نور مقدم

نور مقدم کا قتل ، والدین کی شکست

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرۃ العین

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل کی اندوہناک واردات کی بازگشت اب بھی پورے زوروشور سے سنائی دے رہی ہے ۔ فریقین واقعہ کا تعلق چونکہ اشرافیہ سے ہے اس لئے میڈیا کی بھی بھرپور توجہ کا مرکز بنا رہا ۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ، ایلیٹ سوسائٹی کے طرز زندگی کے بہت سے اسرار بھی زبان زدعام رہے ۔ کسی نے ہمدردی کی تو کسی نے لعن طعن ، غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ وجہ جو بھی رہی ہو ملزم بہرکیف کڑی سے کڑی سزا کا حق دار ہے۔

فی الحال ملزم کے والدین بھی زیر حراست ہیں ان کی دوران حراست ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں والدہ تو مکمل اپنے دوپٹے کی اوٹ میں پناہ لئے ہوئے تھی جبکہ والد کی آنکھوں میں پشیمانی اور کرب کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔ اس تصویر کو دیکھ کر دل دہل گیا کہ والدین کے لئے اس سے بڑی ناکامی کیا ہو سکتی ہے کہ عزت کے ساتھ ساتھ ان کا سب سے قیمتی سرمایہ اولاد داؤ پہ لگ جائے ۔

اولاد کی تربیت والدین کے لئے سب سے بڑا امتحان ہے ، اس کو اپنے لئے صدقہ جاریہ بنانا ہے یا ننگ عار یہ ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے مگر افسوس دولت کے حصول کی تگ ودو میں اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں جو کوتاہی اس دور کے والدین سے ہوئی ہے اس کا ثمر ہمیں آئے دن شہ سرخیوں میں آنے والے ایسے کربناک واقعات سے بخوبی ہو رہا ہے۔

اولاد کا بے راہ ہو جانا والدین کی سب سے بڑی شکست ہے پھر بھلے ہی آپ نے ان کے لئے میراث میں محل ہی چھوڑے ہوں۔ اس تصویر کو دیکھ کر خیال آرہا تھا کہ دنیا کی رسوائی سے بچنے کے لئے تو پھر کوئی راہ نکل سکتی ہے اور دنیا کی سزا سے اپنی اولاد کو بچانے کےلئے بھی اپنا زور بازو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ جیساکہ اس وقوعہ میں کیا جا رہا ہے لیکن اللہ کی عدالت میں کیا ہوگا جب بیٹا باپ کا مدعی بنے گا نہ باپ بیٹے کا۔ اصل ہار جیت جزا سزا کا فیصلہ تو اس دن ہو گا۔ اس کا کس نے سوچا ہے ،اس قید جہنم سے بچنے اور اپنوں کو بچانے کے لئے کتنی جستجو کی ہے؟

میرے رب کا حکم ہے۔
قوا انفسکم واھلیکم نارا . التحريم
بچاؤ خود کو اور اپنے اھل کو جہنم کی آگ سے۔۔

کتنا بڑا کام تھا یہ جس سے آنکھیں پھیر لیں اور اس کا خمیازہ اسی دنیا میں بھی بھگت رہے ہیں اور آخرت تو یقینی ہے۔ یہ ایک واقعہ بظاہر پڑھے لکھے اور مہذب طبقے کے اخلاقی زوال کی ہلکی سی جھلک ہے۔

اشرافیہ کے طبقے میں منشیات کے استعمال پر سے بھی پردہ اٹھ رہا ہے ، درحقیقت اس ایک واقعے کے پیچھے بہت سارے عنصر کارفرما ہیں جن کی نشاندہی کے ساتھ ان کا سدباب ضروری ہے ۔ اہل دانش ایسے واقعات پر محض تبصرہ کرنے کی بجائے سبق حاصل کرتے ہیں۔

لبرلز آنکھیں کھول کہ دیکھیں کہ بقاء اور تحفظ نسواں کا ضامن یہ مادر پدر آزاد نظام نہیں ہے بلکہ خالق کا دیا ہوا پاکیزہ نظام ہے جسے اسلام کہتے ہیں جو سلامتی کا ضامن اور حیات جاودانی بخشنے والا ہے، جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو مہذب ترین نفوس بنا دیاتھا۔ کیا ہمارے لئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ اسلام کو طرز زندگی کے طور پر اپنا لیں

یا اس بات کے منتظر ہیں کہ بے راہروی کا یہ طوفان ہر گھر کے نور کو سیاہ اندھیرے میں بدل دے؟


صرف ملک کا مقتدر طبقہ ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ ان گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے۔
آئے دن ایسے واقعات میں اضافہ کس چیز کی نشان دہی کر رہا ہے ؟
یہی کہ ہماری موجودہ نسل اندھیر نگری کی راہی بن چکی ہے۔ اپنے ملک کے اندر اس اخلاقی زوال کے آگے بند باندھنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر شخص اپنے تئیں اپنے گھر اور معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ۔ سب سے پہلے گھر سے اپنی اولاد کی تربیت سے آغاز کرے۔ اپنے بچوں کو اسلام کے روشن اصولوں سے روشناس کرانا والدین کا اور خصوصاً ایک ماں کا اولین فریضہ ہے۔ سعی مقدور کے بعد اگر کوئی مثل نوح علیہ السلام آزمایا جائے تو الگ بات ہے لیکن خود احتسابی ضروری ہے ۔

ایسے واقعات والدین کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں خاص کر یہ ایک ماں کی ناکامی ہے ، اس نے معاش کی ذمہ داری اٹھا کر مرد کا بوجھ تو بانٹ دیا مگر قدرت اور معاشرے نے اسے جو ذمہ سونپا تھا اس کی ادائیگی میں اس سے بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔
(اللہ ہماری اولادوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں