افغانستان ، طالبان رہنما ماسکو میں مذاکرات کے لئے آ رہے ہیں

افغانستان : طالبان کا نیا روپ کیسا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فیض اللہ خان :

طالبان نے اب تک جن سرحدی یا مضافاتی علاقوں کا کنٹرول حاصل کیا ہے وہاں ملی اردو نے خاص مزاحمت نہیں کی ۔ اس بات پہ بہت سے افغان شہری بھی حیران ہیں حالانکہ ملی اردو کو فضائی برتری حاصل ہے جو کہ طلبہ کو امریکیوں کی موجودگی میں بھی بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے سے روکتی رہی ہے ۔ ممکنہ طور پہ کابل قندھار و جلال آباد سمیت شمال کے بڑے شہروں میں ملی اردو مزاحمت کرے گی۔


افغان طالبان کی کوشش ہے کہ جنگ سے پہلے اعصاب کی جنگ اور فتح کی نفسیاتی برتری لئیے جتنے علاقے خون بہائے بغیر لئیے جاسکتے ہیں ، لے لئیے جائیں ۔


ملی اردو یا اشرف غنی کی قوت کا حقیقی دارومدار غیر ملکی امداد پہ ہے حالانکہ بیس برس میں جتنی رقم یہاں خرچ ہوئی اس سے مضبوط نظام کی بنیاد ڈالی جاسکتی تھی مگر نسلی اکائیوں کے اختلافات ، بدعنوانی اور قیادت کے ویژن میں کمی کے سبب یہ سب اچھے سے نہ ہوسکا ۔

باہمی سیاسی کشمکش جاری ہی تھی کہ اس عرصے میں نہ صرف مزاحمت کار طلبہ اور امریکیوں میں مذاکرات ہوئے بلکہ اب وہ کم از کم سرحدی علاقوں پہ قابض ہوچکے ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان حالات کے لئیے افغان حکومت تو ایک طرف خود پاکستانی حکومت کے پاس بھی تیاری کا کوئی منصوبہ نہ تھا ۔ حالات بتاتے ہیں کہ تیاری صرف طالبان کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کچی مٹی کا گھر ، جہاں سے دنیا کی 40 ممالک کی مشترکہ فوج کو شکست دی گئی

نریندر مودی حکومت کے افغان طالبان اور جنگجوئوں سے رابطے


طالبان کی کوشش ہے کہ بغیر جنگ یا پھر کم از کم نقصان سے بڑے شہر ان کے ہاتھ آئیں ، افغانستان میں طالبان کے حوالے سے جہاں حمایت پائی جاتی ہے وہیں خاصی مخالفت بھری فضاء بھی موجود ہے جبھی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں کیونکہ یہ ان کے بھی علم میں ہے اپنی قوم سے جنگ خاصی مشکل ہوتی ہے فطری طور پہ افغانوں کی اکثریت قوم پرست بہادر اور مذہب سے قریب ہے

چاہے ان کا تعلق طالبان سے ہو یا ملی اردو سے البتہ حالیہ شکست کی اصل وجہ منصوبہ بندی کا فقدان اور طالبان کی سرعت پذیری تھی جس نے سب کو حیران کیا اور اس سلسلے کا سب سے دلچسپ پہلو طالبان کا تاجکستان چین اور ایرانی سرحد سے جڑے علاقوں کا کنٹرول لینا تھا جس کے بارے میں کسی کا وہم و گمان بھی نہ تھا ۔ بلوچستان سے ملحق اسپین بولدک پہ بعد میں قبضہ کیا جبکہ طور خم سرحد جیسی اہم گزر گاہ ابھی تک افغان فوج کے پاس ہے۔


عالمی امداد میں اگر کمی آتی ہے تو پھر کابل کی فتح آسان ہوگی ۔ اچھی بات یہ ہے کہ افغان سیاسی قائدین بھی متحرک ہیں اور ان کی اکثریت جنگ نہیں چاہتی خود طالبان بھی جنگ نہیں چاہتے یعنی یہ کسی کا بھی پہلا آپشن نہیں۔


