تیمیہ صبیحہ
ایک سال تو لرزاں ترساں گزرا ۔ وبا کا وہ خوف تھا کہ گویا بلائے بے اماں کی مانند منہ پھاڑے ہر گلی کوچہ میں رقص کرتی تھی اور ہر بندہ بشر سہما ہوا لاکڈ اِن تھا ۔ادھر جناب بل گیٹس ہوں یا ہمارے دیسی این سی او سی، سبھی کا تکیہ اس ویکسین پر تھا جو تجربہ گاہوں میں بنی نوع حیوانات پر آزمائی جا رہی تھی۔
ویکسین کی دریافت سے ماقبل، ناگہاں ہم مع اپنے حضرت گرفتار مرض ہوئے۔ تکلیف کی شدت میں بھی تسلی تھی کہ دکھ میں ساتھ نبھانے کے جو وعدے وغیرہ ہم اچھے دنوں میں نہ کر سکے تھے اب خدا نے تلافی کا موقع فراہم کیا ہے۔ نیز تیمارداری کا بوجھ جو بصورت دیگر ہماری اکیلی جان پر ہوتا اس سے بھی من جانب اللہ خلاصی ہوئی۔ دوست احباب کو جب دو ہفتے بعد ہمارے بچ نکلنے کی اطلاع پہنچی تو اینٹی باڈیز بننے کی رنگ برنگی مبارکبادیں لہروں کے دوش پر اڑتی ہوئی وصول پانے لگیں۔ ہم نے بھی شکر ادا کیا کہ جو پچھلے نو دس ماہ اندیشہ ہائے گرفتارئ وبا میں دبلے ہو رہے تھے اس سے نجات پائی۔
اس خوشی میں ایک عدد پوسٹ بھی داغ دی۔ مگر نہ صاحب! عالمی ساہوکاروں کو ہماری یہ شادمانی ایک آنکھ نہ بھائی۔ اول اول اوقیانوس کے پار سے اخبار اڑنے لگے کہ ویکسین چلی آتی ہے۔ پھر ہمالہ کے پار سے جہاز بھر بھر کے آنے لگے۔ ہر چند کہ ہم نے اپنی فکر میں گھلتے کارپردازان کو اطلاع دی کہ ہم رد کرونائی انٹی باڈیز میں خود کفیل ہیں اور لبرل سرمایہ داری یا اشتراکی ہر دو قسم کی امداد کے مستحق نہیں ہیں مگر افسوس ہمارے اعلانات پر چنداں توجہ نہ دی گئی بلکہ الٹا بار بار ذرائع ابلاغ میں اشتہار دیا جانے لگا کہ ہر شہری سرکار کے خرچ پر فی الفور ٹیکا لگوائے یعنی سیدھے سیدھے ہماری شہری ذمہ داری کو چیلنج کیا جانے لگاـ
پھر یہی طے ہوا کہ جو ہو سو ہو اس اہم منصب پر آنچ نہ آنے دیں گے ۔ ہمارے ہی تو واسطے کیا سرکار کیا عساکر جا بجا ویکسین کی دکان مفتو مفت سجائے بیٹھے ہیں۔ ادھر طرہ یہ ہوا کہ لکھنوی چچا جان جو اول اول ویکسین لگوانے پہنچے تھے، اس کے فضائل و مناقب پر ان کا پیامچہ ریکارڈ ہو کے محکمہ صحت کے چینل پر چلنے لگا،
”دیکھیے! دس منٹ ہو چکے ہیں۔ میں ادھر بیٹھا ہوں۔ کچھ نہیں محسوس ہو رہا ہے، بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔“ یوں خاندانی نجابت بچانے کے خیال نے اضافی مہمیز دی کہ اب پیچھے نہیں ہٹنا ۔ اپنی باری کے انتظار میں دو ماہ مزید گزر گئے۔ اس کے بعد جونہی نوبت پر چوٹ پڑی سرکار کے حکم کی تعمیل میں بھاگے بھاگے سد کرونائی ٹیکا لگوا آئے۔
گرچہ فیشن سا چلا ہے کہ سفید لبادے میں لپٹی ہاتھ میں سرنج پکڑے سوئی جانب بازوئے مبارک کیے ہوئے کسی حسینہ مہ جبینہ کے زیر سایہ مسکراتے ہوئے فوٹو کھچا کے فورا سٹیٹس چڑھایا جائے مگر ہم نے اسے چنداں ضروری نہ جانا۔ حالانکہ خاص تاکید کی گئی تھی کہ اس مقصد کے لیے فوٹو شوٹ کا ماہر جو مناسب ایڈٹنگ کی خوبی سے بھی متصف ہو ہمراہ لے جایا جائے۔
اس اثنا میں نہر اپر جہلم کے پار سے لہروں کے دوش پر اڑتا ہوا فصیح و بلیغ پیامچہ موصول ہوا۔ محترمہ قدسیہ جبین صاحبہ نے اشاعت کے جملہ حقوق ہمارے نام کرتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی کہ احباب کو اس اہم وقوعے کی اطلاع فوراً بالفاظ ذیل بہم پہنچائی جائے، ”تیمیہ صبیحہ از فیلنگ ہرسیلف ”موٹی، ویٹڈ“ اینڈ ”ریلیکسڈ“ آفٹر ہیونگ فرسٹ ڈوز آف کووڈ ویکسینیشن“ اینڈ، ہیوی سلیپ، ود فائیو سٹارز۔
نوٹ: ”ویکسینیشن کے اس عمل میں لفظ ’موٹی‘ اور ’ہیوی‘ پر خاص توجہ مرکوز رہے۔ نیز ’ویٹڈ ‘ بھی ملحوظ رہے“ـ ہم پڑے اینڈتے رہے اور ان کا پیامچہ باسی ہوتا رہا۔
آج آٹھواں روز ہوا جاتا ہے۔ زندگی کچھ اس طور گزر رہی ہے کہ ادھر ہم داہنی آنکھ کھولتے ہیں ادھر بائیں آنکھ مند جاتی ہے۔ دونوں کھلتی ہیں تو گُدی سے دردِ سر چڑھا آتا ہے۔ نتیجتاً ہم بازو کا چھجا بنائے دونوں آنکھیں پھر موند لیتے ہیں۔ سنا ہے اس دوران اقصی وغیرہ میں پھر معرکہ بپا ہوا ہے۔ افغانستان میں مدرسہ خونم خون ہوا ہے۔
عید کا تیسرا روز ہے مگر ہم ہنوز عالم خواب میں ہیں۔ آنکھ کھلنے بند ہونے کے درمیانی وقفے میں تشویش ہوئی کہ آخر اس خانہ خراب سستی کا سبب کیا ہے۔ ابھی ذہن کے گھوڑے دوڑا نہ پائے تھے کہ کوندا سا لپکا جو اُس روز پولی کلینک میں کان پڑا تھا۔ Astra Zeneca ! آہ! ٹیکے کا نام نہ پوچھا ہوتا تو یقینا اس بستر توڑ بیماری کے دیگر اسباب تلاش کرتے مگر اب کاہلی اپنی تمام تر شدت سے اسی نقطے پر مرکوز ہے کہ ہو نہ ہو یہ اسٹرا زینیکا کے بد اثرات ہیں۔
خدا ہمیں جلد صحت یاب کرے تاکہ ہم کانی آنکھیں پوری کھول کے الاپ سکیں
درد کی اپنے تشہیر ہر سو کیجیے
ویکسین لگوائیے، قبلہ ! ویکسین لگوائیے