاتی؟ یا اللہ! مجھے اپنے پاس بلا لے۔ میں کیوں ان کی ماریں کھانے کے لیے زندہ ہوں؟” صائمہ مار کھانے کے بعد بار بار یہ دہائی دیتی ہے۔بعد میں جب اس کے بہن بھائی اس کا مذاق اڑاتے اور اسے سمجھاتے ہیں تو وہ بہت شرمندہ بھی ہوتی ہے۔ کہتی بھی ہے کہ “آئندہ ایسے نہیں کروں گی۔”مگر اگلی لڑائی میں پھر اس کا یہی ردعمل سامنے آتا ہے۔ سب حیران بھی ہوتے ہیں کہ “اس نے یہ طریقہ اور یہ باتیں نجانے کہاں سے سیکھ لی ہیں؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر مناحل، صائمہ اور ثمامہ تینوں نے موقع ملنے پر بھاگ کر بیڈروم میں جا کر دروازہ بند کرکے جلدی سے دروازے کی اندرونی کنڈی لگا دی۔ اسامہ اس اچانک ہونے والی کاروائی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے ان سے اتنی پھرتی کی توقع نہیں تھی۔
اب اسامہ نے ناراض ہوتے ہوئے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا مگر مخالف ” ٹیم” نے اندر سے دروازہ نہیں کھولا۔ تقریباً پانچ سات منٹ تک وہ غصے سے کھولتا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ البتہ انہوں نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
اب اسامہ نے اپنے طریقے سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ پہلے وہ دروازے کو دھکے مارتا رہا۔ پھر وہ لوہے کی باریک راڈ لے آیا اور اس نے دروازے کے دونوں پٹ کے درمیان باریک سی جگہ سے اسے گھسا کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
پھر وہ کچن سے مصالحہ پیسنے والا موٹا سا ڈنڈا اٹھا لایا اور اب لوہے کی راڈ کے ساتھ اسے بھی دروازے کی معمولی سی درز سے اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
“گیٹ کے پاس رکھا ہوا یو۔پی۔ایس سسٹم بند کر دیتا ہوں۔ شاید اندھیرے اور گرمی سے گھبرا کر یہ لوگ دروازہ کھول دیں۔” اس نے شدید غصے سے یو۔پی۔ایس کا مین کنٹرول سوئچ بند کر دیا۔”یو۔پی۔ایس بند ہونے کی وجہ سے سارے گھر کی لائٹ بند ہو گئی ہے۔” اندر مناحل آپی غصے سے بولیں۔ لیکن دروازہ انہوں نے پھر بھی نہیں کھولا۔
دو تین منٹ انتظار کے بعد اب تو اسامہ جیسے غصے سے پاگل ہو چکا تھا۔ اب وہ تایا جان کے گھر جاکر غفران سے نجانے کیا کہہ کر ایک لاک اور اس کی چابی لے آیا اور اس نے بیڈروم کے دروازے کو باہر سے لاک لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا نہ کر سکا کیونکہ دروازے پر پہلے ہی ایک بند لاک جھول رہا تھا۔
پھر اسامہ نے ان کو تنگ کرنے کے لیے باہر صحن میں کھڑی کی گئی بائیک کا ہارن بجانا شروع کر دیا اور کچھ دیر مسلسل بجاتا رہا۔
“اس ہارن کی وجہ سے ہم سب اتنا تنگ ہوتے رہے۔ ہم نے تنگ آکر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ لیکن دروازہ نہیں کھولا۔”صائمہ نے بعد میں ماما کو بتایا۔ “پھر اسامہ نے ایک موٹا سا ڈنڈا لے کر اسے باہر لاؤنج سے کمرے کی ونڈو کے ساتھ بیرونی سائڈ سے زور و شور سے مارنا شروع کردیا۔” صائمہ نے بات آگے بڑھائی۔
“پھر مناحل آپی نے اندر سے ونڈو کھول کر اسامہ بھائی کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔” صائمہ نے مزید بتایا۔
“ٹینڈے، گینڈے۔ بند کرو یہ بدتمیزیاں۔” مناحل نے غصے سے چیخ کر اسے کہا۔
“تم ہوگی گینڈی، ٹینڈی۔ ” اسامہ نے بھی جوابی وار کیا۔
کچھ دیر بعد اسامہ نے دروازے کے نیچے سے کمرے کے اندر تھوڑا سا پٹرول پھینک دیا۔
“پتہ نہیں کہاں سے اس نے پٹرول لیا تھا۔ پورے کمرے میں پٹرول کی تیز بو پھیل گئی۔ کمرے میں ہم تینوں بری طرح پریشان ہوگئے تھے۔” صائمہ نے بتایا
“میں نے اپنی طرف سے سمجھ داری سے کام لے کر اٹیچڈ واش روم سے پانی لے کر فوراً پٹرول کے اوپر پانی پھینک دیا۔ بعد میں، میں نے اس پانی ملے پٹرول پر ماچس کی تیلی جلا کر چیک کی تو وہ الحمدللہ نہ جلی۔” مناحل نے بعد میں بتایا تھا۔
“مسلسل شور شرابہ سن کر غفران نے بھی اپنے گھر سے آکر بیڈ روم کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کی۔”صائمہ نے بتایا۔
جب اسامہ نے پٹرول ( لیکن اس کے بعد کے بیان کے مطابق وہ پانی تھا ) کمرے کے دروازے کے نیچے سے اندر پھینکا تو تائی جان بھی آگئیں۔ انہوں نے بھی اسے الٹے سیدھے کاموں سے منع کیا اور بچیوں کو بیڈروم کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ لیکن نہ تو اسامہ باز آیا اور نہ ہی بچیوں نے ڈر سے بیڈروم کا دروازہ کھولا۔ کچھ دیر بعد تائی جان اور غفران اپنے گھر واپس چلے گئے۔ جاتے ہوئے تائی جان اسے مسلسل سمجھا رہی تھیں۔
لہٰذا کچھ دیر بعد اسامہ کا غیظ و غضب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا۔ ماما جان کی گھر واپسی کا وقت بھی قریب آ رہا تھا جو بتا کر گئی تھیں کہ”وہ بارہ سوا بارہ بجے تک واپس آجائیں گی۔” وہ لاؤنج میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔
لاؤنج میں جب کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی تو مناحل نے بیڈ روم کی ونڈو کھول کر لاؤنج میں دیکھا۔ جہاں اسامہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔
لہٰذا پھر تینوں نے بھی صورت حال کا اندازہ کرکے بیڈروم کا دروازہ کھول دیا۔ اسامہ اندر آگیا۔ اب وہ اپنی کرتوتوں پر کچھ ڈر بھی رہا تھا۔ بہنیں بھی پریشان تھیں۔ لہٰذا اس نے بغیر کچھ کہے سیز فائر کر دیا۔ اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ مناحل کو بھی ڈر لگ رہا تھا، لہذا وہ فورآ سونے کے لیے لیٹ گئی۔
اس کے چند منٹ بعد ان کی والدہ گھر واپس آگئیں۔ اور صورت حال دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھیں۔ خصوصاً اسامہ کے پٹرول پھینکنے، یو۔ پی۔ ایس سسٹم بند کرنے اور بائیک کا ہارن مسلسل بجانے کے نئے تخریبی کاموں نے انہیں کافی پریشان کر دیا تھا۔”اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہدایت دے۔”وہ غم و غصّے سے بے حال ان کے لیے صرف ہدایت کی دعا کرکے رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناحل اگرچہ بڑی بیٹی تھی لیکن کافی جذباتی اور بسا اوقات اپنی مرضی کرنے والی ہوتی تھی۔ وہ اپنی والدہ کے گھر آنے سے پہلے سو گئی تھی۔
ماما نے دو سوا بجے اسے بار بار کہہ کر اور پھر زبردستی اٹھایا۔ وہ اٹھ گئی تو اسے نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے کہا۔ پھر عصر اور مغرب کی نماز بھی ماما نے اسے سمجھا بجھا کر اور کہہ کہلا کر پڑھوائی۔
مغرب کی نماز سے پہلے مناحل تائی جان کے ساتھ والے گھر میں بلا اجازت چلی گئی۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد اسامہ گھر واپس آیا تو اسے کہہ کر مناحل کو گھر واپس بلوایا۔ تائی جان نے اس کے ہاتھ چکن بریانی بھجوائی تھی۔ اسے بریانی بہت پسند تھی، لہٰذا وہ خود ہی اکیلی کھاتی رہی۔ اس کی ماما نے اسے ڈانٹا کہ “بریانی سب کو شیئر کروائیں” لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ آگے سے بدتمیزی کرنے لگی۔
“اگر میں نے آپ کی ڈانٹ ڈپٹ اور باتیں خاموشی سے سن لی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مجھے اب سارا دن ہی ڈانٹتی رہیں۔ اسامہ کو تو آپ کچھ کہتی نہیں ہیں۔” وہ نہایت بدتمیزی سے بولنے لگی۔
مناحل کی زبان کافی بے لگام ہے اور وہ کبھی کبھار ماں سے بھی بدتمیزی کر جاتی ہے۔ اسی لیے اس کی والدہ اس سے زیادہ تر نرمی سے اور صرف ضرورت کی بات کرتی ہیں۔اسے جب موقع ملے، بلااجازت ساتھ والے گھر میں تائی جان کے پاس چلی جاتی ہے جن کی کوئی بیٹی نہیں۔ وہ بلا اجازت ادھر جانے پر ڈانٹ بھی کھاتی ہے لیکن باز نہیں آتی۔ اس کے ابو جان بلا اجازت اور بغیر کام کے دوسرے گھر میں ان کا جانا ناپسند کرتے ہیں۔
ہاں اپنے ابو جان سے وہ بہت محبت کرتی ہے اور ان کی خدمت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ابو جان بھی اس سے شفقت اور محبت سے پیش آتے ہیں۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ “ان تلد الامۃ ربتھا”ترجمہ: جیسے لونڈی نے اپنی مالکہ کو جنم دیا ہو۔یعنی بیٹیاں اپنے ماؤں سے اس طرح پیش آئیں گی جیسے وہ اپنی ماؤں کی مالکن ہوں۔نعوذباللہ من ذلک۔
اگرچہ مناحل کا معاملہ بہت بہتر ہے لیکن قدرت کی طرف سے ماؤں سے بدتمیزی “مکافات عمل” کا ایسا سلسلہ ہے جس کی سزا کبھی نہ کبھی مل کر رہتی ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ اور صائمہ دونوں کی نماز مغرب کے بعد تایا جان کے گھر میں دوبارہ لڑائی ہوئی اور دوبارہ وہاں یہ سارا کچھ دہرایا گیا۔ صائمہ نے اسامہ کو کسی کام سے برے طریقے سے روکا تو وہیں پر ان کی لڑائی شروع ہوگئی جو باتوں سے شروع ہو کر فوراً ہی مار کٹائی میں بدل گئی۔
حسب سابق صائمہ باتیں کرکے اور زبان چلا کر، مارکر اورپھر مار کھا کر، بری طرح روتے ہوئے گھر آگئی۔ اسامہ نے ہاتھ چلانے کے ساتھ ساتھ پوری طرح زبان بھی چلائی تھی۔ “ماما جان! اسامہ بھائی سمجھتے ہیں ہے کہ انہیں مارنے والا کون ہو سکتا ہے؟ انہوں نے سب کو قابو رکھنا اور ان پر غالب رہنا ہے۔ یہ شاید انہوں نے اپنی ڈیوٹی سمجھی ہوئی ہے۔” صائمہ نے روتے ہوئے ماں سے کہا۔
“اس غرور اور بد دماغی نے اسامہ کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ اس کے تکبر اور بد دماغی کو کنٹرول کرنے کی کافی ضرورت ہے۔” مناحل نے بھی حصہ لیا۔
اور حقیقت میں معاملہ کچھ حد تک ایسا ہے لیکن بہنیں مبالغہ آرائی زیادہ کرتی ہیں۔ بعد میں اسامہ ماں اور بہنوں سے معافی بلکہ معافیاں مانگ لیتا ہے، سوری کرکے انہیں منا لیتا ہے لیکن دوبارہ حسب موقع وہی غلطیاں اور بدتمیزیاں دہراتا ہے۔
چھوٹا بھائی ثمامہ ان لڑائیوں میں “ریلو کٹا ” ثابت ہوتا ہے. وہ کبھی بہنوں کا ساتھ دیتا ہے اور کبھی بھائی کا۔ نہایت ذہین اور خوش مزاج ہے۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب اسے پیار کرتے ہیں لیکن وہ کسی حد تک لالچی اور ندیدہ بھی ہے۔ کبھی کبھی بہنوں کے کام صرف پیسوں کے لالچ کی وجہ سے کرتا ہے۔ لیکن اسامہ بھائی سے اس کی اچھی بنتی ہے بلکہ ان کے تو وہ اشاروں پر چلتا ہے۔والدین اس کی تربیت کی بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن بہن بھائیوں کی عادات و اثرات، اس کے مزاج میں بھی نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناحل اور صائمہ دونوں بہنیں اسامہ کے معاملے میں والدین کی نرمی و شفقت اور سمجھانے کو ناکافی سمجھتی ہیں۔”ہماری لڑائیوں کے معاملے میں ماما اور ابو جان دونوں اسامہ کو زیادہ سختی سے کنٹرول نہیں کرتے۔ بس پیار سے سمجھاتے رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وارننگ دے دیتے ہیں۔ ابو جان کے ہاتھوں اس کی پٹائی تو بہت ہی کم بلکہ کبھی کبھار ہوتی ہے۔”مناحل نے صائمہ سے شکایتا کہا۔
“بالکل۔ پھر وہ ہر دفعہ نئی لڑائی میں ہمیں بہت تنگ کرتا اور مارتا ہے۔ ماما یا ابو جان کے صحیح کنٹرول سے اس کی بدتمیزیاں شاید کنٹرول ہو جائیں۔ ” صائمہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
لیکن وہ دونوں اپنی عدم برداشت، پورا پورا مقابلہ کرنا اور بدلہ لینے کا معاملہ بھول جاتی ہیں۔”لیکن ایک بات ہے۔ ماما یا ابو جان ہماری پٹائی بھی تو نہیں کرتے۔ ہمیں بھی تو وہ سمجھاتے ہیں۔”مناحل نے یاد کیا۔
اور بچوں کی ان باتوں اور لڑائیوں سے تو ان کے والدین بھی حیران بلکہ پریشان رہتے ہیں۔”ہم نے بچوں کی پرورش اتنی تمیز، تہذیب اور پیار و محبت سے کی ہے۔ پھر بھی بچے آپس میں وقتاً فوقتاً اور بدتمیزی سے لڑتے رہتے ہیں۔ ہم تو بچوں کو مخاطب بھی تم کے بجائے “آپ” کہہ کر کرتے ہیں۔”ان کی والدہ ان کے والد سے نہایت پریشانی سے کہہ رہی تھیں۔
“آپ صبر اور برداشت سے کام لیا کریں۔ آپ میں ان خصوصیات کی کمی ہے۔ عدم برداشت سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ اور ہمیشہ انتقامی کارروائیوں کے لیے تیار نہ ہو جایا کریں۔” ماں باپ اسامہ کے ساتھ مغز ماری کرنے کے علاوہ دونوں بیٹیوں کو بھی بار بار سمجھاتے ہیں۔
عموماً یہ جنگیں تب ہوتی ہیں جب ماما جان کبھی گھر میں موجود نہ ہوں یا کام کاج میں بہت زیادہ مصروف ہوں اور بچوں کی طرف ان کی توجہ کم ہو۔اگر ابو جان گھر میں موجود ہوں تو بچوں کی لڑائی اتنا آگے بڑھنے کی نوبت ہی نہیں آتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بچوں کو ماما جان جان سمجھاتی اور لڑائی جھگڑے سے منع کرتی ہیں تو وہ آگے سے طرح طرح کے سوالات کی بوچھاڑ کر دیتےہیں۔”کیا سب گھروں میں بچے لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں؟”مناحل سوال اٹھاتی ہے۔”کیا کوئی گھر ایسا ہے جس میں بہن بھائیوں کی لڑائی نہ ہوتی ہو؟”اسامہ معصوم سا بن کر پوچھنے لگتا ہے۔”ہمارا لڑائی جھگڑا ہونا کون سی نئی یا انوکھی بات ہے؟ سارے بچے بچپن میں لڑتے جھگڑتے ہی ہیں۔” صائمہ بھی میدان میں آجاتی ہے۔”ماما جان! جب آپ لوگ چھوٹے ہوتے تھے تو آپ بہن بھائی آپس میں کس طرح لڑتے تھے؟” ثمامہ ان کے بچپن کی صورتحال جاننے کے لیے متجسس ہوتا ہے۔واہ بھئی واہ! چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ!
“آپ ہی بتاتی تھیں کہ ماہرین نفسیات کے مُطابق چھوٹے بہن بھائیوں کا کبھی کبھار آپس میں لڑنا جھگڑنا اُن کی دماغی نشوونما پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔”اسامہ اپنی مرضی کا ایک پوائنٹ اٹھاتا ہے۔
“مگر میں نے یہ بھی تو سمجھایا تھا کہ اس لڑائی جھگڑے کے ساتھ ان کو یہ بھی سیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آپس کے معاملات اگر بگڑ جائیں تو اُنہیں کیسے ٹھیک کرنا چاہیے اور سمجھوتہ (compromise) کیسے کرنا چاہیے؟” ماما جان غصے سے جواب دیتی ہیں۔
“ایسے معاملات کو حتی الامکان ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کے بعد اعتدال اور میانہ روی سامنے رکھتے ہوئے ، غیر جانبداری سے حل کرنا چاہیے۔ اور ایسی صورت حال سے نپٹنا چاہیے۔” ماما جان کے کانوں میں ابو جان کی باتیں گونجتی ہیں۔
“کبھی بچوں کی لڑائیوں سے صرف نظر کرکے ، کبھی صرف زبانی افہام و تفہیم سے، تو کبھی حسبِ ضرورت شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے تھوڑا سا سخت رویّہ اپنانے ، ڈانٹ ڈپٹ کرنے، غلطی کا احساس دلانے اور بعض اوقات سزا دینے سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔” ماما جان کو اپنی والدہ کی باتیں یاد آتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہاگر پڑھے لکھے دین دار والدین کی اچھی تربیت کے باوجود ماحول کے اثرات کے مطابق بچے ایسے لڑتے جھگڑتے اور گالم گلوچ کرتے ہوں تو پھر ان مسائل کا کیا حل ہے؟
بچے تو کہتے ہیں کہ “ماما جان! آپ کیوں پریشان ہوجاتی ہیں؟کیوں ٹینشن لیتی ہیں؟” صائمہ ماما جان سے کہتی ہے۔
“بچے تو فتنہ اور آزمائش ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ آزمائشیں تو آتی رہتی ہیں۔” اسامہ بولتا ہے تو کوئی نیا نکتہ ہی نکالتا ہے۔
“سارے بہن بھائی ہی آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ تو پھر ہمارا لڑائی جھگڑا ہونا کون سی نئی یا انوکھی بات ہے؟”مناحل بھی گل فشانی کرتی ہے۔
“پھر ہم آپس میں صلح بھی تو کر لیتے ہیں نا۔”ثمامہ صاحب بھی کچھ نہ کچھ بولنا فرض سمجھتے ہیں۔
“بس آپ ابو جان کو نہ بتایا کریں۔” یہ بیان لڑائی کے ذمہ دار یا آغاز کرنے والے بچے کی طرف سے داغا جاتا ہے۔ اور اس کی تاکید کی جاتی رہتی ہے۔
“میں کئی دفعہ آپ کو وقت اور مارجن دیتی ہوں تاکہ آپ لوگ اپنے جھگڑے آپس میں خود ہی حل کرنے کی کوشش کریں۔ اور مجھے بات آپ کے ابو جان تک نہ پہنچانی پڑے۔”ماما جان ان کی لڑائیوں کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
“کئی دفعہ میں بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے آپ بہنوں اور بھائیوں دونوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے صلح صفائی اور مصالحت (Reconciliation) کی کوشش کرتی ہوں۔”ان کی والدہ ایک اور طریقہ آزماتی ہیں جو زیادہ تر کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن یہ افلاطون بچے کبھی کبھی اسے ناکام بھی بنا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“والدین کے فرائض صرف یہ نہیں ہوتے کہ وہ اولاد کی پرورش کریں اور انہیں کھانا کھلا دیں، بلکہ ان کی ذہنی و جسمانی تربیت کرنا، انہیں صحیح و غلط اور نیکی و برائی کی تمیز کروانا ، آپس میں اچھے طریقے سے رہنا سکھانا بھی ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔” ماما جان ابتدا سے یہ بات بخوبی سمجھتی تھیں۔
“امی جان! بچے بہت تنگ کرتے ہیں، آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ میں ان کا کیا حل کروں؟”ماما جان بچوں کے بچپن میں اپنی والدہ سے پوچھتی تھیں۔
“بیٹی! آپ ان کی چھوٹی موٹی لڑائیوں اور باتوں کی ٹینشن نہ لیا کریں۔ بچوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا تو ان کی روٹین ہوتی ہے۔ ان کا مشغلہ اور کھیل ہے۔ آپ خوامخواہ پریشان نہ ہوا کریں۔ بچے لڑائی کے بعد دوبارہ جلدی صلح صفائی کر لیتے ہیں اور پھر ایک ہوجاتے ہیں۔” والدہ ماما جان کو سمجھاتی تھیں۔
“لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ بہن بھائیوں میں ہونے والی یہ لڑائیاں بچوں کی آئندہ زندگی میں بھی اپنے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ لہذا ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف ہونا ضروری ہیں۔”ماما جان کی والدہ نے انہیں یہ بھی سمجھایا تھا۔
“عموماً مائیں بچوں کے لڑائی جھگڑوں میں ریفری (refree) کا کردار ادا کرتی ہیں اور دونوں طرف کے بچوں کو ان سے کچھ نہ کچھ شکایت رہتی ہے۔ لیکن بچوں سے جذباتی وابستگی رکھنے والے باپ کا مثبت رویہ اور صلح صفائی کی کوشش بچوں میں تعاون کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اسے فروغ دیتا ہے۔” ماما جان کے کانوں میں اپنی والدہ کی نصیحتیں گونجتی ہیں۔”بس بچوں کی اچھی تربیت اور ہدایت کے لیے اللہ تعالی سے کثرت سے دعائیں مانگتی رہیں اور اس میں کوئی کمی نہ کریں۔”ماما جان کو اپنی والدہ کی یہ بات سدا یاد رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمارے سمجھانے کا آپ بچے وقتی طور پر اثر لیتے ہیں اور گھر میں کچھ عرصہ سکون سے گزر جاتا ہے لیکن کچھ دن بعد آپ لوگ دوبارہ پورے زور و شور سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔”ماما جان تنگ آکر بچوں کہتی ہیں۔
“کئی دفعہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں بچوں کی لڑائی میں کیا کروں، اس جنگ عظیم کو کس طرح ختم کروں؟”ماما جان ابو جان سے شئیر کرتی ہیں۔
“اللہ تعالی سے بہت زیادہ دعا کیا کریں اور بچوں کے بڑے ہوجانے کے باوجود باقاعدگی سے انہیں قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں کا دم کیا کریں۔”ابو جان رہنمائی کرتے ہیں۔ “میں خود بھی بچوں کے لیے کثرت سے دعائیں کرتا ہوں۔”وہ بتاتے ہیں۔
بعض اوقات ماما جان اتنا زچ ہوتی ہیں کہ رونے لگ جاتی ہیں، اور وضو کرکے جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنا یا دعا مانگنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر اس مسئلے کے حل کے لیے فریاد کناں ہو جاتی ہیں۔
تب ان کے بچوں کو صورت حال کی سنگینی کا صحیح طرح احساس ہوتا ہے اور وہ پھر “سوری، سوری” کرتے ہوئے ماں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مناحل یا صائمہ جلدی سے چائے بنا کر ، پیناڈول اور پانی کے ہمراہ لے آتی ہیں، اسامہ ان کا سر اور ماتھا دبانا شروع کر دیتا ہے۔ دوسرے بچے گھر کے چھوٹے بڑے کام بغیر کہے نبٹانے لگتے ہیں۔اور پھر وہ سب آپس میں مل جل کر اور پیار و محبت سے رہنے کی باتیں کرتے اور عہد کرتے ہیں۔
ان کی والدہ اللہ تعالیٰ سے بچوں کی صلح و صفائی اور اتفاق و محبت کے لیے دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ دو دعائیں بھی کثرت سے مانگتی ہیں۔1. “ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین”(سورۃ الفرقان:74)ترجمہ: “اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں/ شوہروں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔”
2. اللھم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا۔ (الحدیث)ترجمہ: “اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے اور ہمارے درمیان معاملات کی اصلاح فرما دے۔” آمین یارب العالمین