ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]
پچھلے کچھ دنوں میں پے در پے خواتین پر ہونے والے مظالم سوشل میڈیا پر بحث کا عنوان بنے ہوئے ہیں. خواتین پر مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے، نئی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا بآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے ان مظالم سے آگاہی بڑھ گئی ہے، ورنہ عورت کا جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور مالی استحصال ہر دور میں ہوتا آیا ہے.
سوشل میڈیا پر جن خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تذکرہ جاری ہے، وہ معاشرے کے مختلف طبقات ، حالات اور پسِ منظر سے تعلق رکھتی ہیں، ان میں واحد مشترک چیز وہ ” ظلم” ہے جو ان کے ساتھ ہوا ، یعنی خواتین کا استحصال کرنے میں معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ایک دوسرے سے کم نہیں ہے. خواتین کے معاملے میں جو رویہ ایک نیم خواندہ شخص کا ہے، وہی رویہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد کا بھی ہے. خواتین کو کمزور مخلوق سمجھ کر مرد نامی برتر مخلوق نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنی مایوسی ، ناکامی ، غصہ ان پر نکالنا فرض سمجھا ہوا ہے،
جس طرح تشدد کرنے والوں میں ان پڑھ، اعلیٰ تعلیم یافتہ بظاہر مہذب نظر آنے والے ہر طرح کے مرد شامل ہیں، اسی طرح ظلم کا شکار ہونے والوں میں بھی ہر درجہ اور ہر طبقہ کی عورت شامل ہے. معاشرہ چونکہ مرد کو برتر مخلوق مانتا ہے، اس کی پیدائش کی خواہش کرتا اور خوشیاں مناتا ہے، اسے ہر معاملے میں عورت پر فوقیت دیتا ہے، اس لیے وہ عورت کو اپنی راحت ، دلبستگی ، غم و غصہ حتیٰ کہ وحشت و بربریت کا نشانہ بنانے پر بھی خود کو حق بجانب سمجھتا ہے، عورت تو پیدا ہی اس کی خدمت و راحت کو ہوئی ہے، اب چاہے مرد کو اس کی بوٹیاں کرنے میں راحت ہو، اسے بخوشی ذبح ہو جانا چاہیے کہ اس کے وجود کے دنیا میں آنے کا حق ادا ہو گیا.
خدا معلوم مرد کے برتر اور فائق ہونے والی سوچ آئی کہاں سے ہے؟ پیدا کرنے والے نے تو مخلوق میں بطور انسان کوئی فرق نہیں رکھا. مرد اور عورت کی جسمانی ساخت، صلاحیتوں، ذمہ داریوں اور دائرہ کار کے فرق کو ان کے درجات کی کمی بیشی کی وجہ نہیں بنایا، بلکہ کائنات کا نظام بطریق احسن چلانے کو یہ فرق روا رکھا. عمل میں، جزا و سزا میں دونوں کو برابر قرار دیا.
وہ عورت جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے دنیا کی بہترین متاع قرار دیا، اسے نام نہاد آزادی کے سبز باغ دکھا کر کھلونا بنایا جا رہا ہے. وہ عورت جسے گھر کی سلطنت کی ملکہ قرار دے کر بیرونی مشقت سے مستثنٰی کیا گیا، ظالم معاشرہ چادر اور چاردیواری کے اس تحفظ کو قید قرار دے کر نادان عورت کو سربازار لے آیا کہ بآسانی دستیاب چیز کے ساتھ ہی من مرضی کا سلوک کیا جا سکتا ہے.
دل لبھانے والی بہت سی مصنوعات میں عورت نامی نوع کا بھی اضافہ کر لیا گیا. زمانہ جاہلیت میں بھی عورت زندہ درگور ہوتی تھی، اب بھی ویسی ہی زندہ لاشیں تیار کی جا رہی ہیں. زمانہ جاہلیت میں فحش شاعری، لغو گفتگو کے ذریعے عورت کا وقار پامال کیا جاتا تھا، اب سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع ان مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں. زمانہ جاہلیت میں بھی عورت ناز و ادا اور عشوہ طرازیوں پر مجبور تھی اور دور جدید میں بھی الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیائی سیلاب عورت کی ہی حیا، عفت اور پاک دامنی کو بہائے لے جا رہا ہے.
عورت کے حوالے سے صدیوں پرانی سوچ نہیں بدل رہی، اسے برابر کا انسان سمجھنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا زمانہ جاہلیت میں تھا. جب تک آپ اپنی انفرادی اور اجتماعی سوچ نہیں بدلتے، بیٹی اور بیٹے میں فرق کرنا نہیں چھوڑتے، بیٹوں کی پیدائش کی دعائیں کرنا اور بیٹیوں کی خوشخبری سن کر خاموش ہو جانا جیسے رویے ترک نہیں کرتے، اپنے بیٹوں کی ایک ذمہ دار، مہربان مخلوق کے طور پر تربیت نہیں کرتے، ان کی گُھٹی میں عورت کی عزت کرنا اور بطور انسان اپنے برابر سمجھنا جیسے نظریات کی آبیاری نہیں کرتے، انہیں آبگینوں کی نزاکت سے آگاہ کر کے انہیں سنبھال رکھنے کے گُر نہیں سکھاتے، انہیں سورہ النساء کی تفہیم نہیں کراتے، آپ کے معاشرے میں جاہلیت کا دور دورہ رہے گا.
ہمارے مذہب نے بہترین انسان ہی اس کو قرار دیا جو اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہے، عورت پر کسی بھی قسم کے تشدد کو اس کے وقار کے منافی قرار دیا، یہ تمام تعلیمات بیٹوں کو ابتدائی عمر سے ہی گھول کے پلا دیں کہ عورت کو زیب و زینت چھپانے کا حکم ہے تو مرد کو بھی نظر نیچی رکھنے کی تاکید ہے. مذہب نے کسی بھی مذہبی و معاشرتی حوالے سے مرد و عورت میں احکام کا فرق نہیں رکھا، اس لیے برتری اور قوامیت کے اس بخار کو اپنے دماغ پر مت چڑھائیں کہ آپ انسانیت کے درجے سے بھی نیچے جا گریں.
بیٹیوں کو بھی آگاہ کریں کہ گھر کی چاردیواری ان کا تحفظ ہے اور خونی رشتے ڈھال ہیں ، کسی رشتے کے بغیر کسی بھی شخص پر خواہ وہ کتنا ہی اچھا، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب ہی کیوں نہ ہو، بھروسہ نہ کریں. عافیت قانون قدرت میں ہی پوشیدہ ہے، بھلائی حدود و قیود کا خیال رکھنے میں ہی مضمر ہے، بنانے والا نہ اپنی تخلیق میں نقص چھوڑتا ہے، نہ اس کی تباہی کا خواہاں ہوتا ہے، اس لیے بہترین نتائج کے لیے اس کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کریں .
وہ معاشرے جن کی پیروی میں ہمیں مذہبی و معاشرتی حدود، پابندیاں، بیڑیاں اور دقیانوسیت لگتی ہیں، ان معاشروں میں رشتوں کا، جذبات کا، عورت کا جس طرح اور جس انداز سے استحصال کیا جا رہا ہے، ذہنی طور پر پھر اس سب کے لیے بھی تیار رہیں.
انسانوں کے معاشروں میں اگر جنگل کا قانون نافذ کرنے کی خواہش اور کوشش کریں گے تو حیوانیت کے اعلیٰ ترین مظاہرے ہی دیکھنے کا ملیں گے. جہاں بیٹوں کو عورت کی عزت، وقار و ناموس کی تعلیم و تربیت دینا لازم ہے، وہیں بیٹیوں کے ذہن میں بھی کمتر مخلوق ہونے کے احساس سے چھٹکارا بھی ضروری ہے، بیٹیوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ بلا جھجک پر بات آپ سے کر سکیں، انہیں بیرونی سہاروں کا محتاج نہ ہونے دیں، انہیں اتنا اعتماد اور عزتِ نفس سکھائیں کہ وہ کسی رشتے کے ہاتھوں اپنی ذات کا تشخص مجروح نہ ہونے دیں، کسی ایسے تکلیف دہ اور اذیت ناک تعلق کے ہاتھوں ان کی جان جانے سے قبل، انہیں خود کو بچا لینے کا اعتماد دیں. کسی بھی رشتے کو اللہ نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ دوسرے کو اذیتیں پہنچا پہنچا کر ختم کر دے.
بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کو ابتدائی عمر سے ہی مذہبی و معاشرتی تعلیمات اور حدود و قیود ، جائز و ناجائز ، حلال و حرام سے روشناس کرائیں، آپ کا بطور والدین اولین فریضہ ہی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت ہے، اپنا یہ فرض پہچانیں ، معاشرے کو مثبت اور نفع بخش انسان دیں ، اولاد کی خامیوں ، کمزوریوں کی پردہ پوشی کی بجائے ہر ممکن طریقے سے ان کی اصلاح پر توجہ دیں ، انہیں مرد و عورت کی تخصیص کے بغیر بہترین انسان بنانے پر توانائیاں صرف کریں تا کہ نہ تو آپ کے بیٹے انسانیت کے درجے سے گری ہوئی حرکتیں کریں اور نہ آپ کی بیٹیاں ، عورت ہونے کے جرم میں سسک سسک کر جان سے گزر جائیں.
3 پر “عورت کے لیے پھر وہی زمانہ جاہلیت !” جوابات
بہت اعلی۔
عورت آج بھی زمانہ جاہلیت کے جیسے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی ہے۔کچھ تو اپنی کم عقلی اور عیاشوں کے نام پر اور کچھ معاشرے کے رسم ورواج کی بناء پر۔
تربیت کا فقدان اور بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا سیلاب ہمیں انسانیت سے گراتا جا رہا ہے۔
اللہ پاک عقل وشعور اور صیح راستے پر چلنے کی توفیق دے۔
بہت خوب۔۔۔ اللہ کرے کہ لوگوں کو بھی سمجھ آ جائے اب یہ بات۔۔
Very informative and convincing