وقوف عرفہ کا مقام ، میدان عرفات

وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – حصہ اول)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

لبیک اللھم لبیک۔ لبیک لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد والنعمۃ لک والملک۔لا شریک لک۔ 
حدود حرم کی مبارک فضاؤں میں وقتاً فوقتاً گونجتا تلبیہ کا خوبصورت ترانہ کانوں میں رس گھول رہا تھا۔ دل اس کے دل نشیں اور خوبصورت الفاظ سے پرجوش ہو کر دھڑکتا تھا۔

آج 9 ذی الحجہ بروز جمعہ “یوم عرفہ” ہے، حج کا اہم ترین دن۔اور “وقوف عرفہ”حج کا اہم ترین رکن ہے۔ یہ دن بڑا مقدس، عظمتوں اور فضیلتوں والا ہے۔ اس دن رب رحمان کی رحمتیں اور بخششیں بے حساب ہوتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ”حج “وقوف عرفہ” کا نام ہے۔”

عرفات حدود حرم سے باہر واقع ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش اور ان کے حلیف قبیلے عرفات کے میدان میں نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے واپس لوٹ آتے تھے لیکن نبی معظم ﷺ نے عرفات میں قیام کو حج کا رکن اعظم قرار دیا اور فرمایا کہ حج “وقوف عرفہ” ہے۔ جو عرفات جانے سے محروم رہ گیا، اس کا حج باطل ہو گیا۔

میری زندگی میں اس سے زیادہ قیمتی، مقدس اور بابرکت دن نہیں آیا لیکن عرفات کے میدان میں پہنچ کر اپنے کیمپ اور خیمہ ڈھونڈنا اور ان میں پہنچنا کتنا مشکل ہوتا ہے! یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جو وہاں پہنچ چکے ہوتے ہیں۔

ہمارے پرائیویٹ گروپ “العتیق ٹریولز اینڈ ٹورز” کے امیر قافلہ حافظ عتیق صاحب نے صبح دم پیغام بھجوا دیا تھا کہ “عرفات جانے کے لیے سب تیار ہو جائیں۔ سات بجے تک مکتب ستاون کی بس آجائے گی۔”سات بجے تک ہم سب وضو کرکے خیمے میں اپنے مختصر بیگ ہاتھوں میں تھامے تیار تھیں۔

اب سب کو بس کا انتظار تھا۔ ہمیں تاکیدا کہا گیا تھا کہ “سب لوگ صرف اتنا سامان ساتھ رکھیں جو نہایت ضروری ہو۔ اور آپ ہر جگہ آسانی سے اٹھا سکتے ہوں۔ باقی یہیں منی میں خیمے میں چھوڑ دیں۔ ان شاءاللہ پیچھے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔”

آخرت کاسفر بھی ایسا ہی ہوگا شاید ! وہاں تو انسان صرف اپنے اعمال کا وزن لے کر روانہ ہو گا۔ باقی سب مال و دولت ، اولاد ، گھر بار ، کنبہ قبیلہ ، تجارت ، دکانیں ، بزنس سنٹر ، مکان ، محل ، پلازے سب کچھ یہیں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ والبقیت الصالحات خیر عند ربک ثوابا و خیر املا۔ (سورۃ الکہف: 46) ترجمہ: ” اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے ہاں ثواب اور امید کے لحاظ سے بہترین ہیں۔”

تمام خواتین بس کے انتظار میں خیمے سے نکل کر باہر روڈ پر کھڑی ہو گئیں جہاں بس نے آنا تھا۔ ہمارے محرم حضرات پہلے سے وہاں موجود تھے۔

“طریق المشاۃ” پر مختلف بسوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ اور مکتب ستاون کے مختلف دوسرے گروپوں کے لوگ ان میں سوار ہو کر روانہ ہو رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے بسیں آتی رہیں اور لوگ ان پر سوار ہو کر جاتے رہے۔ ہم اپنی بس کے منتظر کھڑے تھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اس کی تشریف آوری بھی ہو گئی۔ 

چونکہ یہاں بسوں کا انتظام گروپ لیڈر کے بجائے معلم کی ذمہ داری تھا تو بس معلم کی طرف سے آئی تھی۔ دھڑا دھڑ اس پر مکتب ستاون کے دیگر لوگ بھی سوار ہونے لگے۔ ہمارے گروپ کے بہت سے افراد میرے رفیقِ حیات ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن صاحب سمیت نیچے رہ گئے۔ “لیڈیز فرسٹ” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خواتین کو پہلے بس میں چڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ہمارے ساتھ دوسرے گروپ کی کئی خواتین بھی سوار ہو گئیں۔

جب امیر قافلہ بس میں سوار ہونے لگے تو پیچھے رہ جانے والے افراد نے انہیں روک لیا کہ “آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر نہ جائیں، ہمیں بہت مشکل ہوگی۔ ابھی آپ کی موجودگی میں ہمیں بس کا اتنا انتظار کرنا پڑا ہے تو بعد میں نامعلوم کیا صورتحال ہو۔”

امیر قافلہ بار بار کہہ رہے تھے کہ”معلم کا نمائندہ (یعنی گائیڈ) آپ کے ساتھ موجود ہوگا۔”
لیکن پیچھے رہ جانے والوں کی منت سماجت رنگ لائی اور انہوں نے امیر قافلہ کو اپنے ساتھ روک لیا۔ معلم کا نمائندہ ہماری بس میں سوار ہو گیا اور امیر قافلہ پیچھے رہ جانے والے افراد کے ہمراہ رک گئے۔

بس روانہ ہوئی تو ہمارے دلوں میں سوار ہونے کی خوشی کے ساتھ پیچھے رہ جانے والے اپنے محرم حضرات کی فکر بھی موجود تھی کہ اللہ کرے کہ وہ بھی جلدی سے کسی بس میں سوار ہو کر ہمیں آن ملیں۔ایک صاحب نے اونچی آواز میں تلبیہ پڑھنا شروع کیا تو دیگر نے بھی ان کی آواز میں آواز ملائی اور بس میں تلبیہ کا خوبصورت ترانہ باآواز بلند گونجنا شروع ہو گیا۔ مرد اونچی آواز میں پڑھ رہے تھے جبکہ خواتین خود تک محدود رہنے والی بالکل دھیمی آواز میں پڑھ رہی تھیں۔
لبیک اللھم لبیک۔۔۔۔

یہ ہماری زندگی کا یادگار سفر تھا۔ اور تلبیہ پڑھنا بھی بڑا ایمان افروز اور یادگار تھا۔ 
دل ایک ہی راگ الاپ رہا تھا اور الفاظ زبان سے خود بخود ادا ہو رہے تھے۔ “حاضر ہیں اے اللہ! ہم حاضر ہیں۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احرام میں ملبوس زخمی حاجی
ایک موڑ مڑتے ہوئے اچانک ہم نے دور سے دیکھا کہ سڑک پر ایک شخص احرام باندھے ہوئے بے ہوش گرا ہوا ہے اور اس کا احرام خون آلود ہو رہا ہے۔ سڑک پار کرتے ہوئے اس کی  ٹکر کسی موٹر سائیکل یا بائیک سے ہوئی تھی۔ سبھی لوگ کہہ رہے تھے کہ اس کے زخم شدید ہیں کیونکہ اس کا احرام جگہ جگہ سے بہت زیادہ خون آلود تھا۔ اور اس کے قریب روڈ پر بھی جا بجا کافی خون بکھرا پڑا تھا۔ 

مکہ میں کم لوگ موٹر سائیکل اور بائیک وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ گاڑیوں کا استعمال وہاں بہت زیادہ ہے، لیکن ایام حج میں ہم نے کافی بائیکس بھی دیکھی تھیں۔ رش کی وجہ سے کئی امیر لوگ بائیکس خرید لیتے ہیں تاکہ چھوٹی سواری ہونے کی وجہ سے زیادہ مسئلہ نہ ہو۔ جہاں تھوڑی سی جگہ ہو، وہاں وہ اپنی سواری گھسا لیتے ہیں اور اپنا راستہ بنا کر گزر جاتے ہیں۔ 