بطور پاکستانی ہمارے لئیے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں ہندی مداخلت کم از کم ہمارے حوالے سے کمزور ہو جائے گی طالبان ان سے قطع تعلق نہیں کریں مگر اصولی طور پہ افغان سرزمین ہند و پاک کے خلاف استعمال نہ ہوسکے گی ۔ اگر طالبان اقتدار پاتے ہیں تو وہاں موجود بلوچ علیحدگی پسند ہوں پاکستانی طالبان یا کوئی اور وہ پاکستان کے خلاف کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکیں گے اور نا ہی مسعود بھائی کی رہائی کے لئیے کوئی جہاز اغواء ہوکر قندھار پہنچ سکے گا یعنی کہ بلوچستان و کشمیر کی جنگ افغانوں کی سرزمین پہ نہیں لڑی جائے گی۔


طالبان کے ترجمان نے افغان ٹی وی سے گفتگو میں کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کیا جیسا کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان سے خصوصی تعلق کیوں رکھتے ہیں تو جواب تھا کہ تمام پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہیں لیکن ایران و پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہاں بڑی تعداد میں مہاجرین رہے اور پاکستان نے سویت یونین کے خلاف ہماری بھرپور مدد کی مگر اگلا جملہ یہ تھا کہ اگر ہم پاکستان کے زیر اثر ہوتے تو مزاحمت نہ ہوتی اور کب کا ہمیں ہاتھ پیر باندھ کر امریکہ کو دیا جاچکا ہوتا (واضح طور پہ یہ اشارہ ملا ضعیف کی گرفتاری کی طرف تھا حالانکہ یہ لوگ بتاتے بتاتے تھک گئے کہ حمید گل جیسوں نے جنگ جتوائی ہے یہ اتنا ہی اچھا نیک کام ہے تو حمید گل و اختر عبدالرحمن کے بچے کیوں لڑنے نہ گئے )

اسامہ کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ تو ہماری آمد سے پہلے یہاں موجود تھے اور ساری دنیا یہ جانتی ہے اس زمانے میں عرب ہماری مدد کو آئے ۔ انہوں نے سویت جنگ میں مال بھی دیا جانیں بھی دیں۔ ہم تب بھی حوالگی کے حوالے سے امریکہ سے مذاکرات کرنا چاھتے تھے مگر امریکہ بدمعاشی کر رہا تھا جس کے بعد اصولوں کی بنیاد پہ ہم نے جنگ لڑی اور اب بھی یہاں مہاجرین کو رہنے کی اجازت ہوگی ۔ ہم کسی کو ہاتھ پیر سے باندھ کر کسی کے حوالے نہیں کریں گے مگر کسی کو کسی کے خلاف اپنی زمین بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے کیونکہ یہی دوحہ معاہدہ ہے اور معاہدے میں کہیں درج نہیں کہ ہم کس سے تعلق رکھنے کے پابند ہیں اور کس سے نہیں ، ترجمان کا البتہ یہ بھی کہنا تھا کہ اب افغانستان میں عرب جنگجو نہیں رہے اپنے ممالک جاچکے ہیں ۔۔۔۔


پاکستانی اور افغان طالبان کا تعلق خاصا پیچیدہ نوعیت کا ہے پاکستانی طالبان کا مہمند دھڑا جس کی سربراہی عمر خالد کے پاس ہے وہ طویل عرصے سے افغان طالبان سے مختلف معاملات میں اختلافات رکھتا ہے بقیہ کا معاملہ ایسا نہیں حالیہ عرصے میں ایک اطلاع کے مطابق حقانیوں نے پاکستانی طالبان اور اداروں کے درمیان مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا جو ابھی تک تو بے نتیجہ ہیں لیکن افغانستان کی صورتحال میں تبدیلی سے ممکنہ طور پہ پیش رفت ہوسکتی ہے ۔۔۔


افغان طالبان کبھی بھی عالمی ایجنڈا نہیں رکھتے تھے ۔ یہ طویل قامت عرب جہادی کا منصوبہ تھا کہ امریکہ کو کسی طرح یہاں لایا اور جنگ میں اسے جانی مالی نقصان ہو ، افغان طالبان اپنی سادگی میں استعمال ہوگئے مگر اب بہرحال وہ خاصے زیرک ہیں ماضی میں دنیا سے ان کے رابطہ کا سب سے بڑا زریعہ پاکستان یا سعودی عرب یو اے ای وغیرہ تھے مگر حال میں تمام ممالک سے ان کے اپنے رابطے ہیں اور ساتھ ہی افغانستان میں بھی اپنا بہتر تاثر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


افغان قوم کے حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور غیروں کی سازشوں کے نتیجے میں چالیس برس تک جنگ ہی دیکھی ہے اللہ کرکے کہ اب امن قائم ہو تاکہ یہ پورا خطہ سکون میں آسکے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں