ام محمد عبداللہ
اسمبلی ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ پرنسپل صاحب سکول کا راٶنڈ لے رہےتھے۔ کچھ بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سامنے دیوار پر آویزاں قائدین پاکستان کی تصاویر دیکھ کر ہنسے تھے پھر قومی ترانہ کچھ عجیب انداز میں پڑھتے انہوں نے ٹافیوں اور چپس کے خالی ریپر بھی لاپرواہی سے نیچے گرا دئیے ۔
”ارے نہیں۔“ پرنسپل صاحب کے منہ سے بےاختیار یہ الفاظ نکلے جب ان بچوں نے بلاوجہ سامنے سے آنے والے بچے کو دھکا دے کر گرا دیا تھا۔
پرنسپل صاحب نے معمول کی پڑھائی معطل کر کے سکول آڈیٹوریم میں سب طلبا کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ سارا سکول آڈیٹوریم میں جمع ہو چکا تھا۔ پرنسپل صاحب کی سنجیدگی کی وجہ سے سب کے دل ان جانے خوف سے دھڑک رہے تھے۔
”عزیز طلبا!!“
پرنسپل صاحب سٹیج پر موجود ڈائس پر آن کھڑے ہوئے تھے۔
”آج میں آپ کو ایک کہانی سنانے والا ہوں
اور
ایک کوئز بھی اس کہانی میں پوشیدہ ہے۔ اس سرگرمی کی کڑی شرط نظم و ضبط ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزا بھی“ پرنسپل صاحب کے خشک لہجے نے ہال میں سکوت طاری کر دیا تھا۔
”ہزاروں سال پہلے ایک خوبصورت باغ تھا۔ جس کے موسم معتدل اور ہواٶں میں خوشبوئیں بسی تھیں۔ جہاں پرندوں اور جھرنوں کی گنگناہٹیں وہ جلترنگ بکھیرتی کہ فضائیں سکون سے بھر جاتیں۔ طیب اور پاکیزہ رزق اس فراوانی سے دستیاب تھا کہ مشقت کی کوئی کہانی وجود میں نہ آئی تھی۔“
پرنسپل صاحب کی آواز میں کچھ ایسا اثر تھا کہ طلبا اس باغ کی خوبصورتی کو محسوس کرنے لگے تھے۔
”مگر پھر اچانک اس باغ کے باسی اپنے دشمنوں کی سازش کا شکار ہو کر اس باغ کو کھو بیٹھے۔“
”اوہ نو!“ کچھ طلبا کے منہ سے بےاختیار نکلا تھا۔
”اب انہیں گزارا کرنا تھا۔ ایک ایسی جگہ پر جو ان کے باغ کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں تھی۔ وہ یہاں زندگی گزار سکتے تھے مگر اتنی پرسکون آرام دہ اور خوبصورت نہیں جیسے کہ ان کے اپنے باغ میں تھی۔“
” پھر زندگی گزرتی رہی کچھ لوگ اس نئی جگہ کو اس باغ جیسا بنانے کی کوششوں میں لگ گئے اور کچھ اپنے دشمن کی مزید سازشوں کا شکار ہو کر اس جگہ کو بھی برباد کرنے پر تل گئے مگر کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے آبائی وطن لوٹ جانا چاہتے تھے۔“
بچے دم سادھے پرنسپل صاحب کی طرف متوجہ تھے۔
” ایسے میں ان لوگوں میں ایک دردمند دل رکھنے والے بندہ صادق کو اس باغ تک جانے والا نقشہ اور نقشے کو سمجھانے والی ایک کتاب لوگوں تک پہچانے کی ذمہ داری دے دی گئی ۔ یہ ایک بہت بھاری ذمہ داری تھی۔ جیسے اٹھانے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ایسے میں اس بندہ صادق نے تنہا ہی اس ذمہ داری کو نبھانے کا عزم کیا۔
ایک جانب تو کچھ جہلا نے اس کتاب اور نقشہ کو سمجھنے سے انکار کر دیا اور دوسری طرف دشمنوں نے باغ کو لوٹ جانے کی خواہش رکھنے والوں سے نقشہ اور کتاب چھیننے اور اسے سمجھنے اور سمجھانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کر دیں۔“
”یوں ایک شدید کشمکش کا آغاز ہو گیا۔
حسین باغ کے وارث اس کتاب کو پڑھتےسمجھتے اس پر عمل کرتے اور نقشے کی مدد سے اپنے دلکش و حسین باغ کو لوٹ جاتے مگر اپنے باغ کو جانے سے پہلے حفاظت سے کتاب اور نقشہ اپنے بچوں کے حوالے کر جاتے کیونکہ وہ سب اب اکھٹے وہاں نہیں جا سکتے تھے۔“ ان کی یہ کوششیں دشمنوں کو ایک آنکھ نہ بھاتیں۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس حسین باغ کو لوٹ جانے کی تڑپ رکھنے والے چاروں جانب سے عیار مکار اور گھٹیا دشمنوں کے نرغے میں گھر گئے ۔ ان کے سامنے فقط دو راہیں رہ گئیں
پرنسپل صاحب نے لمحہ بھر رک کر طلبا پر نظر دوڑائی جو دم سادھے بیٹھے تھے۔
1..اس گزارے لائق جگہ کو اپنا گھر تسلیم کر لیں اور جیسے اپنا باغ کھو چکے ہیں۔ اپنا نقشہ اور کتاب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں۔
2.. اپنے دشمنوں سے مردانہ وار لڑیں۔ اپنے لیے ایک محفوظ مقام حاصل کریں۔ اپنی کتاب اپنا نقشہ سمجھیں اسے حفاظت سے اپنے بچوں کے حوالے کریں اور اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔
عزیز طلبا ! آپ کے خیال میں کون سی راہ کا انتخاب درست تھا؟ پرنسپل صاحب کہانی روک کر بچوں سے مخاطب ہوٸے۔
دوسرا اور صرف اور صرف دوسرا راستہ۔۔۔ سب طلبا متفق تھے۔
دوسری راہ بہت کھٹن تھی مگر بزرگوں نے اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اسی راہ کا انتخاب کیا۔
وہ اس کتاب اور نقشے کو سینے سے لگائے دشمن سے لڑتے رہے۔ ان کی مال و دولت گئی ۔ عزت و ناموس لٹی۔ زندگی کی بازی بھی ہاری گئی مگر۔۔۔
مگر دشمن ہرا لیے گئے ۔
نقشہ و کتاب سینے سے چمٹائے وہ اپنے بچوں کو محفوظ گھر دلانے میں کامیاب ہوگئے ۔“
طلبا نے سکون کی گہری سانس لی ۔۔۔۔
مگر
اب بچے بڑے ہو رہے تھے۔۔ زندگی کی دلچسپیاں بڑھ رہی تھیں۔ محفوظ گھر میں وہ نقشہ و کتاب الماری میں رکھ کر جیسے اسے بھول کر کھیل کود میں مشغول ہو گئے۔ ان کے دشمنوں کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوتی بھلا وہ کھڑکیوں اور روشن دانوں سے نقب لگانے لگے۔“
بتائیے ! اب کیا ہو گا؟ پرنسپل صاحب نے پوچھا تو ایک ذہین طالب علم گویا ہوا
” سر انہیں کھیل کود چھوڑ کر اس کتاب اور نقشے کی مدد سے اپنے آبائی وطن لوٹنا ہو گا
ورنہ
وہ اور ان کا محفوظ گھر دونوں ہی دشمنوں کے ہاتھوں برباد ہو جائیں گے“ سب طلبا اس نتیجے سے متفق تھے۔
اب پرنسپل صاحب کوئز شروع کر چکے تھے۔
وہ باغ کیا ہے اور کس کا آبائی وطن ہے؟
وہ جنت ہے وہ ہمارا وطن ہے۔
بندہ صادق ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ ہیں۔ نقشہ سیرت رسولﷺ ہے اور
کتاب قرآن مجید ہے۔
محفوظ گھر ہمارا پیارا پاکستان ہے اور اسے بنانے اور بچانے والے ہمارے بزرگ ہمارے قائدین ہیں“
عزیز طلبا ! ذرا سوچ کر بتائیے آپ کو کیا کرنا ہے؟
ہم مسلمان اور پاکستانی بچے ہیں۔
ہمیں ہمارے رسول ﷺ پر، اپنی کتاب قرآن پاک پر اور اپنے وطن پاکستان پر فخر ہے۔
ہم اس ملک کے خلاف بولنے والے ہمارے دشمن ہیں۔
ہمیں اپنے قاٸداعظم، علامہ اقبال اور تمام رہنمائے اور شہدائے پاکستان اور کی قربانیوں کا احساس ہے۔ ہم ان کی عظمت کو سلام کرتےہیں۔
ہم ان شا اللہ اپنے مسلمان بھائیوں پر مہربان ہیں۔ ہمیں محنت اور علم حاصل کر کے اس وطن کو اسلام کا مضبوط ترین قلعہ بنانا ہے
تاکہ
ہم اللہ تعالی کے فضل سے اپنے آبائی وطن اپنے آبائی باغ جنت کو لوٹ سکیں۔۔۔
پرنسپل صاحب کی چند منٹوں کی کہانی سب طلبا کو اپنے مقصد حیات سے آگاہ کر چکی تھی۔