تو میں بات کر رہی تھی اس زخمی حاجی کی جس کا احرام بہت زیادہ خون آلود تھا۔ میں نے چلتی گاڑی میں سے زخمی حاجی کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی لیکن اس کا میرے دل پر نہایت گہرا اثر ہوا تھا۔ معلوم نہیں کس ماں کا جگر گوشہ تھا؟ کس عمر کا انسان تھا؟پتہ نہیں اسے کہاں کہاں چوٹیں آئی تھیں؟بعد میں وہ زندہ رہا بھی یا نہیں؟

خواتین ویسے ہی رقیق القلب ہوتی ہیں اور آج تو دل پہلے ہی بےحد گداز ہو رہے تھے۔ سبھی خواتین بعد میں اس زخمی کا تذکرہ کرتی رہیں جس کا نام یا قومیت تک ہمیں معلوم نہیں تھی۔ صرف انسانیت کا رشتہ تھا اور “احرام” نے اس رشتے کو مزید قریب کر دیا تھا۔ بے اختیار لبوں پر دعائیں جاری ہو گئیں کہ “اے اللہ ! ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا ! ہمیں خیریت سے حج کے بعد اپنے بچوں، اپنے گھر والوں سے ملانا۔” آمین

ایک مردانہ آواز سنائی دی کہ “زخمی کا حج تو ابھی ہوا نہیں۔ حج تو وقوف عرفہ کا نام ہے اور وقوف کا وقت ظہر کے بعد شروع ہوتا ہے پتہ نہیں اس کو وقوف نصیب ہوگا یا نہیں؟”کہنے والے نے اس کی سیریس حالت کے پیش نظر شاید اسے مرحوم سمجھ لیا تھا۔

مجھے وہ حدیث یاد آ گئی کہ “اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔” جب حاجی حج کی نیت سے گھر سے نکلتے ہیں تو انہیں حج کا اجر ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ زخمی بندہ حاجی ہی ہے۔

احرام کی حالت میں فوت ہونے والے حاجی روز قیامت اسی خون آلود احرام والے کفن میں اسی حالت میں اٹھیں گے۔” لبیک اللہم لبیک۔۔۔” کی صداؤں کے ساتھ ان کا قبروں سے نکلنا ہوگا ۔ایسی موت حسرت و افسوس کی موت تو نہیں۔ یہ تو بڑی خوش قسمتی ہے ایک حاجی کی کہ رب کائنات نے اسے احرام کی حالت میں عرفہ کے دن اپنے پاس بلا لیا!!! اور بندہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر اپنے رب سے جا ملا!!!

پھر اسی رات کو ایک اور حاجی کی میت نے ہمارے دل دہلا دیے۔ مغرب کے بعد جب ہم  مزدلفہ جانے کے لیے روڈ پر آئے تو روڈ پر ایک سائیڈ پر خون میں لت پت احرام میں ملبوس ایک پاکستانی حاجی کی میت پڑی ہوئی تھی۔ پولیس اس کے پاس مسلسل موجود تھی۔ روڈ کراس کرتے ہوئے غالباً ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وہ گر پڑا تھا۔ روڈ پر گرنے کی وجہ سے وہ زخمی بھی ہو گیا تھا۔  فوراً پولیس نے اس کے ارد گرد جمع ہو کر اس کی میت کو ایک سائیڈ پر کر دیا تھا۔ 

سعودی پولیس کی کافی لمبی چوڑی کارروائی کے بعد ایمبولینس آئی اور پھر اس حاجی کی میت کو ایمبولینس میں ڈال کر لے گئی۔ ہمارے دلوں پر اس میت نے بھی غم و الم کے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔یقیناً وہ بھی شہید تھا۔ اور یہ بات ہمارے دلوں کے لیے تقویت کا باعث تھی۔ وہ بھی بڑا خوش قسمت تھا کہ “وقوف عرفہ” کے بعد گناہوں سے پاک صاف ہو کر خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا تھا۔

معروف ہندوستانی عالم دین مولانا سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ کی خواہش تھی اور وہ دعائیں کرتے تھے کہ”یا اللہ! مجھے تب موت آئے جب میں گناہوں سے پاک صاف ہوں۔”
اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی۔

1929ء میں حج سے واپسی پر بحری جہاز کے سفر میں فرشتۂ اجل نے ان کی روح قبض کر لی اور گناہوں سے پاک صاف حالت میں ان کا سفر آخرت شروع ہوا!!!سبحان اللہ!!!زہے نصیب!بلاشبہ ایسی اموات قابل رشک ہوتی ہیں!!!

اللہ تعالیٰ ہمارا بھی خاتمہ بالخیر فرمائے!!!ہمیں بھی گناہوں سے پاک صاف حالت میں اپنے پاس حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائے!!!آمین ثم آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قصہ ایک گم شدہ خاتون کا
عرفات کی طرف رواں دواں بس میں، میں اور مسز ثنا الطاف آخری چار والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہمارے ساتھ ایک دوسرے گروپ کی ایک درمیانی عمر کی سیدھی سادی پاکستانی خاتون بیٹھی ہوئی تھی جس نے غلطی سے اس بس کو اپنے گروپ کی بس سمجھ کر بنا دیکھے بس جلدی جلدی سوار ہونے کو ترجیح دی تھی۔ جب سب لوگ منٹوں میں بس میں بیٹھ گئے اور بھری بس چل پڑی تو خاتون کو اپنے ارد گرد لوگ دیکھ کر اپنی “غلطی جمع جلد بازی” کا اندازہ ہوا۔ ثناء اس کے ساتھ اور میں ثناء کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ 

اس نے وہیں واویلا مچانا شروع کر دیا۔ “میرے میاں اور گروپ کے لوگ کسی دوسری بس میں سوار ہو گئے ہیں اور میں غلطی سے اس بس میں بیٹھ گئی ہوں۔”
“فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہم چند منٹ میں ان شاءاللہ میدان عرفات میں پہنچ جائیں گے۔ وہاں آپ کے گروپ کے لوگ موجود ہوں گے۔ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گاڑی میں آگے آپ کے گروپ کے کچھ اور لوگ موجود ہوں۔”ہم نے اسے نرمی سے سمجھایا۔

خاتون کے گلے میں پہچان والا لاکٹ اور ہاتھ میں بھی پہچان کے لیے بریسلٹ ( کڑا ) موجود تھا جس کی وجہ سے اسے پریشانی نہیں ہونی چاہیے تھی مگر وہ “میرا کیا بنے گا؟”کے تفکر میں بری طرح مبتلا تھی۔
“کیا میرے گروپ کے لوگ مل جائیں گے؟ میں گم تو نہیں ہو جاؤں گی؟”اس نے پوچھ پوچھ کر ہمارے ناک میں دم کر دیا۔

میں نے اور ثناء نے اسے بہت سمجھایا اور بار بار سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔”کیا آپ کے پاس موبائل موجود ہے؟” میں نے اس سے پوچھا”جی ہاں۔”اس کا جواب اثبات میں تھا۔ “پھر آپ اپنے میاں کو فون کر لیں۔”میں نے اسے کہا۔
لیکن اس نے فون نہیں کیا۔ معلوم نہیں کہ اسے فون کرنا نہیں آتا تھا یا اس کے پاس بیلینس نہیں تھا یا اس کے پاس میاں کا نمبر نہیں تھا یا موبائل کی چارجنگ ختم تھی۔ بس اس نے سارا راستہ فون نہیں کیا۔کیوں نہیں کیا؟ واللہ اعلم۔

ہم اسے وقتاً فوقتاً موبائل پر اپنے میاں سے رابطہ کرنے کے لیے کہتے رہے۔ حتیٰ کہ اس کے نمبر بتانے پر اپنے موبائل سے کال کروانے کی آفر کرتے رہے۔ لیکن اس نے نہ تو نمبر بتایا اور نہ ہی خود اپنے موبائل سے کال کی۔

پھر تنگ آکر ہم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور خود تلبیہ پڑھنا شروع کر دیا لیکن وہ خاتون چپ ہو جانے والے قبیل (category) سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ بار بار پریشان ہو کر وہ ہمیں بھی پریشان کرتی رہی۔

“آج عرفہ کا دن ہے اور آج تلبیہ پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہوتی ہے۔ یہ دن دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ آپ بھی تلبیہ پڑھیں۔ عرفات پہنچ کر ہم آپ کو آپ کے گروپ کے لوگوں کے پاس خود چھوڑ آئیں گے۔”میں نے اسے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے بار بار تلبیہ پڑھنے کی ترغیب دلائی۔ 

لیکن اس نے تلبیہ پڑھنا تھا، نہ پڑھا۔ البتہ ارد گرد کے کئی لوگوں نے یہ سن کر تلبیہ پڑھنا شروع کر دیا۔  “پتہ نہیں اسے تلبیہ کا مطلب بھی آتا ہے یا نہیں؟”میں نے سوچا۔”تلبیہ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسے بتا دیں۔ شاید اسے اس کا مطلب پتہ ہی نہ ہو۔”میں نے مسز ثناء سے کہا۔
اور واقعی اس عورت کو معلوم نہیں تھا کہ  تلبیہ کسے کہتے ہیں؟ 
“لبیک اللھم لبیک۔۔۔” پڑھیں۔ اسے ہی تلبیہ کہتے ہیں۔ آج کا دن اور اس کی یہ گھڑیاں بہت قیمتی ہیں اور یہ دن بار بار نہیں آئےگا۔”ثناء نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ہمیں اس خاتون کے ساتھ مغز ماری کرتے ہوئے مسلسل احساس ہو رہا تھا کہ یہ وقت کتنا قیمتی ہے؟ اور یہ بھی کہ کہیں ہمارا وقت “شیطانی اغوا” کا شکار تو نہیں ہو رہا؟ لیکن اس خاتون کی پریشانی کی فکر بھی دامن گیر تھی۔
وہ خاتون ضدی بچے کی طرح “میں نہ مانوں” والا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔  “میرے میاں اور گروپ کے لوگ کسی دوسری بس میں سوار ہو گئے ہیں اور میں غلطی سے اس بس میں بیٹھ گئی ہوں۔” وہ مسلسل یہی کہہ رہی تھی۔ 

باجی! آپ پریشان نہ ہوں۔ لبیک اللھم لبیک ۔۔۔ پڑھیں۔ آج کا یہ دن بہت قیمتی ہے اور زندگی میں یہ دن دوبارہ نہیں آئےگا۔ آپ کا گروپ وہاں پہنچ کر آپ کو مل جائے گا۔” ہماری مغز ماری دیکھ کر ارد گرد کی خواتین نے بھی اسے سمجھایا۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔”کیا میں گم تو نہیں ہو جاؤں گی؟” وہ رونے والے لہجے میں ابھی بھی بار بار کہہ رہی تھی۔

“آپ کے گلے میں پہچان والا لاکٹ موجود ہے۔ آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟ آپ کے پاس موبائل فون بھی موجود ہے۔ اگر آپ اپنے میاں کو فون نہیں کر رہیں تو آپ کے میاں یا گروپ کے دوسرے لوگ خود آپ سے رابطہ کر لیں گے۔” ثناء نے اسے پھر سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ہم نے اپنے آپ کو بڑے حوصلے سے کنٹرول کیا ہوا تھا۔

ہم کئی وجوہات کی بنا پر مسلسل اس خاتون کو تسلیاں دیتے،  سمجھاتے اور اس کا ساتھ دیتے رہے تھے۔سب سے پہلے یہ کہ ہم انسانی ہمدردی سمجھ کر اسے حوصلہ اور تسلیاں دیتے رہے۔ کیونکہ خدانخواستہ کبھی ہمارے ساتھ بھی اس جیسا معاملہ پیش آ سکتا تھا۔ 

دوسرا یہ کہ ہم آج یوم عرفہ کو اسے سختی سے منع کر کے یا ڈانٹ ڈپٹ کرکے اس کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتے تھے۔ مبادا کہ اس تکلیف میں اس کے دل سے خدا نخواستہ کوئی بددعا نہ نکل جائے۔

تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہماری شاید کوئی آزمائش تھی کہ مصیبت میں مبتلا اس خاتون کے ساتھ ہمارا رویہ کس طرح کا ہوتا ہے؟لہذا ہم نے اسے بڑے حوصلے اور صبر و تحمل سے deal کیا۔ 

بس کبھی چلتی، کبھی رکتی چیونٹی کی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے رینگ رہی تھی۔ اگرچہ منی سے عرفات تک حاجیوں کے لیے چلنے والی ٹرین نے جہاں حاجیوں کے لیے سہولت مہیا کی ہے، وہاں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ سڑکوں پر اب بسوں کے رش میں پہلے سالوں کی نسبت کمی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی بسوں کے رش آور ٹریفک جام ہونے کا وہ برا حال ہوتا ہے کہ الامان!عام روٹین میں پندرہ بیس منٹ میں طے ہو جانے والا فاصلہ ایام حج میں کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔

ادھر یہ معاملہ تھا کہ ہم بس میں بیٹھے میدان عرفات پہنچنے کے لیے بے چین تھے ، ہماری بے قراری اپنے عروج پر تھی ، دوسری طرف اس “گمشدہ” خاتون نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ جس کا علم اب بس میں موجود تقریباً تمام لوگوں کو ہو چکا تھا۔

“آپ پریشان نہ ہوں۔ اب موبائل کے دور میں لوگ گم نہیں ہوتے۔ یہ گزشتہ برسوں کی بات تھی جب لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو کر کھو جاتے تھے۔ آپ کے پاس تو موبائل موجود ہے۔ آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟” مسز ثناء نے اسے پھر سمجھایا۔
“اور ہمیں بھی پریشان کر رکھا ہے” قریبی سیٹ پر بیٹھی ایک اور خاتون نے آواز لگائی۔سچی بات ہے کہ اس خاتون نے مسلسل بول بول کر ہمیں عاجز کر دیا تھا۔ 

“اس خاتون کے مسئلہ کا حل اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ کر تلبیہ پڑھیں۔ ” میں نے مسز ثناء سے کہا۔
لیکن وہ خاتون نہ خود تلبیہ پڑھتی تھی اور نہ ہمیں پڑھنے دیتی تھی۔ اگرچہ ایسی حالت میں پریشانی فطری بات ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی دکھائی دے رہی ہو تو صبر و تحمل کا دامن تھامنا چاہیے مگر شاید شیطان اس پر غالب آکر اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلبیہ سے بے پروا کر چکا تھا۔ نعوذباللہ من ذلک۔

پورا راستہ اس خاتون نے ہمیں لاچار کیے رکھا۔ ہم نے جیسے تیسے ممکن ہوا، تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 

بعد میں جب ہم بس سے اترے تو وہ خاتون جنہوں نے سارا راستہ “میں گم تو نہیں ہو جاؤں گی؟” کی پکار رٹو طوطے کی طرح جاری رکھی تھی۔تو اللہ کا شکر ہے کہ اسے اترنے کے بعد اپنے گروپ کے لوگ فوراً مل گئے اور وہ ان سے ڈار کی بچھڑی کونج کی مانند جا ملیں۔
جلد ہی عرفات کے بورڈ نظر آنے لگے۔ اور عرفات کی حدود شروع ہو گئیں۔ ہماری بس ٹریفک کے اژدہام میں کبھی رک جاتی، کبھی آہستہ آہستہ چلتی رہتی، کبھی اس کی رفتار کچھ تیز ہو جاتی۔  ہمارا خیمہ “طریق سوق العرب” پر تھا۔ اس لیے کبھی رکتے، کبھی چلتے بس کا سفر جاری رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں