ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]
میرے پیارے ابا! آپ کے بغیر ہم نے پہلی بار عید الضحٰی بھی گزار لی، لفظ ” عید ” سماعتوں کو اتنا عجیب لگ رہا تھا، عید کے ساتھ جو خوشی کا تصور وابستہ ہے، وہ دل و دماغ کو بوجھل کرتا جا رہا تھا، مولانا عزیز الحسن مجذوب کے اشعار ذہن میں گونج رہے تھے.
کوئی مزا مزا نہیں، کوئی خوشی خوشی نہیں
تیرے بغیر زندگی، موت ہے، زندگی نہیں
بیٹھا ہوں میں جھکائے سر، نیچی کیے ہوئے نظر
بزم میں سب سہی مگر، وہ جو نہیں کوئی نہیں
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ کی غیر موجودگی کا احساس ہر چیز پر حاوی رہا، گھر، ڈیرہ پر وہ جگہ جہاں آپ کے عمدہ اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے ٹھٹ لگے رہتے تھے، ویران اور سنسان تھے، اہل علاقہ آ آ کر آپ کے بیٹوں کو بتا رہے تھے کہ کس طرح یہ ویرانی ان کے دل کو بھی ویسے ہی چیر رہی ہے، ان کی آنکھیں بھی آپ کو ویسے ہی تلاش کر رہی ہیں، جیسے ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غم سے بوجھل ہے،
آپ کا چلے جانا ہمارا ذاتی نقصان تو ہے ہی، اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگوں کا اجتماعی نقصان بھی ہے جو ہر مشکل وقت میں آپ کی طرف دوڑا کرتے تھے، اس یقین کے ساتھ کہ یہاں ان کی ہر طرح سے دادرسی ہو گی. آپ کو یاد ہے نا والدہ اس بات پر کس قدر معترض رہا کرتی تھیں کہ آپ پرائے مسئلوں میں خود کو کیوں الجھاتے ہیں اور یہ واحد بات تھی کہ جس پر آپ ان کی ناپسندیدگی کی پروا نہیں کرتے تھے اور کسی کی بھی تکلیف کا علم ہونے پر ایسے بے چین ہو جایا کرتے تھے جیسے آپ کو ذاتی تکلیف پہنچی ہو، ایسا مخلص اور بے ریا انسان اس گاؤں کو کب نصیب ہوا تھا.
ہمیں تو آپ کے ان اوصاف کا علم تک نہ تھا، جو آپ کے جانے کے بعد لوگوں کی زبانی معلوم ہوئے کہ کس طرح آپ دامے درمے سخنے اہل علاقہ کی معاونت کیا کرتے تھے، اپنی ذات کے یہ گوشے آپ نے ہم پر بھی کبھی عیاں نہ ہونے دیے، یقیناً اللہ رب العزت کے پاس آپ کو بہترین اجر ملا ہو گا، کیونکہ وہ علیم خبیر ہستی تو آپ کے اخلاص سے آگاہ ہے.
پچھلے سال بیماری کی بناء پر آپ عید الضحٰی کے موقع پر گاؤں میں نہیں تھے، لیکن فون پر لمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہے، ہمیں کیا معلوم تھا کہ آئندہ سال آپ ٹیلی-فون والے رابطے بھی منقطع کر جائیں گے، جو رونق اور گہماگہمی آپ کے ہونے سے گھر اور زندگی میں تھی، وہ سب ایک مہیب سناٹے میں بدل گئی ہے.
آپ ہوتے تھے تو اس امر پر خصوصی توجہ دیتے تھے کہ سب گھر والے خصوصاً خواتین عید کی مناسبت سے تیار ہوں، لباس سے لے کر کھانے تک ہر چیز کی بطور خاص تعریف کیا کرتے تھے، ابا اس عید پر کسی نے ہمیں نہیں کہا کہ لباس کیوں نہیں بدلا، تیاری کیوں نہیں کی، یہ ڈش تو بہت ہی عمدہ بنی ہے، انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے ایک دوسرے سے نظریں چرائے، دل کر رہا تھا کہ کسی طرح یہ دن جلد از جلد گزر جائے،وہ دن جسے لوگ عید کہہ رہے ہیں، ہماری زندگی سے تو لفظ عید آپ کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا ہے.
کسی نے سچ کہا تھا کہ جانے والے کے ساتھ جایا تو نہیں جا سکتا کہ ہر ایک نے اپنے مقررہ وقت پر جانا ہے، لیکن روح کا ایک حصہ ان کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے، ہماری روح کا خوشی محسوس کرنے والا حصہ آپ کے ساتھ ہی چلا گیا ہے، کوئی بات کوئی چیز دل کے اس کونے کو روشن نہیں کر پا رہی، جہاں آپ کی جدائی نے تاریکی بکھیری ہے،
آپ تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی بہترین میزبانی میں ہوں گے، ہوش سنبھالنے سے لے کر آپ کو کبھی حق تلفی کرتے نہیں دیکھا، صبر، برداشت، ایثار، عدل، خلوص کا مجموعہ پایا، بیماری تکلیف کو حوصلے سے برداشت کیا، کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی مایوسی کا کلمہ زبان سے نکلا، ایسی سعید روحوں کی ہی تو اللہ تعالیٰ بہترین میزبانی کرتے ہیں، لیکن اس خلا کا کیا کیا جائے جو ہماری زندگیوں میں مستقل طور پر در آیا ہے،
ہر بات ہر کام میں لاشعوری طور پر احساس رہتا ہے کہ آپ ہوتے تو اس کام کو اس طرح کرتے، آپ کو پتہ چل رہا ہو گا کہ ہم سب بہن بھائی آپ کے راستے پر چلنے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس وہ اخلاق اور اعلیٰ ظرفی و بلند حوصلگی تو نہیں ہے جو آپ کا خاصہ تھی، لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ کو خوشی پہنچانے کا اب راستہ یہی ہے، اللہ کرے کہ ہم اس کوشش میں کامیاب رہیں.
ابا جی! آپ تھے تو کبھی کسی معاملے کی گہرائی تک جا کے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی، ہر بات ہر مسئلہ آپ کو بتا کر بے فکر ہو جایا کرتے تھے، آپ ایسے غیر محسوس انداز سے بغیر کوئی پریشانی ظاہر کیے ہر معاملہ ایسے نمٹا دئیے کرتے تھے کہ کبھی کوئی مسئلہ ہمارے لیے مسئلہ نہیں رہا تھا، آپ کا کہنا ہی کافی ہو رہتا تھا کہ میں تہجد میں دعا کر رہا ہوں، آپ جانتے ہیں ناں آپ کی اس دعائے نیم شب کی مجھے ہمیشہ سے عادت اور ضرورت رہی ہے، یہ سلسلہ منقطع نہ ہونے دیجیے گا میرے پیارے ابا جی!
یہ دنیا بہت ظالم اور سنگدل ہے، جس سے آپ کے جانے کے بعد ہمارا سامنا ہوا ہے، اب سمجھ آئی ہے کہ آپ کیوں ہمیں سینت سینت کر سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے کہ آپ کو دنیا کی تلخیوں سے آگاہی تھی اور ہمارے لیے ان تلخیوں کے سامنے آپ ڈھال بنے ہوئے تھے، آپ نے کیسے اس دنیا کے ساتھ بھی اتنا خوبصورت وقت گزار لیا، کیسے اس کی تلخیوں کو اپنے لہجے، زبان اور انداز کے قریب تک نہیں آنے دیا،
ہم تو ابھی سے تھک رہے ہیں، نہ معلوم کتنا وقت ہے جو آپ کے بغیر یہاں گزرنا ہے، بہت مشکل ہے آپ کے بغیر رہنا، آپ کی غیر موجودگی کے احساس کے ساتھ زندگی بِتانا، میری تو عید بھی اسی دن ہو گی جس دن دوبارہ آپ سے ملنا ہوگا، ایسا ملنا کہ جس کے بعد کوئی جدائی بیچ میں نہیں آئے گی ….
بس دل کو یہی تسلی ہے کہ جلد یا بدیر آخر ہم سب بہترین جگہ پر اکٹھے ہوں گے، جب تک یہ ملن نہیں ہوتا….. دل اس کی گھڑیاں گنے گا اور آنکھیں اس کی منتظر رہیں گی کیونکہ بقول شاعر.
روحِ من
آنکھیں تیرے تابع کر دی گئی ہیں
ان کا کِھل اُٹھنا
مرجھا جانا
تیرے نظر آنے، نہ آنے سے وابستہ ہے
ایک تبصرہ برائے “اُس دن عید مبارک ہوسی……….”
Allah Pak uncl ko jannat ul firdous myn aala muqam ataaa kry…ameenn…Allah Pak ap sbko sabar daiyn..Ameen