جویریہ خان
اس وقت پوری دنیا کی نظریں افغانستان بالخصوص دارالحکومت کابل پر جمی ہوئی ہیں۔ ان کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان کیسا ہے اور کیسا ہوگا؟
طالبان نے اتوار کے روز دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالا ، اس کے ایک روز بعد سفارتی عملے اور دیگر غیر ملکی لوگوں کو لے جانے والی فلائٹس دوبارہ بحال ہوچکی ہیں۔ ایک مغربی سفارت کار نے بتایا کہ ائیرپورٹ امریکی فوجیوں کے کنٹرول میں ہے ۔ یادرہے کہ گزشتہ روز ڈیڑھ سو سواریوں کی گنجائش والے ایک امریکی طیارے میں چھ سو چالیس مسافر سوار ہوئے، پرواز میں امریکی سفارت کار، عملہ اور افغان شہری سوار تھے۔
لوگ کابل سے نکل بھاگنے کے لئے اس قدر بے چین تھے کہ وہ جہاز کے اندر جگہ نہ پا سکے تو جہاز کے باہر بعض جگہوں پر بیٹھ گئے۔ ان میں سے سات افراد کی ہلاکت کی خبریں موصول ہوئیں جو اپنی جگہوں پر برقرار نہ رہ سکے اور فضا سے نیچے آن گرے۔ جہاز چھ سو چالیس مسافروں کو لے کر قطر کے دارالحکومت دوحہ اتر گیا۔
طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد افغانستان سے بالکل مختلف خبریں موصول ہو رہی ہیں جو طالبان کے بارے میں عمومی تاثر سے برعکس ہیں کہ وہ تشدد کریں گے، خواتین کو گھروں میں قید کریں گے اور صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان نے سرکاری آفیشلز اور عملے کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے، اور سب کو کام پر آنے کا کہا ہے .
افغانستان کے ایک بڑی ٹی وی آریانہ نیوز کے مطابق طالبان نے کابل میں تمام سرکاری ملازمین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے اپنے دفاتر میں جائیں اور حسب معمول کام کریں۔ طالبان نے شہریوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اب شہری زندگی میں مزید بہتری لائی جائے گی۔ طالبان نے خواتین سے بھی کہا ہے کہ وہ حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے ملازمتیں جاری رکھیں۔ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک طالبان رہنما کابل کی خواتین ڈاکٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ اطمینان کے ساتھ اپنی ڈیوٹیوں پر واپس آجائیں۔ وہ انھیں ہر ممکن عزت و احترام کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔
اسی طرح طالبان کی طرف سے افغانستان کے اہل تشیع کو جان و مال اور اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک طالبان رہنما کابل کی ایک امام بارگاہ میں گئے ، وہاں منعقدہ مجلس عزا سے خطاب بھی کیا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں , وہ داعش کے طرح اہل تشیع کی مخالف نہیں ہیں ۔ کہیں اہل تشیع کو تکلیف پہنچی تو امارت اسلامی ایکشن لے گی۔
کابل میں دو دن کے بعد معمولات زندگی مکمل طور پر نارمل ہوچکے ہیں۔ مارکیٹیں، بازار اور دکانیں سب کھل چکی ہیں۔ اسی طرح پورے کابل میں تعلیمی ادارے بھی کھل چکے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار جو اپنی مرضی سے چھٹی پر چلے گئے تھے ، اب واپس آگئے ہیں۔ آریانہ نیوز نے دکھایا کہ کابل کے شہری سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو ملک کا غدار قرار دے رہے ہیں ، جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فرار ہوگئے۔
سی این این سمیت تمام غیرملکی صحافی کابل میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض پوری آزادی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ طالبان کو ٹی وی چینلز پر خواتین اینکرز کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں۔ آریانہ نیوز اور طلوع نیوز سمیت تمام ٹیلی ویژن چینلز پر خواتین اینکرز پروگرامات کر رہی ہیں۔ بعض پروگراموں میں خواتین اینکرز کے روبرو طالبان رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