کیٹی ہوپ
بی بی سی نیوز ………
آج کی اس جدید دنیا میں دکانوں سے چیزیں خرید کر لوٹانے کے عادی افراد کی تعداد میں بظاہر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو پہلے سے ہی پریشان حال دکانداروں پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے۔ آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اور دکانداروں کو ان سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
لندن کی ایک شہری ہیرییٹ گورڈن کہتی ہیں کہ وہ جب آن لائن کپڑے خریدتی ہیں تو ان کپڑوں میں سے تقریباً آدھے کپڑے ہی رکھتی ہیں۔ وہ ہر ماہ تقریباً 400 پاؤنڈ خرچ کرتی ہیں لیکن اس کے بعد 200 پاؤنڈ مالیت کی اشیا واپس کر دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کو کپڑے یا تو صحیح طرح فٹ نہیں آتے یا اکثر رنگ یا کپڑے کا معیار مایوس کن ہوتا ہے کیونکہ وہ آن لائن تصاویر کے ساتھ بہت کم مشابہت رکھتے ہیں۔
’آپ ماڈلز پر کپڑے دیکھتے ہیں اور ان پر وہ بہت اچھے لگ رہے ہوتے ہیں،‘ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ ان پر کپڑے ویسے نہیں لگتے جیسے ماڈلز پر لگتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جن دکانوں سے وہ خریداری کرتی ہیں وہ دکانیں ان کی خریدی ہوئی چیزیں واپس کرنے پر اعتراض نہیں کرتیں اور یہ چیزیں واپس کرنے کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے۔ دکانوں سے کھچا کھچ بھرے لندن کے علاقے کووینٹ گارڈن میں کام کرنے کے باوجود، 28 سالہ ہیرییٹ کا کہنا ہے کہ دکانوں میں خریداری کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہونے کے برعکس آن لائن خریداری کرنا آسان ہے۔
ہیسٹر گرینگر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایک شادی کے لیے 41 سالہ ہیسٹر نے آن لائن سٹور ’ایسوس‘ سے سات جوڑے خریدے۔ انھوں نے ایک جوڑا لینا تھا مگر وہ ان میں سے سب سے بہتر جوڑا خریدنا چاہتی تھیں۔
جب انھیں نئی جینز خریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی تب بھی انھوں نے پانچ جینز یہ سوچ کر خریدیں کہ وہ ایک اپنے پاس رکھیں گی اور باقی واپس کر دیں گی۔
ہیسٹر کا اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر وہ ہر ماہ 300 سے 400 پاؤنڈ کے درمیان کپڑوں پر خرچ کرتی ہیں لیکن وہ اتنے کپڑے واپس کرتی ہیں کہ ان کا اصل خرچہ صرف 70 سے 80 پاؤنڈ کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ میرا بہت بڑا مسئلہ ہے، میں ایک ماہ کے دوران مختلف دکانوں سے چیزیں خریدنے میں کئی سو پاؤنڈ لگا دیتی ہوں لیکن تقریباً 80 فیصد چیزیں واپس کر دیتی ہوں۔‘
خواتین کے ایک آن لائن نیٹ ورک مومالا کلب کی بانی، ہیسٹر کہتی ہیں کہ وہ وہ پست قامت ہونے کی وجہ سے اس طرح خریداری کرتی ہیں۔ پانچ فٹ قد ہونے کی وجہ سے ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کپڑے ان کو پورے آئیں گے بھی یا نہیں، اس لیے وہ بیشتر کپڑے تین سائزوں میں منگواتی ہیں۔
ہیرییٹ اور ہیسٹر جیسے خریدار کم نہیں ہیں اور وہ دکانوں کے لیے بڑھتا ہوا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔
چیزیں بیچنے کے لیے دکانوں کی جانب سے دی گئی چھوٹ خریداروں کے لیے اشیا واپس کرنا آسان بنا دیتی ہے۔ عموماً اشیا واپس کرنے پر کوئی فیس نہیں لی جاتی اور کبھی تو ’خریدنے سے پہلے پہن کر دیکھیے‘ جیسی سکیموں کی وجہ سے لوگ صرف تب پیسے دیتے ہیں جب واقعی چیز خریدنا چاہ رہے ہوں۔
آخرکار اس نظام کو استعمال کر کے ناجائز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ اضافی اشیا اس لیے منگواتے ہیں تاکہ مفت ڈلیوری سروس کے لیے درکار مجموعی قیمت تک پہنچ سکیں حالانکہ وہ تمام اشیا کو خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور بعد میں اشیا واپس بھیج دیتے ہیں۔
اشیا واپس کرنے کے عادی!
