نگہت حسین
چند مہینوں پہلے بچی کو ایک تقریر لکھنے کا مرحلہ درپیش تھا ۔بضد تھی کہ آپ لکھ کر دیں لیکن اماں بھی کہاں اتنی اچھی ملیں کہ ایسا کرتیں۔ لہذا بچی نے کافی ہنگامہ کیا ۔ بیٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہی طے ہوا کہ پہلے آپ کچھ نکات سوچیں اور مجھے بتائیں پھر مل کر اس کو ایک مربوط انداز میں تقریر کی شکل دے دیں گے۔
لیکن سوچنے کے کام پر پھر بیٹی صاحبہ کا شکوہ شروع کہ آپ میرا کوئی ہوم ورک نہیں کرتی ہیں ۔سارے بچے اپنی امیوں ، باجیوں وغیرہ وغیرہ سے کام کرواکر آتے ہیں ایک آپ ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ پہلے خود کوشش کرو ۔میری سہیلیوں کی باجیاں ان کا پروجیکٹ بناتی ہیں ۔یہ وہ …..۔ خیر کافی دیر تک رونا دھونا چلتا رہا۔
ہمارے لئے یہ بڑوں کا مکمل ہوم ورک کر کے دینا کافی حیرت کا باعث ہوتا ہے کیوں کہ ہم نے ہمیشہ سے یہی طریقہ رکھا ہے کہ رہنمائی ہوگی ممکن حد تک مدد بھی کی جائے گی لیکن کام خود کرنا ہے ، کوشش خود کرنی ہے ، سوچنا خود ہے۔ اس طریقہ کار سے بچے خود اپنے کام کو کرنے کا شوق اور لگن رکھتے ہیں۔
رہنمائی دے کر خود بچے کو کام کرنے کا موقع دینے سے بچے کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے ، اپنا دماغ استعمال ہوتا ہے ۔ کوئی غلطی بھی ہوتی ہے تو فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
ہم خود بھی بحثیت استاد بچوں کی کوشش کو زیادہ لائق تحسین سمجھتے تھے کہ اگر بچے نے خود سے ٹیڑھی میڑھی لکیر بھی لگائی ہے تو وہی زیادہ خوب صورت ہے نہ کہ ایک سیدھی خط مستقیم جس میں بچے کا کوئی حصہ نہیں ۔ لیکن امیوں ، باجیوں کو رنگ بھرنے ، مارکر سے خطاطی کرنے اور طرح طرح سے بچے کی مدد کرنے کا اتنا جذبہ ہوتا ہے کہ یہ منظر تک دیکھنے کو ملتا ہے کہ بچہ فارغ کارٹون دیکھ رہا ، امی اس کا ہوم ورک کررہی ہیں۔
بچے کہتے ہیں کہ امی آپ میرا فلاں فلاں ہوم ورک کردیں ، میں تھک گیا ہوں ۔ اب بچہ کسی گیم یا اسکرین کے سامنے لطف اندوز ہورہا ہے امی باجی اہم کام چھوڑ کر بچے کے لکھنے پڑھنے کے کام کو خود کررہی ہیں۔
ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ امیوں اور باجیوں نے اگر رنگ بھر کر ، خاکہ بنا کر ، پوری تحریر لکھ کر سب کچھ بہت خوب صورت بنا کر پیش کر دیا تو بچے نے کیا کیا ؟ اور اس سے کیا سیکھا ؟صرف تعریف کے ڈونگرے ملنے سے جھوٹی کامیابی کی خوشی کیسی؟دماغ کس کا استعمال ہوا ؟ محنت کس نے کی ؟
جم کر بیٹھنے اور علمی دماغ سوزی کی عادت کس کی پختہ ہونی تھی ؟رہنمائی کرنا ایک علیحدہ بات ہے لیکن پورا پورا کام کر کے دینا بالکل الگ بات ہے۔
اکثر ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بچے کی کوشش اور سیکھنے کے عمل میں بڑوں کی یہ خواہش حائل ہوجاتی ہے کہ میرے بچے کا کام سب سے خوب صورت ہو ، سب سے اچھا ہو یا ایسا معیاری ہو کہ کسی کا نہ ہو۔ رنگ باہر نہ نکلے ، لکیر ٹیڑھی نہ ہو ۔والدین کو یہ سوچنا چاہیئے کہ بچے کا کام خطا سے پاک ہوناضروری ہے کہ بچے کی کوشش ، لگن ، دلچسپی ، سیکھنے کا عنصر نظر آنا چاہیے ؟
کل بھی اسکول میں ایک پوسٹر دیکھنے کو ملا جس کی لکھائی ترتیب ، ڈرائنگ ہر چیز کسی بڑے نے کی تھی اور انتہائی خوب صورت کام تھا ۔لیکن سوم جماعت کے کسی بچے کا کام ہرگز نہیں لگ رہا تھا نہ ہی بچے کی کوئی کوشش نظر آرہی تھی ایسے میں رفتہ رفتہ بچے خود سے محنت کرنا اور سیکھنے کی لگن بالکل کھو دیتے ہیں اور یہی تقاضہ کرتے ہیں کہ آپ کر دیں مجھ سے نہیں ہوتا ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیکھنے کے عمل کی لذت ختم ہوجاتی ہے اور سارے عمل کو سیکھنے اس سے لطف اٹھانے کے بجائے اس کے حاصل پر دماغ زیادہ فوکس ہوجاتا ہے ۔کام خوب صورت ہو چاہے کسی بھی طریقے سےنمبرز زیادہ ہوں چاہے نقل سے ہی کیوں نا حاصل ہوں ۔جھوٹی تعریفیں اور جھوٹی کامیابیوں کی عادت یہیں سے پڑتی ہیں۔
والدین کو یہ بات سمجھا سمجھا کر اساتذہ اپنے آپ کو بے چارے سے محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن والدین کی یہ خواہش کہ ہر دفعہ میرے بچے کا کام سب سے خوب صورت ہو کسی طرح کم نہیں ہوتی ہے ،سو اس کو بہترین بنانے کے لیے بعض امیاں بے چاری دوبارہ سے بچوں کی کلاسوں میں ایڈمیشن لے لیتی ہیں اور سارا ہوم ورک خود کر کے دیتی ہیں ۔یاد رکھیں مل کر کوئی کام کرنا اور خود سارا کام کر کے دینے میں کافی فرق ہے۔
بچے کی صلاحیت کے لیے اس کو سیکھنے کا موقع دینا زیادہ اہم ہے۔
تو پیاری امیوں ، اور ذہین باجیوں نا کریں ایسا ۔کوئی علیحدہ ڈرائنگ بک لے لیں رنگ بھرنے کو اپنے شوق پورے کرلیں لیکن بچے کے سیکھنے سکھانے کے عمل کے پر مرحلے کو بچے کو خود گزرنے دیجئے ۔