ملا عبدالغنی برادر ، نائب امیر طالبان افغانستان

افغانستان میں کیا ہوا ؟ آگے کیا ہونے والا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ غازی

بات بڑی لمبی ہے ۔ صرف تمہید باندھتے زندگی گزر جائے ۔ مختصر یہ کہ آنے والے زمانوں کے مبہم نقوش دنیا کے کینوس پر ابھرتے صاف نظر آرہے ہیں ۔ وہی نقوش جو اقبال رح نے سو سال پہلے دیکھ لئے تھے

آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحَر بے حجاب

"پردہ اُٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب”

تو یہ جنگ تہذیبوں کا ٹکرائو تھی ۔ طاقت کے نشے میں بدمست اپنے عروج کے گھمنڈ میں مبتلا تہذیب ہزاروں میل دور دوسری تہذیب سے اس لئے ٹکرائی تھی کہ وہ مادی وسائل میں کم تر تہذیب طاقت ور تہذیب کے قانون کو سجدہ ریز ہونے سے انکاری تھی ، ان کی تہذیب کو برتر مان کر اپنانے سے انکاری تھی ، ان کی بادشاہی کی منکر تھی ، ویسے ہی جیسے طاقت ور بادشاہ کو بے نیاز فقیر اپنی طاقت کا منکر لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اس کی طاقت کو صرف وہی للکار سکتا ہے جو دنیا کی آسائشوں سے بے نیاز ہو ۔

یہ صرف ایک چھوٹے سے اس گروہ کی فتح مبین نہیں ہے جو اپنے مذہب اور تہذیب کے ساتھ سختی سے چپکا رہا ہو ۔ یہ تہذیبوں کی خاک پوشی اور تاج پوشی کا مرحلہ ہے ۔ طاقت ور ترین تہذیب اپنی تمام تر مادی برتری کے باوجود ایک ایسے گروہ سے شکست کھا گئی جنھیں یہ بدحال وحشیوں کا گروہ کہتے رہے ۔ ایک طاقت ور ترین تہذیب میلوں دور اپنے لشکری یوں لے کر اترتی گویا ابرہا ہاتھیوں کا لشکر لے کر آرہا ہو اور اعلان کیا کہ یہ تو مہینوں کا کھیل ہے ۔

شیشے کی بلند ترین عمارتیں بنانے والوں کو یاد بھول گیا تھا کہ زمین کے ساتھ جڑے رہنے والوں کا مقابلہ آسان نہیں کیونکہ وہ زندگی بلا واسطہ فطرت سے کشید کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں بجلی کی ترسیل وقتی طور پر رکنے سے زندگی سکتے میں نہیں چلی جاتی ۔ کیمبرج یونیورسٹی میں تہذیبوں کے زوال پر ریسرچ کرنے والے لیوک کیمبل نے حال ہی میں مغربی تہذیب کے زوال پذیر ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ نئی تہذیبیں اس سیڑھی پر چڑھنے کے مترادف ہیں جو سیڑھی کے جس پائے سے اوپر گزر جاتی ہیں اسے توڑ کر پھینک دیتی ہیں اور ان کے عروج پر ایک مقام ایسا آئے گا جہاں سے واپسی صرف اچانک موت کی صورت ممکن ہو گی جو جتنا ترقی یافتہ ہوتا چلا جائے گا ، اس کے بچ پانے کے امکانات اتنے کم ہوں گے ۔

مٹھی بھر خاک نشینوں کے سپر پاور اور اس کے ساتھیوں کو شکست دینے کے بعد یہ وہ موڑ ہے جہاں سے آگے منظر نامہ مختلف ہے ۔ مغربی مفکر سیموئل ہٹنگٹن نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد انسانوں کی کشمکش نظریاتی ، اقتصادی اور سیاسی ہونے کے بجائے تہذیبی تصادم پر ہو گی اور اسی مفکر نے دنیا کی چند زندہ تہذیبیں شمار کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو جغرافیائی بنیادوں پر تعبیر نہیں کیا ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف مشرق سے مغرب تک اخباروں سے لے کر ٹی وی سکرینز تک مغربی تہذیب کی چیخ و پکار سن رہی ہے گویا انہیں موت نظر آ گئی ہو ۔ دوسری طرف مشرق سے مغرب تک صبغت اللہ والوں کو ان مع العسر يسرا کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔ یہ سب کچھ نوح سے اب تک زمانے کی سنت میں درج نظر آتا ہے کہ نوح بھی جب اللہ کے حکم پر کشتی بنا رہے تھے تو بستی والے ان کا مذاق اڑاتے، ان کی کم مائیگی پر پھبتیاں کستے تھے ۔ یہ زمانہ ازل سے ابد تک ایک کہانی کا تسلسل ہی تو ہے ۔ سب کچھ کائنات کے خلیے کی دیواروں کے اندر مرکزے کے گرد گھوم رہا ہے ۔

