حج بیت اللہ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب

حج : عبادات کا حسین امتزاج

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت سلطانہ

ادا اور عطا، اور حسن اور عشق کا حسین امتزاج ہے حج کعبۃ الله۔
اور حج کعبۃ الله کی کہانی کا ایک ایک موڑ ابتلا و عطا ” تسلیم ورضا، اخلاص و ایثار ، اور وفا و عشق کا ایک مکمل باب ہے۔
خالق کائنات کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چن لینا ، عطا ۔ ۔ ۔ !!
خلیل الله کا اپنے رب کے حکم پر سر اطاعت خم کرنا اور اپنی فیملی کو بے آب و گیاہ وادی میں تن تنہا چھوڑ آنا ، ادا ۔ ۔ ۔ !!
حاجرہ علیہا السلام کا پوچھنا "یہاں کیوں چھوڑے جا رہے ہیں” اور پھر اپنے شوہر نامدار کے جواب پر سر تسلیم خم کرنا، حسن ۔ ۔ ۔ !!
ابراہیم علیہ السلام کا فیملی کی جدائی برداشت کرنا، عشق ۔ ۔ ۔ !!
ننھے اسماعیل کا پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑنا، ادا ۔ ۔ ۔ !!
بی بی حاجرہ علیہا السلام کا اس پیکرِ تسلیم و وفا کا صفا و مروہ کا چکر کاٹنا کہ شاید اب کے پانی مل جائے، حسن ۔ ۔ ۔ !!
اور پھر اسماعیل علیہ السلام کے قدموں میں پانی کا چشمہ ابل پڑنا، عطا ۔ ۔ ۔!!
اور پھر اسماعیل کی ماں کا پانی کے گرد ہاتھ سے باڑھ باندھنا اور زم زم کہنا، ادا ۔ ۔ ۔!!
اور پھر وہاں بستی آباد ہو جانا، عطا ۔ ۔ ۔!!

ہاں ۔ ۔ ۔ مگر سوچ اور پرکھ کا ایک اور انداز بھی ہے۔
بقول شاعر ،

بستی بسانا کھیل نہیں
بستے بستے بستی ہے

کہاں ہیں علمائے سوشیالوجی اور اینتھروپولوجی ؟
کیوں نہیں تذکرہ کرتے اپنی گفتگو میں، اپنی ریسرچ میں اس اولو العزم خاتون کا جس نے تن تنہا صحرا میں پھول کھلا دیئے ۔ ۔ ۔

کہاں ہیں؟
عورت کی آزادی اور empowerment کے ٹھیکیدار۔ کیا ساری عمر اپنے نعروں میں گھٹیا سوچ ہی سے جان ڈالنے کی کوشش کرو گے۔ یا تاریخ سے روشن مثالیں لے کر دیے سے دیا بھی جلاؤ گے کبھی ۔ ۔ ۔ ؟

سفر حج سفر عشق ہے۔ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی روح جھوم اٹھے ، دل کے اندر محبت کے چشمے ابل پڑیں ، رونگٹا رونگٹا محبوب کی اطاعت و وفائے عہد کے احساس سے معمور ہو جائے اور پھر زبان پر اقرار آجائے۔

آقا ایک بزنس مین ہوں۔ جانے کب کب ، خیانت کا مرتکب ہوتا رہا۔ معاف فرما دے، وعدہ رہا اب کے واپس جا کر پوری عمر کبھی بے ایمانی نہیں کروں گا۔ یا مالک الملک چاروں طرف تیری نافرمانی ہو رہی ہے۔ غلام سے حقِ بندگی ادا نہ ہو سکا۔ توفیق دے اب کہ یہاں سے وہ طاقت لے کر جاؤں کہ گمراہوں کے جنگل میں حق کا گواہ بن کر کھڑا ہو جاؤں۔ بھلے مجھے آگ کے الاؤ میں ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے۔ اعتراف، اقرار، آنسو، آہ یہ ادائیں ہیں بندگی کی ادائیں ۔ ۔ ۔ !!

اور پھر زبان پر نغمہ لبیک الھم لبیک…… یوں جاری ہونا کہ انگ انگ محبوبِ حقیقی کے تصور میں ڈوب جائے کہ میں اسی کا غلام ہوں جو چاہے ڈیوٹی لگا دے میری، میں حاضر ۔ ۔ ۔
یہ ہے ادائے عشق ۔ ۔ ۔ ! !

اب اس عبد کامیدان عرفات میں گریہ و زاری کرنا تمام خطاؤں کی معافی طلب کرنا ، تو ملائک عملی مشاہدہ کرتے ہیں ان اللہ غفور الرحیم کا۔
الله الله ،
ایک طرف خطا ہی خطا
دوسری طرف عطا ہی عطا

یہ حاجی جب مِنٰی میں قربانی پیش کرتا ہے تو ،ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کی روح اس کے اندر سرایت کر چکی ہوتی ہے۔
اب واپس عملی زندگی میں آ کر یہ حاجی کیسے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے ؟کیسے بزنس مین عیاری و بد دیانتی کا مظاہرہ کر سکتا ہے ؟ کیسے اپنے جینے مرنے کا مقصد کچھ اور طے کر سکتا ہے سوائے رب کی رضا کے ۔ ۔ ۔ ۔؟

افسوس ۔۔۔۔ !!
کہ آج منبر و محراب سے حج کو محض پوجا پاٹ اور چند رسوم کی ایک مشق کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔
آج کا سکالر، عالمِ دین، موٹیویشنل سپیکر جس دن ادا و عطا حسن و عشق کے حسین امتزاج کے جادو اثر ثمرات و فیوض و برکات کو زبان سے بھی اور اپنی body language سے بھی بیان کرنے لگے گا اس دن امت مسلمہ کے اندر بیداری کی لہر دوڑ جائے گی اور یہ امت خود ویران پڑے کعبۃ الله کو آباد کر لے گی ان شاءالله۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں