آزاد کشمیر اسمبلی ، مظفر آباد

آزاد کشمیرانتخابات 2021، کون بنے گا حکمران ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دیکھنا یہ ہے کہ آزاد کشمیر کو ایکٹ 1970ء کے تحت حاصل شدہ اختیارات تک پہنچتے میں کتنا وقت لگے گا !

دانش ارشاد

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے گیارہویں عام انتخابات پچیس جولائی کو منعقد ہورہے ہیں ۔ یہ اسمبلی 1975 میں ایک عبوری آئین (ایکٹ 1974) کے تحت وجود میں آئی اورپارلیمانی نظام حکومت کا آغاز ہوا۔ایکٹ 74ء کے تحت دو ایوانوں کا قیام عمل میں آیا جن کو قانون ساز اسمبلی اور آزاد جموں کشمیر کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کو قانون کے محدود اختیارات جبکہ کونسل کو قانون سازی اور مالیاتی اختیارات حاصل رہے۔ 2018 ء میں ایکٹ 74 ء میں 13 ویں ترمیم ہوئی جس کے بعد محدود قانون سازی اور مالیاتی اختیارات آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوئے۔ تاہم ایکٹ میں پوری ریاست جموں وکشمیر کی نمائندگی کی بجائے اس کادائرہ کار آزاد کشمیر تک محدود کر دیا۔

قبل ازیں 1970 سے 1975 تک آزادکشمیر میں پانچ سال تک صدارتی نظام حکومت رائج رہا جبکہ اس سے پہلے ایک مرتبہ جنرل ایوب خان کی ’بنیادی جمہوریت‘کے ذریعے ’صدر ریاست‘ کا انتخاب کیا گیا اورباقی ادوار میں صدر ریاست واحد سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی مشاورت سے نامزد کرتی رہی۔


آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ واقعات سے بھرپور رہی ہے۔ 1947ء میں اعلان آزادی کے بعد انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد کچھ یوں تھا:


”عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا“۔


انقلابی حکومت کے پہلے صدر سردار ابراہیم مقرر ہوئے۔ نئی حکومت کے تمام امور پاکستان کی وزارت بے محکمہ کی نگرانی میں چلتے تھے،جس کے وزیر مشتاق احمد گورمانی تھے۔ مسئلہ کشمیر اقوم متحدہ میں پیش ہونے کے بعد یہی وزارت پاکستان اور آزاد حکومت کے درمیان رابطہ کار تھی۔ آزاد حکومت کو اپنے آغاز میں ایک مذاق ہی سمجھا گیا اور کوئی نامور شخصیت اس عارضی نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوئی،

تاہم یہ ایک حقیقت بن کر سامنے آگئی تو اس کی وزارتیں اور عہدے پرکشش بننے لگے اور اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔ اقتدار میں شراکت داری کیلئے مسلم کانفرنس کی قیادت اور سردار ابراہیم کی حکومت میں اختلافات بڑھنا شروع ہوگئے۔ 1948ء میں چوہدری غلام عباس جموں (مقبوضہ کشمیر) سے رہا ہو کر پاکستان آئے تو انہیں آزاد حکومت کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ انہیں آزاد حکومت اور کابینہ میں مکمل رد وبدل کا اختیار حاصل تھا۔


چوہدری غلام عباس کو نگران اعلی بنانے کا مسئلہ بحث طلب رہا۔ کئی مورخین بالخصوص یوسف صراف اور پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اس اقدام کو غیر جمہوری اور غیر قانونی رویہ قرار دیا۔ مورخین کے مطابق ایسا محض آزاد حکومت کو اپنے قبضہ میں رکھنے کیلئے کیاگیا۔ اسی دوران آزاد کشمیر میں درجن کے قریب سیاسی کارکنوں کیلئے ایک لاکھ روپے کا وظیفہ مقرر کیا گیا جو چوہدری غلام عباس کے ذریعے دیا جاتا۔


عام انتخابات کی بجائے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کو ہی ’انتخابی کالج‘ کا درجہ دیا گیا اور 2 مارچ 1949 کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے ’آزاد حکومت‘ کی تنظیم نو کے بارے میں ایک قرارداد منظور کی، جس کے بعد وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے احکامات پر سردار ابراہیم نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی یقین دہانی پر استعفیٰ دیا، جسے چوہدری غلام عباس نے بطور صدر مجلس عاملہ قبول کیا۔

پھر یکم اپریل 1949 کو نئی کابینہ کا اعلان ہوا اور سردار ابراہیم ہی کو صدر مقرر کیا گیا۔ مورخین کے مطابق اس اقدام سے چوہدری غلام عباس اپنی برتری کے ساتھ یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ آزاد جموں کشمیر کے معاملات پر انھیں کلی اختیار اور حقیقی طاقت حاصل ہے۔ اس سیاسی صورتحال کا فائدہ وفاقی وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی نے اٹھایا اور دونوں گروپوں کے اختلافات کو خوب اچھالا یہاں تک کہ سردار ابراہیم کی حکومت مجلس عاملہ کے سامنے جوابدہ ہونے کے باوجود اس کی نظروں میں ناقابل اعتبار ٹھہری۔

چنانچہ اس بے اعتباری کو ختم کرنے کیلئے اختیارات کی تقسیم کا ایک تحریری معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس معاہدے پر سردار ابراہیم نے بحیثیت صدر آزاد کشمیر، چوہدری غلام عباس نے بحیثیت صدر مسلم کانفرنس اور نواب مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت گلگت اور لداخ کے علاقوں کے تمام امور حکومت پاکستان کے سپرد کر دیے گئے اور آزاد حکومت کو چند امور پر حکومت پاکستان کو مشورہ دینے کے اختیارات ملے۔

باقی تمام اختیارات وزارت بے محکمہ کو تفویض کر دیے گئے،جن میں ریاست کا دفاع، خارجہ پالیسی،اقوام متحدہ کے کمیشن سے گفتگو، بیرون ملک مسئلہ کشمیر پر لابنگ کرنا، آزاد ریاست جموں کشمیر میں خوراک کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ جیسے تمام امور کی ذمہ داری حکومت پاکستان کے سپرد کر دی گئی تھی۔آزاد حکومت جموں کشمیر اور ریاست پاکستان کے درمیان یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا۔


اسی دوران آزاد حکومت نے تراڑکھل میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جس میں سردار ابراہیم کے علاوہ چوہدری غلام عباس اور وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان شریک ہوئے اس دوران سردار ابراہیم کیلئے نجات دہندہ اور مجاہد اعظم جیسے نعرے لگائے گئے۔ مورخین کے مطابق ان نعروں پر لیاقت علی خان اور چوہدری غلام عباس کی ناپسندیدگی نظر آئی۔

اس پر سردار مختار خان اپنی کتاب ”آزادی کا خواب پریشاں“ میں لکھتے ہیں کہ ”چوہدری غلام عباس نے کہا کہ قائد اعظم کی موجودگی میں لیاقت علی خان کا نعرہ کبھی نہیں لگایا گیا کیونکہ لیڈر ایک ہی ہوتا ہے، ریاست جموں کشمیر میں مجھے مسلمہ لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود سردار ابراہیم کے حق میں نعرے لگانا کسی طور مناسب نہیں۔“


سردار ابراہیم اپنی ’کتاب متاع‘ زندگی میں لکھتے ہیں کہ

”لیاقت علی خان دورہ تراڑکھل کے بعد پریشان نظر آئے اور اگلے روز راولپنڈی میں مسلم لیگیوں کی نجی محفل میں کہا کہ یہ پہاڑ والے تم پر چھا جائیں گے۔“ اس کے بعد ان کی پالیسی بنی کہ آزاد جموں کشمیر میں سربراہان تبدیل ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ کسی ایک صدر کو قدم جمانے کا موقع نہ ملے اور اس کے کچھ عرصہ بعد سردار ابراہیم کو بیرون ملک بھیج کر اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ (شاید یہی وجہ تھی کہ 1949 ء سے 1957 ء تک آزاد کشمیر میں آٹھ صدور تبدیل ہوئے۔) اس دوران وزارت بے محکمہ پر آزاد کشمیر کی سیاست میں دخل اندازی کے الزامات لگتے رہے۔


26 مئی 1949ء کو سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس کو کراچی بلا کر ان کی مشاورت سے وزارت محکمہ کا نام تبدیل کر کے وزارت امور کشمیر رکھا گیا۔ اس بارے میں مرزا شفیق حسین اپنی کتاب ”آزاد کشمیر کا سیاسی جائزہ“ میں لکھتے ہیں کہ ”ممکن ہے انہیں محکمہ کی نام کے تبدیلی کے بارے میں صرف اطلاع دی گئی ہو“۔


اسی دوران چوہدری غلام عباس کی طبیعت ناساز ہو گئی اور انہوں نے اللہ رکھا ساغر کو پارٹی کا صدر نامزد کیا جس پر کئی اختلافات سامنے آئے اور ردعمل کے طور پر میر واعظ یوسف شاہ نے 200 کارکنوں کا اجلاس بلا کر مسلم کانفرنس کی متوازی کابینہ کا اعلان کر دیا۔ تاہم تقریباً آٹھ ماہ بعد غلام عباس نے دوبارہ مسلم کانفرنس کی قیادت سنبھال لی۔

سیاسی کشمکش کی اسی فضا میں سردار ابراہیم اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے امریکہ روانہ ہوئے، واپسی پر انہیں کراچی روکا گیا۔ ادھر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر انہیں اقتدار سے الگ کر کے سید علی احمد شاہ کو صدر آزاد کشمیر نامزد کیا گیا۔ اس وقت سردار ابراہیم نے جاری کردہ بیان میں اپنے اور چوہدری غلام عباس کے اختلافات کا ذکر کیا اور انہوں نے بالغ رائے دہی پر حکومت بنانے کا مطالبہ کیا۔


اختلافات اور اقتدار کی اس کشمکش نے بغاوت کی شکل اختیار کر لی اور پونچھ میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس بغاوت کو روکنے کیلئے پولیس کی مدد کو فوج بلائی گئی۔ کئی مقامات پر فوج اور عوام میں جھڑپیں ہوئیں۔ اس تحریک کے دوران متعدد افراد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔


مرزا شفیق حسین لکھتے ہیں کہ”سیاسی بحران جاری تھا کہ چوہدری غلام عباس نے آزاد کشمیر حکومت کے ضوابط کار اور نگران اعلیٰ کے اختیارات کا اعلان کیا جس میں صدر آزاد کشمیر اور ان کی کابینہ کی نامزدگی، ججز کی تقرری اور برطرفی کے اختیارات اور قانونی سازی کاحتمی اختیار نگران اعلیٰ کو تفویض کر دیا گیا۔ یوں چوہدری غلام عباس مطلق العنان بن گئے، جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور دوسری مرتبہ مسلم کانفرنس کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ کرنل شیر احمد خان نے مسلم کانفرنس کا متوازی گروپ تشکیل دے دیا۔

باغی گروپ نے وزیر امور کشمیر مشتاق گورمانی سے حالات درست کرنے کی درخواست کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، جس پر متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس پر مرکز کو تشویش ہوئی اور میر واعظ یوسف شاہ کو نگران صدر بنانے کی تجویز دیدی۔ یہ تجویز دونوں گروپوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور ریاست کے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ اس بحران کو ختم کرنے کیلئے لیاقت علی خان نے ٹھوس اقدام کرنے کی کوشش کی اور مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو مذاکرات کی پیشکش کی،جس پر دونوں دھڑوں نے وزارت امور کشمیر ختم کرنے یا کم از کم وزیر امور کشمیر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ان مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی۔


چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد آزاد حکومت مستعفی ہو گئی اور میر واعظ کو نگران صدر مقرر کیا گیا۔ یہ حکومت چھ ماہ تک رہی جس کے بعد کرنل شیر احمد خان کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ اس نامزدگی کو سردار ابراہیم نے وزیر امور کشمیر کی سازش قرار دیا جبکہ چوہدری غلام عباس نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس دوران سردار ابراہیم گروپ کی جمہوریت بحالی کی جدوجہد جاری رہی اورفروری 1955ء میں اس تحریک میں نیا تب موڑ آیا جب کرنل شیر احمد پر فائرنگ ہوئی اور ایک شخص کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس نے پلندری مسجد پر چھاپہ مارا، اس پر عوامی ردعمل سامنے آیا،تصادم ہوا اور پھر لوگوں نے تمام سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا۔

ان حالات میں پونچھ پر مارشل لاء لگا کر پنجاب کانسٹیبلری کو بلایا گیا۔ سردار ابراہیم کی جانب سے بالغ رائے دہی کے مطالبے پر یہ تحریک شروع ہوئی تھی، تاہم کچھ عرصہ بعد سردار ابراہیم نے اس تحریک کو انجام تک پہنچنے سے قبل چھوڑ کر راولپنڈی میں وکالت شروع کر دی۔ یوں تحریک تو چلتی رہی اور لوگ ان کیلئے قربانیاں دیتے رہے اور وہ تحریک سے دور ہو کر پریکٹس کرتے رہے۔


مورخین کے مطابق پی سی آنے کے بعد حالات اس قدر خراب ہوئے کہ درجن بھر گھروں کو بموں سے اڑایا گیا، فائرنگ کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے اور تقریباً تین ہزار باغی سیز فائر لائن عبور کر کے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ ایک ہندوستانی اخبار کے مطابق اس دوران 500 افراد ہلاک ہوئے۔


مسلم کانفرنس نے حکومت پاکستان سے پی سی کو واپس بلانے اور ججز پر مشتمل ٹربیونل بنانے کا مطالبہ کیا۔ جس پر ایک ٹربیونل بنا جہاں لوگوں پر مقدمات درج کئے گئے اور جلد ہی یہ مقدمات واپس لے لئے گئے۔ یوں پونچھ میں امن بحال ہوا۔ اسی دوران کراچی میں ایک ’کشمیر کانفرنس‘ ہوئی جس میں قانون ساز اسمبلی قائم کرنے اور بالغ رائے دہی پر انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ امن قائم ہونے کے بعد حکومت پاکستان اور مسلم کانفرنس کے اتفاق رائے سے نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا اور میر واعظ یوسف شاہ کو دوسری مرتبہ صدر نامزد کیا گیا۔

1956 میں مسلم کانفرنس کے تمام دھڑوں کا اجلاس ہوا جس میں مسلم کانفرنس کی صدارت سردار ابراہیم اور آزاد کشمیر کی صدارت سردار عبدالقیوم کو دینے کا فیصلہ ہوا تاہم یہ حکومت صرف سات ماہ تک چل سکی جس کی بڑی وجہ سیاسی ناتجربہ کاری بتائی جاتی ہے۔

اس کے بعد صدر پاکستان سکندر مرزا نے سردار ابراہیم کو صدر بننے کی پیشکش کی اور کہا اگر ایسا نہیں ہوتا تو حالات کی خرابی کی ذمہ داری ان پر ہو گی جس پر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر سردار ابراہیم کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ سردار ابراہیم کو صدارت ملنے کے فوری بعد ’کے ایل ایم‘ کی تحریک شروع ہوئی جس میں چوہدری غلام عباس اور سردار عبدالقیوم نے سیز فائر لائن کو توڑنے کا اعلان کیا۔ اس تحریک کو سردار ابراہیم نے اپنی حکومت کے خلاف سازش اور چوہدری غلام عباس اور سکندر مرزا کا گٹھ جوڑ قرار دیا۔


’کے ایل ایم‘ تحریک کے اثرات ختم نہ ہوئے تھے کہ پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا اور فوجی حکومت نے گرفتاررہنماؤں کو رہا کر دیا، جس سے سردار ابراہیم کی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا رہا۔ بالآخر اپریل1959 ء میں سردار ابراہیم سے استعفیٰ لئے جانے کے بعد کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کیا گیا۔کے ایچ خورشید نے صدارت سنبھالتے ہی آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔کے ایچ خورشید کی حکومت کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ پاکستان میں ایوب خان کے ’بنیادی جمہوری نظام‘ کے تحت آزاد کشمیر میں بھی انتخابات کروائے گئے اور آزادکشمیر کے امورچلانے کیلئے ایکٹ1961نافذ کیا گیا۔ ایکٹ کے تحت 2400 منتخب ممبران نے صدر ریاست کا انتخاب کرنا تھا۔ ان انتخابات میں کے ایچ خورشید کو کامیابی حاصل ہوئی۔


آزادکشمیر کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کی جدوجہد ایسے وقت میں تھی جب چین بھارت سرحدی تنازعہ عروج پر تھا۔ مرزا شفیق کے مطابق ”اس وقت چین نے اعلان کیا کہ اگر چین سے آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کی درخواست کی گئی تو وہ اس پر ہمدردانہ غور کرے گا اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کیلئے آزاد کشمیر حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔ چین کے اس اعلان کے بعد الجیریا حکومت نے آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔“


1963ء میں کے ایچ خورشید نے انکشاف کیا کہ ”الجیریا، ایران، ترکی، سعودی عرب، پرتگال اور دیگر کئی ممالک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جیسے ہی پاکستان آزاد کشمیر حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرے گا،یہ ممالک بھی آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔“ تاہم مسلم کانفرنس کی قیادت نے آزاد کشمیر حکومت کو خود مختار یا نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کو شہدا کے خون سے غداری قرار دے دیا۔ جس کے بعد کے ایچ خورشید نے نئی سیاسی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی۔


کے ایچ خورشید کے دور صدارت ہی میں پاکستان اصلاحات کے نام پر 1964 میں ایکٹ نافذ کیاگیا، جس کے مطابق صدارتی انتخابات، پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی رجسٹریشن اور نمائندگی کو کالعدم قرار دیا گیا۔ ایکٹ 1964 کے مطابق وزارت امور کشمیر کے جوائنٹ سیکرٹری کو آزاد جموں کشمیر کا چیف ایڈوائزر قرار دیا گیا، جس کے پاس صدر ریاست کی نامزدگی سمیت بے شمار اختیارات تھے۔ جوائنٹ سیکرٹری وزارت امور کشمیر (چیف ایڈوائزر) امان اللہ خان نیازی نے کے ایچ خورشید پر ایک چارج شیٹ فائل کر کے انہیں صدارت سے ہٹادیا اور خان عبدالحمید خان کو صدر مقرر کیا۔

مہاجرین کی نمائندگی ختم کئے جانے پر کے ایچ خورشید، سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے جدوجہد کا آغاز کیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ صدر آزاد کشمیر کا انتخاب آزاد کشمیر کے عوام،کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کے براہ راست ووٹوں سے کیا جائے اور قانون ساز اسمبلی بنائی جائے، جس میں آزاد کشمیر، مہاجرین اور گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود ہو۔ مطالبات تسلیم کئے بغیر آزاد کشمیر کے صدر عبدالحمید خان نے نئے ایکٹ 1968 کا اعلان کیا،جس میں سٹیٹ کونسل کے ممبران کی تعداد 12 مقرر ہوئی جن میں سے آٹھ سٹیٹ کونسلر بی ڈی ارکان کے ذریعے منتخب ہونا تھے اور چار کو آزاد کشمیر کے مشیر اعلیٰ نے مہاجرین مقیم پاکستان سے نامزد کرنا تھا۔

12 ارکان پر مشتمل اس سٹیٹ کونسل نے اپنے چیئرمین کا انتخاب کرنا تھا جو بالحاظ عہدہ صدر ریاست ہو گا۔ اس ایکٹ کے اعلان پر مسلم کانفرنس، آزاد مسلم کانفرنس اور لبریشن لیگ نے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قانون ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ تاہم چند مصلحتوں کی بنیاد پر تینوں جماعتوں نے ایکٹ 1968 کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا لیکن کے ایچ خورشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے مشترکہ بیان میں کہا ”حیرت ہے جو شخص پانچ سال ریاست کا صدر رہا اسے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار نہیں دیا جا رہا کہ اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں۔“


ان حالات میں آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور ہنگامے ہوئے۔ اسی دوران پاکستان میں ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن کروانے کا اعلان کیا۔ صدر پاکستان یحییٰ خان نے سردار ابراہیم، کے ایچ خورشید اور سردار عبدالقیوم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، عبوری حکومت قائم کی گئی تاکہ آئین سازی کا کام ہو سکے۔ 17 جولائی 1970ء کو صدارتی حکم نامہ جاری ہوا جسے عوام نے مسترد کیا۔اس کے بعد حکومت پاکستان نے عوامی خواہشات کے مطابق ستمبر 1970ء میں ایکٹ نافذ کیا جس میں گلگت بلتستان کو شامل کرنے کے علاوہ آزاد کشمیر کے عوام کے تمام مطالبے تسلیم کئے گئے تھے۔


ایکٹ 1970 کے تحت صدر کو ججز، پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کرنے جیسے لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ اس اسمبلی کو دوتہائی اکثریت سے ایکٹ میں ترمیم کا اختیار بھی حاصل تھا۔ ایکٹ 1970 کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں وزارت امور کشمیر کی مداخلت مکمل ختم ہوگئی تھی۔ اکتوبر 1970 میں انتخابات کا فیصلہ ہوا،ایچ خورشید، سردار ابراہیم،سردار عبدالقیوم اور چوہدری محمد شریف طارق نے حصہ لیا اور مسلم کانفرنس کے امیدوار سردار عبدالقیوم واضح اکثریت سے صدر منتخب ہوئے۔


نئی بااختیار اسمبلی میں مسلم کانفرنسی ممبر اسمبلی ممتاز راٹھور کی پیش کردہ آزادکشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنائے جانے کی قرارداد منظور ہوئی، جس میں آزادکشمیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کے بعد آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ اسی دوران سردار عبدالقیوم پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور کنبہ پروری کے الزامات لگے۔

سردار عبدالقیوم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور اسمبلی کے سپیکر منظر مسعود عبوری صدر مقرر ہوئے۔ اسی دورانیے میں پاکستان کا آئین منظور ہوا جس میں پارلیمانی نظام لایا گیا اورآزاد کشمیر میں پارلیمانی نظام کیلئے ایکٹ 74 دیا گیا۔ یوں ایکٹ 1970 ء کی عمر محض 5 سال رہی اور عوامی خواہشات کے مطابق مرتب نظام آگے نہ چل سکا۔


ایکٹ 74 کے تحت قائم ہونے والے پارلیمانی نظام سے پہلے منتخب وزیر اعظم خان عبد الحمید خان تھے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔۔ اس کے بعد 1985 ء تک مارشل لا رہا۔ 1985 ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے سردار سکندر حیات وزیر اعظم رہے، 1990 ء میں ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم بنے تاہم ایک سال کے اندر ہی انہوں نے اسمبلی توڑ دی اور1991 ء میں نئے انتخابات ہوئے جس کے بعد سردار عبدالقیوم خان وزیر اعظم بنے۔

1996ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بیرسٹر سلطان محمدود چوہدری جبکہ 2001 میں پھر سے مسلم کانفرنس جیتی اور سردار سکندر حیات وزیر اعظم بنے۔ 2006 میں مسلم کانفرنس کی حکومت دوبارہ بنی لیکن اندرونی اختلافات کے باعث مسلم کانفرنس ہی کے راجا فاروق حیدر نے ان پر عدم اعتماد کیا اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بن گئے۔

کچھ عرصہ بعد سردار محمد یعقوب نے عدم اعتماد کر کے فاروق حیدر کو ہٹا کر خود وزارت عظمی حاصل کر لی اور اسی اسمبلی میں تیسرا عدم اعتماد ہوا اور سردار عتیق خان پھر سے وزیراعظم بن گئے۔ 2011 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی دوران پہلی مرتبہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم کانفرنس سے اختلافات کے باعث راجا فاروق حیدر نے مسلم کانفرنس کے ناراض دھڑے کو لیکر مسلم لیگ ن بنائی اور پھر 2016 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دوتہائی اکثریت حاصل کی اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بنے۔


ایکٹ 74 کے تحت آزاد کشمیر میں وزارت امور کشمیر کی براہ راست مداخلت تو نہ تھی، تاہم جموں کشمیر کونسل کے نام سے ایک ادارہ سامنے آیا جو وزارت امور کشمیر کے ماتحت ہے۔ 2018 میں ایکٹ 74 میں ایک ترمیم کے ذریعے کشمیر کونسل کے اختیارات کو محدود کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایکٹ 1970ء کے تحت حاصل اختیارات تک پہنچتے کتنا وقت لگتا ہے!

آزاد کشمیر انتخابات، کون کون معرکہ آرا ہے؟


آزادکشمیر میں قانون ساز اسمبلی کا ایوان 53 اراکین پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 45 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ خواتین کے لیے پانچ ٹیکنوکریٹ، علماء مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ جموں کشمیر کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستوں میں سے 6 نشستیں صوبہ جموں اور 6 صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔


آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات 2021ء میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان اپنی رائے سے نمائندے منتخب کرسکیں گے۔ ان میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 3 ہزار 456 ہے۔


آزاد کشمیر کی سیاست میں ووٹرز کے لیے ذات، برادری اور ترقیاتی امور سمیت مرکز (وفاق) کافی اہمیت رکھتے ہیں حالانکہ اس خطے میں شرح خواندگی پاکستان کے تمام صوبوں سے بہتر جانی جاتی ہے۔ اس کے باوجود انتخابات میں نظریات کے بجائے سیاست دان برادری اور علاقائی تعصبات کو اپنی انتخابی مہم کے ایک موثر کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ عام طور پر مرکز یعنی وفاق میں جو بھی سیاسی جماعت برسراقتدارہو، آزادکشمیر میں اسی جماعت کی ذیلی جماعت یا شاخ کو کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ آزاد کشمیر کے مالیاتی فنڈز اور کئی دوسرے معاملات مرکز کی مرہون منت ہوتے ہیں۔


انتخابی مہم کے دوران امیدواران اسمبلی مقامی مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت کرتے رہے ہیں۔ ان انتخابات میں مقامی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا اور انتخابی مہم چلائی۔ تقریباً 24 سیاسی جماعتیں اور درجنوں آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہے تاہم مقامی سیاسی جماعتوں مسلم کانفرنس، جموں کشمیر پیپلز پارٹی، تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی بھی قابل ذکر ہیں۔


مرکزی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی فرحان احمد خان لکھتے ہیں:” آزاد کشمیر میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے سیاسی تموج پیدا کیا ہے۔ سیاسی جلسے جلوس ہوتے رہنے چاہیں، ان سے عوام کو اپنے ہونے کا احساس رہتا ہے اور طالع آزما غیر سیاسی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں کون سی جماعت کتنی نشستیں اٹھائے گی، مریم نواز نے البتہ کشمیر میں خوب سیاسی ماحول بنائے رکھا، انہوں نے شاردہ، راولاکوٹ، دھیرکوٹ اور باغ سمیت کئی علاقوں میں شاندار جلسے کیے۔ یہ بلاشبہ غیر معمولی جلسے تھے۔


بلاول بھٹو زرداری نے بھی ماحول کو کسی قدر گرمایا، انہوں نے اپنے بعض جلسوں میں مسلم لیگ نواز کی قیادت پر طنز کے نشتر بھی برسائے لیکن مسلم لیگ نواز نے باقاعدہ مشاورت سے بلاول کے طعنوں کو نظر انداز کیا۔ پھر بلاول ’اچانک‘ امریکا چلے گئے تو پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم میں جوش ماند پڑتا دکھائی دیا تو آصفہ بھٹو زرداری کی انٹری نے ایک بار پھر ماحول کو گرما دیا۔


تحریک انصاف کی الیکشن کیمپین علی امین گنڈا پور کے ہاتھ میں رہی جو ویسے بھی متنازع آدمی ہیں لیکن اس الیکشن مہم کے دوران وہ اپنی زبان وغیرہ کی وجہ سے اور بھی زیادہ متنازع کردار کے طور پر زیر بحث رہے۔ تحریک انصاف کے پاس شاید کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو کشمیریوں کی نفسیات اور وہاں کی سیاسی حرکیات سے شناسا ہو، اسی لیے ان کے ہاں انتشار اور افراتفری کا ماحول ہی دیکھنے کو ملا۔