بقول اقبال
زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم

ہر جان کی طرح ہر تہذیب ہر عروج ہر زوال کا ایک دور حیات مقرر ہے ۔ ٹائن بی جیسے العبقری نے اٹھائیس شاندار تہذیبوں پر تحقیق کے بعد کہا تھا کہ ” تہذیب قتل نہیں کی جاتی ، وہ خود کشی کرتی ہے ” ۔ اور مشرقی درویش نے مغربی تہذیب کی خود کشی کا اعلان ان الفاظ میں ایک صدی پہلے ہی کر دیا تھا کہ :

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

وقت آگے بڑھ جائے گا ۔ ہم جو تاریخ کا یہ اہم موڑ دیکھ رہے ہیں ، ہم اپنی قبروں میں پڑے پرانے ہو جائیں گے ۔ آج جو ان کے قانون کو وحشی اور ان کی تہذیب کو جہالت کہہ رہے ہیں، کل اسی کو اپنانے میں فخر اور طاقت محسوس کریں گے کیونکہ یہ فیصلہ تہذیب کے خلیوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ یہ دنیا مٹنے سے پہلے اجتماعی سجدہ کرے گی ۔

گزر گیا ہے وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون

جس طرح ہر انسان کے اندر اس کے خلیوں میں موت کا وقت مقرر کر کے بھیجا ہے ، ایسے ہی تہذیبیں اور سلطنتیں ہیں ۔ خلیوں اور سلطنتوں سے لے کر ستاروں اور کہکشائوں تک، سب کے لئے موت ہے ۔ باقی رہ جانا صرف اللہ کے لئے ہے ۔

بات اتنی لمبی ہے کہ تمہید باندھتے زندگی گزر جائے اس لئے اس کہانی کا اختصار میں نے اپنی نظم "والعصر” میں لکھنے کی کوشش تھی ۔۔۔ "يامقلب القلوب ثبت قلبي علي دينك”

“والعصر “
زمانے والو ۔۔
سنو زمانہ گواہ ہے کہ
یہاں کوئی بادشہ نہیں ہے
کہ جس کی شاہی ابد تلک ہو
سوائے اس کے جو نور و ظلمت کی
خود بچھا کر بساط اس پر
خود اپنے مہرو ں سے کھیلتا ہے
کوئی ہے ملکہ وزیر کوئی
کوئی پیادہ فقیر کوئی
اسی کے مہرے اسی کی چالوں پہ چل رہے ہیں
زمانے خود ایک دوسرے کو بدل رہے ہیں
سنو زمانہ گواہ ہے کہ
یہ زندگی زندگی نہیں ہے
دلوں کی دھڑکن ہماری مہلت کو گن رہی ہے
ہماری سانسوں میں زندگی اور موت اک ساتھ چل رہی ہے
زمانے والو ۰۰
سراب دنیا تو اپنے ہونے میں خود ہی غم ہے
حجاب ہستی کو چاک کرنے کا وقت کم ہے
چلو کہ سانسوں کہ یہ مشقت
یہ بھاگتی دھڑکنوں کی گنتی
یہ کاروبار جہان خوش رنگ
سب خسارہ ہے
سب ہماری نظر کا دھوکہ ہے
خواب ہے سب
سوائے اس کے جو اپنی مہلت کو اپنے مالک کے ہاتھ بیچے
خسارے والو ۰۰
چلو کہ رستے کھلیں ہیں اب تک فلاح کی منزلوں کی جانب
چلو کہ تاریکیوں میں کوئی چراغ لے کر بلا رہا ہے
دلوں پہ دستک سے اب بھی کوئی جگا رہا ہے
۰۰زمانے والو
وہ جس کا وعدہ تھا ، آرہا ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں