عبیداللہ عابد………
فرانس کے شہری بعض حکومتی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ابھی تک واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں. گزشتہ ہفتے فرانس کے دارالحکومت پیرس سمیت دیگر شہروں میں ’پیلی ویسٹ‘ پہنے مظاہرین کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد فرانسیسی صدر میخواں کو جی 20 سربراہی اجلاس چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔ لیکن اتنے بڑے احتجاج کی وجہ کیا بنی؟
ڈیزل فرانسیسی گاڑیوں میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور گذشتہ 12 ماہ میں ڈیزل کی قیمت تقریباً 23 فیصد بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2000 سے اب تک ایک لیٹر کی قیمت میں اوسطً 1.51 یورو کا اضافہ ہوا ہے جو ڈیزل کی اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
دارالحکومت میں ہونے والی جھڑپوں میں 100 سے زیادہ افراد صرف پیرس میں زخمی ہوچکے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کے 23 ارکان بھی شامل تھے اور تقریباً 400 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق دو ہفتے سے جاری ان مظاہروں میں تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
فرانس کے وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً 136000 لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین نے بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان بہنچایا اور پیرس کے مشہور ’آرک ڈی ٹریومف‘ میں نصب مجسموں کو بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔
فرانس میں حالات اس قدر خراب ہوگئے تھے جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شریک صدر ایمینوئل میخواں کو واپس آنا پڑا، انھوں نے آتے ہی ڈیزل کی قیمت میں اضافہ واپس لے لیا لیکن اس کے باوجود مظاہرین سڑکیں خالی کرنے کو تیار نہیں ہیں. تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسئلہ ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ہی نہیں ہے. فرانسیسی برسوں سے اپنے گرتے ہوئے معیار زندگی، کم ہوتی ہوئی اوسط آمدن ، بڑھتی ہوئی مہنگائی پر اضطراب کا اظہار کررہے تھے، لیکن ایندھن کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر ان کی قوت برداشت جواب دے گئی.
ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ گہری ہوچکی ہے. ملک کی 20 فیصد اوپر والی آبادی 20 فیصد نیچے والی آبادی سے پانچ گنا زیادہ کما رہی ہے. فرانس ایک فیصد (امیرترین) آبادی ملک کی مجموعی 20 فیصد دولت کی مالک بن چکی ہے. ملک میں آدھے سے زیادہ ملازمت پیشہ افراد کی کمائی ملک کی اوسط آمدنی 1700 یورو سے کم ہے. دوسری طرف ملک کی مجموعی معیشت کی بڑھوتری کی شرح محض 1.8 فیصد ہے، بےروزگاری کی شرح نوفیصد سے بڑھ چکی ہے، امیرطبقے پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے کم کردئیے گئے ہیں.
ایک جائزے کے مطابق ایک لاکھ 36 ہزار مظاہرین ملک کی تین چوتھائی آبادی کے نمائندہ ہیں، لوگ حکومت سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کے کرایے کیسے ادا کریں؟ گھر والوں کے کھانے پینے کا کہاں سے بندوبست کریں؟