یہی وجہ ہے کہ اب تک وزیراعظم عمران خان نے ’آزادکشمیر‘ جن جلسوں میں گئے وہ بہت پھیکے تھے۔ ان جلسوں میں لوگوں کی تعداد بھی مایوس کن تھی۔ اگر ان کی الیکشن مہم کے ذمہ دار لوگ محنت کرتے تو وزیراعظم کی انٹری زبردست ماحول بنا سکتی تھی۔ جہاں تک الیکشن کے نتائج کا تعلق ہے تو ’روایت‘ کے مطابق اسلام آباد میں برسر اقتدار پارٹی کی پاکٹ ذرا بڑی ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ اسے واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی، ابھی ایسی کوئی ٹھوس دلیل گراؤنڈ پر موجود نہیں ہے۔ بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ ایک مخلوط قسم کا سیٹ اپ تشکیل پائے گا۔“

آزاد کشمیر انتخابات 2021 : مہاجرین کی نشستوں کا کردار کس قدر اہم ہوتا ہے؟

آزاد جموں کشمیر میں حکومت سازی کے عمل میں پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکاتا ہے کہ حکومت سازی کے عمل میں ان نشستوں کو فیصلہ کن کردار حاصل ہے۔ کشمیر کے مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستیں ہیں جن میں سے 6 نشستیں صوبہ جموں اور 6 صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ آزاد جموں کشمیر میں مہاجرین کی ان 12 نشستوں کے حوالے سے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بھی پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو سمجھا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ ان حلقوں میں آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی عملداری کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔

کئی حلقوں میں تین صوبوں کے علاقے شامل کیے گئے ہیں جہاں تک کسی بھی امیدوار کے لیے پہنچنا تو ناممکن ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ وہاں کے انتخابی عمل کے طریقہ کار کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔ الیکشن کمیشن آزاد جموں کشمیر ان حلقوں میں صرف بیلٹ پیپرز پہنچاتا ہے بقیہ انتخابی عمل مقامی انتظامیہ کی نگرانی میں ہوتا ہے اور پھر نتائج کا اعلان کردیا جاتا ہے۔

اس طرح آزاد حکومت اور آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کی عملداری نہ ہونے کے باعث وفاق سمیت صوبائی حکومتیں ان 12 نشستوں کے انتخابی عمل اور نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا عروج تھا اس وقت کراچی میں موجود ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے حالانکہ آزاد جموں کشمیر میں ایم کیو ایم کا وجود تک نہیں تھا۔

بعدازاں جب کراچی سے ایم کیو ایم کا زور ٹوٹا تو ان نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی مرتبہ تو حکومت بنوانے کیلئے ان 12 نشستوں میں سے دس نشستیں تک ایک سیاسی جماعت کو دے کر اکثریت دلوائی جاتی رہے۔ اس نشستوں پر عموماً وفاق کا اثر و رسوخ چلتا ہے لیکن صوبائی حکومتیں بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرتی رہی ہیں۔

اسی بنیاد پر ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں اس سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو وفاق میں برسرِ اقتدار ہو۔ اگر آزاد کشمیر میں اس سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں نہیں ملتیں تو مہاجرین کی نشستوں کے ذریعے تعداد پوری کردی جاتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اور اس میں موجود یہ نشستیں آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین (ایکٹ 74) کے ذریعے وجود میں آئیں اور انھیں آزاد جموں کشمیر میں ہونے والی قانون سازی میں رائے دہی کا اختیار حاصل ہوا۔ ان نشستوں کو علامتی حیثیت کے لیے شامل کیا گیا تھا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ اس اسمبلی میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی نمائندگی پاکستان میں مقیم مہاجرین کی صورت موجود رہے اور آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت کہا جاسکے۔ جس حکومت کا اعلان 24 اکتوبر 1947 ء کو آزاد حکومت کے قیام کے موقع پر کیا گیا تھا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں