رابعہ حسن
کسی بھی معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے کجیےکہ وہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی پہ یہ دلیل دے کہ مظلوم نے موقع ہی کیوں دیا ؟ اس سے بھول چوک ہی کیوں ہوئی؟ یعنی مظلوم کا کمزور ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے ۔ گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے واقعے کو ہمارے سوشل میڈیائی دانش ور اس لیے جسٹیفائی کر رہے ہیں کہ خاتون اکیلی تھی , الٹی سیدھی حرکتیں کر رہی تھی نیز ٹک ٹاک پہ وڈیوز بناتی تھی ۔ چلیں مان لیا وہ یہ سب کچھ غلط کرتی تھی مگر جو اس کے ساتھ ہوا کیا اس کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے؟
اگر ہاں تو ماشااللہ ہمارا ایمان حلال حرام کے بارے میں وہی ہے کہ ہمارے سامنے مردار رکھا ہی کیوں؟ رکھیں گے تو ہم نے نوچ کر کھانا تو تھا ؟ بھئی ہمارا پیٹ بھی ہے اور دانت بھی۔ اور رہی بات حیا کی ، بھئی جب ہم بیچ چوراہے میں عورت کو دیکھیں گے تو ہمارا حیا سے کیا واسطہ؟ حیا کا خیال تو اسے رکھنا چاہیے تھا ہم تو بد دیانت ، مردار خور اور موقع پرست ہیں بس ذرا سی چوک کی دیر ہے ، ہم کسی کے مال ، عزت اور جان پہ ہاتھ صاف کرتے دیر نہیں لگاتے۔
چلیں ٹک ٹاکر خاتون کے واقعے کو بھول جاتے ہیں اس چنگ چی رکشے والی وڈیو کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اچھا یہ دلیل بھی مان لیتے ہیں کہ وہ محرم کے بغیر باہر نکلی تھیں پر آپ ان واقعات کے بارے میں کیا کہیں گے جہاں شوہر یا بھائی کے سامنے ایسے واقعات ہوئے۔
اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ عورت گھر سے نکلی ہی کیوں تھی تو ان واقعات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن میں عورتیں گھروں میں درندگی کا نشانہ بنیں۔ چلیں ! یہ سب باتیں ایک طرف اور آپ کی سب سے بڑی دلیل ایک طرف کہ عورت آخر عورت ہے ہی کیوں؟ اس کا تو وجود ہی بے حیائی کا دوسرا نام ہے تو آپ ان ہزاروں دردناک واقعات کے بارے میں کیا کہیں گے جہاں ننھی منی کلیوں کو مسل دیا گیا۔
اگر یہاں پہ کوئی دین کی بات کرے تو دین میں حیا کا حکم صرف عورت کے لیے نہیں مرد کے لیے بھی ہے۔ حد کا نفاذ عورت پر ہی نہیں مرد پر بھی ہوتا ہے۔
سوچنے کی بات ہے ایک اسلامی ملک کا معاشرہ اس حد تک کیوں بگڑ گیا کہ سر عام کسی کی عزت پہ ہاتھ ڈالتے چوکتا تک نہیں؟
جواب نہایت آسان ہیں اکثریت مائوں نے بیٹے پیدا کر کے تربیت کے لیے دنیا کے حوالے کر دیے۔ کتنی مائیں ہیں جو روز گھر سے نکلتے بیٹے کو کہتی ہیں بیٹا باپ کی عزت کا خیال رکھنا ، حیا کا دامن نہ چھوڑنا ، جو آج بوو گے کل تمہاری بہن بیٹی کاٹے گی۔
بیٹیوں کے پلو میں نصیحتیں باندھ کر بھیجا جاتا ہے . بیٹوں کو تو حیا کامفہوم تک نہیں سمجھایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بے لگام گھوڑے باہر جا کر عورت کو کھلونا سمجھتے ہیں انہیں نہ تو عورت کی عمر سے غرض ہوتی ہے نہ اس کے لباس سے ۔ جب نگاہوں سے حیا کا پردہ اٹھ جائے تو کسی بھی قسم کا پردہ ان کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا ۔ یہ برائی وبائی مرض کی صورت اس لیے اختیار کر گئی ہے کہ ہم نے اسلامی جزا و سزا کا تصور ختم کر دیا ہے ۔ ہم باتوں ہی باتوں میں دوسروں کے کردار کی اور عزتوں کی دھیجیاں اڑا دیتے ہیں یہ جانے بنا کہ ہم پہ حد نافذ ہو رہی ہے۔
آج تک کتنے ایسے لوگوں کو پتھروں سے سنگسار کیا گیا ؟ کتنے ایسے لوگوں کو بیچ چوراہے کوڑے مارے گئے؟ اگر ایسا ایک دفعہ ہو جائے یقین کیجیے یہاں کوئی حوا کی بیٹی بے ردا نہ ہو۔
ہمیں اپنے رویوں کو بھی سدھانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی واقعے کو دلیل سے ثابت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آئندہ ایسے مزید واقعات کے لیے گراونڈ تیار کر رہے ہیں۔
اگر اب بھی مائوں اور اساتذہ نےبیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کو بھی حیا ، امانت اور حلال کا درس نہ دیا تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب اقبال کے شاہینوں کادیس مردہ خور کرگس کا جہاں بن جائے گا۔