عظمیٰ خان
پہلا منظر:
“بابا آج چودہ اگست ہے۔ ہم مینار پاکستان جائیں گے۔”
بابا: “نہیں بیٹا آج بہت رش ہوتا ہے کسی اور دن جائیں گے۔”
“نہیں بابا آج ہی۔ پلیز۔ “
بابا: “اچھا چلو ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے چلیں گے لیکن زیادہ رش میں نہہں جانا آپ لوگوں نے۔ دور سے ہی مینار دیکھ لینا۔”
پورا خاندان خوشی خوشی مینار پاکستان پہنچتا ہے۔ پارک میں دونوں بہنیں اپنے خاندان کے ساتھ خوش خوش گھومنے کے بعد ایک جگہ بیٹھی ہیں۔ تب ہی آوارہ لڑکوں کاایک گروہ منڈلاتا ہوا آتا ہے اور ایک بہن کو چھوتا ہوا نکل جاتا ہے۔ لڑکی خوف سے سن ہو جاتی ہے اس کے ساتھ بیٹھی بہن چیختی ہے اور باپ لڑکے کے پیچھے بھاگتا ہے لیکن لڑکا فرار باپ مٹھیاں بھینچتا واپس آتا ہے اور بچی کو تسلی بھرے انداز میں سر تھپتھپاتا گھر لے جاتا ہے۔
دوسرا منظر:
“آپی آج چچا کے گھر چلتے ہیں چودہ اگست کی چھٹی کا دن بھی ہے۔ “
آپی: “چلو ٹھیک ہے چلتے ہیں۔”
دونوں بہن تیار ہوتی ہیں اپنی چھوٹی بھتیجی کو لیتی ہیں اور چنگ چی رکشہ لے کر چچا کے گھر چل پڑتی ہیں۔
ٹریفک شدید جام ہے۔ چنگ چی رکشہ رکا انتظار کررہا ہے آس پاس گاڑیوں اور خاص طور پر موٹر بائیکس کا رش ہے۔ہارن کا شور ہے۔ دونوں بہنیں اسی شور میں بات چیت میں مگن ہیں کہ کہیں سے ایک لڑکا چھلانگ مارتا رکشہ میں داخل ہوتا ہے۔ لڑکی کے گال کو چومتا ہے ہے اور بھاگ جاتا ہے۔ دونوں لڑکیاں حق دق ہیں۔ دوسری لڑکی ہمت کرتی ہے اور چپل اٹھاتی ہے لیکن لڑکا غائب۔ آس پاس کے لوگوں کی ہوٹنگ۔ لڑکی آس پاس نظر دوڑاتی ہے بے بسی سے ہوٹنگ کرنے والے بے غیرتوں پر چپل مارنا چاہتی ہے لیکن سنگل کھل جاتا ہے شاید اور رواں ٹریفک میں وہ مٹھیاں بھینچتی رہ جاتی ہے
تیسرا منظر:
ہیلو فینز۔ ہائو آر یو۔ اچھا ہم نے سوچا آپ لوگوں سے ایک ملاقات کی جائے تو۔ کیا خیال ہے اس جشن آزادی کے موقع پر آپ کو بھی موقع دیا جاتا ہے ، آئیے ! اور مینار پاکستان پر میرے ساتھ ایک ایک سیلفی بنائیے ۔ تو پھر کون کون آرہا ہے اپنی پسندیدہ ٹک ٹاکر سے ملنے۔
بھئی جو ملنا آئے گا وہی ہوگا میرا اصلی فین تو آرہے ہیں ناں آپ لوگ۔
چودہ اگست کادن ۔ ٹک ٹاکر اسٹار مرد دوستوں کے ہمراہ کیمرہ مینز کے ساتھ اقبال پارک میں داخل ہوتی ہے۔ آس پاس ہجوم جو عام عوام کے ساتھ ٹک ٹاکر کے فینز اور آس پاس کے دوسرے ٹک ٹاکرز کا بھی ہے۔ اس ہجوم میں سے فینز آتے ہیں اور ٹک ٹاکر کے ساتھ سیلفیز بنواتے ہیں۔ کیمرہ مین یہ تمام مناظر کیمرہ میں محفوظ کررہا ہے۔ ایک کو دیکھ کر دوسرا اور دوسرے کو دیکھ کر تیسرا۔ رش بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کوئی ٹک ٹاکر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سیلفی لے رہا ہے کوئی کندھے سے کندھا ملا کر۔ کسی کا ہاتھ شانے پر ہے اور کوئی ہاتھ پکڑا ہوا ہے۔
ٹک ٹاکر اسٹار جو اب صحیح معنوں میں اسٹار بن رہی ہے۔ لوکیشن تبدیل کرکر کے تصویریں لے رہی ہے اب تھک چکی ہے۔ واپس جانا چاہتی ہے لیکن فینز کا رش ختم ہی نہیں ہورہا۔ چونکہ کوئی ٹوکن سسٹم بھی نہیں تو یہ اندازہ بھی نہیں ہو پا رہا کہ کون دوبارہ آرہا ہے اور کون سہ بارہ۔
جس نے شانے پر ہاتھ دھرا تھا اب وہ کمر میں ہاتھ ڈال کر تصویر لینا چاہ رہا ہے۔ جس نے کندھے سے کندھا ملایا تھا اب وہ گالوں سے گال ملا کر تصویر لینا چاہ رہا ہے لیکن ٹک ٹاکر اب تھک چکی ہے واپس جانا چاہتی ہے لیکن لوگ۔ اوہ سوری فینز ان کا تو دل ہی نہیں بھر رہا۔ وہ واپس نہیں جانے دینا چاہ رہے۔ آخر تنگ آکر وہ فینز کےہجوم سے ہی راستہ بنا کر نکلنا چاہتی ہے لیکن راستہ نہیں مل پارہا۔ ساتھ آئے دوست اسے گھیرے میں لیتے ہیں۔ جو زیادہ قریبی ہے وہ اس کے گرد زیادہ تنگ گھیرا بناتا ہے اور نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
لوگوں کو بھی اوہ معذرت فینز کو بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹک ٹاکر جارہی ہے اور بیشتر کی باری نہیں آسکی سیلفی کی . وہ شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ ہجوم اوہ نہیں فینز بے قابو ہورہے ہیں۔ ٹک ٹاکر پریشان ہوجاتی ہے۔ ایک عقلمند ٹیم ممبر پولیس کو کال کرتا ہے شائد ہجوم ارے ہجوم نہیں فینز کو پولیس آکر سنبھال لے۔ لیکن جواب ندارد۔
ایک بار پھر نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اندھیرا ہوچکا ہے اقبال پارک کی لائٹس روشن ہوچکی ہیں۔ فیملیز والے واپس گھروں کو لوٹ گئے ہیں لیکن منچلے فینز معذرت منچلا ہجوم اب بھی موجود ہے بلکہ مزید پرجوش ہوچکا ہے۔ ٹک ٹاکر کے دوست اسے ہاتھوں پر اٹھا کر ہجوم سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن رش اور وزن سے مجبور ہو کر نیچے گرادیتے ہیں۔ شیفون کی قمیض یا لان کی قمیض کندھے سے پھٹ جاتی ہے۔ فینز سوری ہجوم اب بھی نکلنے نہیں دے رہا بلکہ مزید قریب ہورہا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ ٹک ٹاک اسٹار چلی گئی تو تصویر نہیں بن پائے گی۔ ان کے فلاں دوست کے ساتھ ٹک ٹاکر کی تصویر ہے سو اب انہیں بھی تصویر چاہیئے۔
چند سمجھدار لوگ فینز کو سوری ہجوم کو سمجھاتے بھی ہیں لیکن ہجوم معذرت فینز کو سمجھ نہیں آتی۔ آخر کار ڈولفن پولیس کا اہلکار فرشتہ کے روپ میں پہنچتا ہے۔ سیٹی بجاتا ہے اور ڈنڈا گھوماتا ہے۔ فینز نہیں نہیں ہجوم منتشر ہوجاتا ہے۔ رش، حبس، گھٹن اور تھکاوٹ سے نیم جان ٹک ٹاکر کو اس کے دوست اٹھاتے ہیں۔ اس کے پھٹے کپڑوں پر اپنی کوئی ٹی شرٹ ڈالتے ہیں اور گھر لے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈولفن اہلکار کے ایماء پر پولیس اسٹیشن پہنچتے ہیں اور ایف آئی آر کٹوانے سے انکار کردیتے ہیں۔
اب بھلا اپنے ہی فینز کے خلاف کون ایف آئی آر کٹواتا ہے۔ سو وہ گھر چلے جاتے ہیں۔
لیکن فینز تین دن بعد ہجوم میں بدل جاتے ہے اور فینز کا پیار ہراسانی کہلاتی ہے۔
سو صاحبو اس چودہ اگست پر بڑی زبردست تبدیلی آئی ہے۔ ہراسانی اورجنسی ہراسانی کی ایک نئی تعریف وجود میں آئی ہے۔ چودہ اگست تک جنسی ہراسانی اوپر کے دومناظر جیسی تھی لیکن چودہ اگست کے بعد مورخہ سترہ اگست کی درمیانی شب جو نئی تعریف وجود میں آئی ہے وہ ہے
“میرا جسم میری مرضی۔”
جب تک میری مرضی ہے چار دیواری ہو یا عوامی مقام مجھے چھونا جائز ہے۔ جس لمحہ میری مرضی ختم ہوئی اس لمحے ہی یہ مرضی ہراسانی میں تبدیل ہوگی۔ مرضی سے جبر تک کا سفر لمحوں میں طے ہوتا ہے۔ لیکن اس تاریخ سے پہلے ہم جبر پر آواز اٹھاتے رہے تھے اور مرضی پر لعن طعن۔ آج مرضی سے جبر تک راستہ جو طے ہوا ہے اس پر مرضی پر خاموشی اور جبر کو ظلم کہا جارہا ہے۔ جبکہ پہلے دومناظر جہاں حقیقتا ظلم ہوا ہے ان مناظر کو ہر شخص تیسرے منظر میں مرضی سے ہوئے جبر پر تاویل کی صورت پیش کررہا ہے کہ جی عورت کے ساتھ ہراسانی تو ہوتی ہی ہے اس معاشرے میں لیکن پہلے صرف ہراسانی ہی ہوتی تھی آج ہراسانی کی تعریف میں تھوڑی ترمیم ہوئی ہے۔
چند دنوں بعد شائد ایسے مرضی سے ہوئے جبری معاملات مزید سامنے آئیں۔ پھر آپ سب دوبارہ اکھٹے ہوکر یہی لاقانونیت کا راگ الاپیئے گا لیکن لاقانونیت کی شروعات کب اور کہاں سے ہوتی ہے اسے کون طے کرے گا۔ جرم اور مجرم کی تعریف بھی تبدیل ہوگی کون جسم تک مرضی سے پہنچا اور کتنا پہنچا کون جسم تک مرضی کے خلاف پہنچا۔ یہ سب طے کرنا ہوگا۔
مبارک ہو ایک نئے پیچیدہ سفر کا آغاز ہوا ہی جاتا ہے۔
مبارک ہو آج پورا پاکستان چند ایک اولڈ فیشنز، دقیانوسیوں کو چھوڑ کر سب کو ہراسانی اور جنسی ہراسانی کی یہ نئی تعریف “میرا جسم میری مرضی” چودہ اگست کی پرانی تاریخ کو مبارک ہو۔
ایک تبصرہ برائے “پرانی تاریخ لیکن نئی تعریف”
بہت ہی عمدہ لکھا ہے حساس دل رکھنے والے اسی طرح محسوس کرتے ہیں