لیکن کچھ دکانیں اب اس عادت کے خلاف مہم جوئی کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایمیزون نے زیادہ چیزیں واپس کرنے والے خریداروں پر پابندی لگا دی تھی۔ کمپنی کے ایک ترجمان نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا، ’ہم چاہتے ہیں کہ سب ایمیزون کا استعمال کریں لیکن بعض اوقات کوئی ایک صارف کئی عرصے تک ہماری سروس کا استحصال کرتا رہتا ہے۔‘
عموماً ایمیزون جو بھی کرتا ہے باقی دکانیں اس کی پیروی کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔
لیکن ریبائونڈ ریٹرنز (ریٹرنز مینیجمنٹ سافٹ ویئر) کی ڈائریکٹر برائے ڈیٹا اینوویشن وکی بروک کا کہنا ہے کہ یہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ چیزیں واپس کرنے کے عادی افراد برے گاہک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خریداروں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی زیادہ چیزیں واپس کرتا ہے لیکن یہی گروپ ایک دکان کے سب سے بہترین اور بدترین گاہکوں کا تعین کرتا ہے۔
برطانیہ میں تقریباً نصف کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز ٹرانزیکشنز بارکلے کارڈز کرتے ہیں۔ ان کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ پچھلے دو برسوں میں ایک چوتھائی دکانوں نے اشیا کی واپسی میں اضافہ دیکھا۔
ادھر آن لائن کپڑوں اور جوتوں کی دکانوں سے خریدی گئی تقریباً نصف چیزیں لوٹا دی جاتی ہیں۔
ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی اس رجحان کو فروغ دینے میں مدد کررہا ہے جس میں 10 فیصد خریداروں نے اعتراف کیا ہے وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر ڈالنے کیلیے نئے کپڑوں میں تصویر کھینچ کر فوری طور پر انھیں واپس بھیج دیتے ہیں۔
مفت کے مزے!
ایج ہِل یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیوف بیٹی کہتے ہیں کہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چیزیں واپس کرنے کی شرح اس سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ ان کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ایک شخص کچھ خریدتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ یہ اثر چیز کو گھر لے کر جانے اور دوسروں کو دکھانے تک رہتا ہے۔ اس اثر کے ختم ہوتے ہی پیسے لگانے کا پچھتاوہ ہونے لگتا ہے یا احساس ہوتا ہے کہ یہ کپڑے زیرِ استعمال نہیں آئیں گے۔ لہٰذا خریدی گئی چیز لوٹا دی جاتی ہے۔
’اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ اس سلسلے کا سب سے کم دلچسپ مرحلہ ہے۔ اگر آپ چیزیں واپس کرنے کے عادی ہیں تو آپ کو یہ ساری خوشی مفت میں ملتی ہے۔‘
پروفیسر بیٹی کا کہنا ہے کہ آن لائن شاپنگ میں اضافے نے چیزیں واپس کرنے کے رجحان کو بڑھاوا دیا ہے اور خریداروں کو چیزیں لوٹاتے وقت وضاحت کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں ہوتی۔
صارفین کو ہنگامی طور پر چیزیں خریدنے پر مجبور کرنے والی رعایتیں جیسے کہ بلیک فرائی ڈے اور سائبر منڈے خریداروں میں پچھتاوے کا اور بھی زیادہ سبب بنتے ہیں۔
واپس کی گئی چیزوں کی پروسیسنگ اور ہینڈلنگ دکانوں کے منافع کم کرتی ہیں۔ معاملہ صرف اشیا پہنچانے کے اخراجات کے ضیاع کا نہیں بلکہ نہ صرف صفائی میں پیسے لگتے ہیں بلکہ وقت بھی درکار ہوتا ہے۔
جو چیز آپ کو چاہیے اگر وہ سٹاک میں موجود نہیں ہے تو ممکن ہے کہ وہ واپسی کے کسی مرحلے میں پھنسی ہوئی ہو۔ اس مسئلے سے بچنے کے لیے کچھ دکانیں ضرورت سے زیادہ سٹاک منگواتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔
کپڑوں کی دکانوں کے لیے ایک اور مسئلہ تیزی سے بدلتا فیشن ہے۔ جب تک ایک آئٹم واپس آتا ہے تو اسے سیل پر لگانا پڑتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دکان اسے اصلی قیمت پر فروخت نہیں کر سکتی۔
بارکلے کارڈ کے مطابق ایک تہائی دکانیں واپس کی گئی اشیا سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اپنی دیگر اشیا کی قیمت میں اضافہ کر دیتی ہیں۔
وکی کہتی ہیں کہ ’بار بار اشیا واپس کرنے والے خریداروں پر پابندی لگانا انفرادی گاہک کی زندگی بھر کی خریداری کو نظر انداز کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ دکانوں کو خریداروں کے اشیا واپس کرنے کے رویے کی کچھ سمجھ نہیں ہے۔‘
ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ جب گاہک زیادہ خریداری کرتے ہیں تو ہر آرڈر پر اشیا واپس کرنے کی شرح میں کمی آ جاتی ہے کیونکہ وہ درست آرڈر کرنا سیکھ جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن کپڑوں کی بہتر تصاویر اور زیادہ درست اور متواتر سائز فراہم کرنے سے چیزوں کی واپسی کی شرح کو کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بعض کمپنیاں جیسے کہ ایسوس اور یونیکلو گاہکوں کی ماضی کی خریداری کی بنیاد پر سائز کی تجاویز پیش کرنے لگی ہیں۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ انفرادی مارکیٹنگ کی جائے۔ لہٰذا اگر ایک گاہک بار بار پتلون خریدتا ہے لیکن جوتے ہمیشہ واپس کر دیتا ہے تو پتلون کے اشتہارات مخصوص ان تک بھیجے جائیں۔
وکی بروک کہتی ہیں کہ اشیا کی واپسی اب خریداری کے تجربے کا ایک بڑا حصہ ہے اور دکانوں کو اس کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہیسٹر کا کہنا ہے کہ وہ رویہ تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں دکانداروں کے لیے بہت افسوس نہیں کروں گی۔ وہ اس مسئلے کا حصہ ہیں کیونکہ وہ مفت یا سستی ڈلیوری کی پیشکش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے سائزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