عصمت اسامہ
بیت اللہ شریف ، امت مسلمہ کی عبادت کا مرکز و محور ہے۔ ہرسال دور دراز سے لوگ یہاںحج و عمرہ کی ادائیگی کےلئے آتے ہیں۔ ذوالحجہ کا مقدس مہینہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رب سے وفا شعاری کی یاد دلاتا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے فرمانبردار بیٹے کے اسوہ کی روشن مثال ہے بلکہ یہ حضرت ہاجرہ جیسی عظیم مومن بیوی اور ممتا کی گہری تڑپ اور سعی کی علامت بھی ہے۔
یہ عالی شان گھرانہ ، جس نے کعبة اللہ کی تعمیر و آبادکاری کا شاندارکام سر انجام دیا ، غور و فکرکی دعوت دیتا ہے کہ اس گھرانے کی بنیادکس پر تھی؟حضرت سفیان بن عینیہ جیسے بزرگ کہتے ہیں کہ :
” غور و فکر اصل میں حصول رحمت کی کنجی ہے۔“
موجودہ دور میں جب مغرب کی سیکولر ، بے دین تہذیب ہرطرف یلغارکر رہی ہے ، کبھی ” گھریلو تشدد بل“ کی صورت میں ہمارے خاندانی نظام پر حملہ آور ہو رہی ہے توکبھی ٹی وی ڈراموں میں غیر اخلاقی رویے دکھا کے ہماری اقدار و روایات کو پامال کیا جا رہا ہے، رشتے ناتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، صلہ رحمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے،گھر اور گھرانے ، آندھیوں کی زد میں ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاجرہ کاگھرانہ ہمیں مضبوطی و استحکام بخش سکتاہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ، اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور مخلص بندے تھے جنہوں نے شرک سے آلودہ ماحول میں توحیدکی شمع جلائی کہ پالنے والا داتا تو بس ایک ہی ہے، وہی مشکل کشا ہے، وہی مولا و مالک ہے۔ اس نعرہ توحیدکی پاداش میں وہ اپنی ہی بستی میں اجنبی ٹھہرے۔ بادشاہ وقت نے انھیں ختم کرنے کےلئے آگ میں ڈالا مگر وہ ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے۔
رب العالمین نے انھیں اپنا دوست ( خلیل اللہ ) کہا ، کہیں ” ابراھیم الذی وفیٰ “ ، ابراہیم تو وہ تھا جس نے اپنے رب سے وفا کا حق اداکردیا، کے سنہرے خطاب سے نوازا اور کبھی انھیں حنیف یعنی یکسو (focused ) کا ٹائٹل دیا۔ ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ جو دراصل بادشاہ مصرکی بیٹی تھیں، شہزادی ہونے کے باوجود انتہائی متقی و پارسا تھیں۔ ایمان و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھیں۔
نکاح کے بعد شیرخوار بچے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو گود میں لئے، اپنے شوہر کے کہنے پر شام کے سرسبز و شاداب علاقے سے مکہ جیسے بے آب و دانہ علاقے کی طرف ہجرت فرمائی۔ دونوں میاں بیوی اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ نبھا رہے تھے۔ وہ ایک ہی مشن کے ساتھی تھے : اللہ کے دین کے نفاذکا مشن ! ان کے پیشِ نظر دنیاوی خواہشات نہیں تھیں بلکہ رب کی رضا تھی۔
جب وہ مکہ پہنچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں ایک درخت کے نیچے بٹھا دیا اور خود انھیں چھوڑ کر جانے لگے، اس وقت حضرت ہاجرہ نے صدا دی۔ معلوم ہوا کہ بیوی اپنے شوہر سے پوچھ سکتی ہے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ قرآن پاک میں ان کے الفاظ محفوظ ہیں :
” اے ابراہیم،آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ نہ یہاں کوئی آدمی ہے نہ کوئی چیز۔ “
کئی بار پوچھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا تو آخر بولیں کہ کیا اللہ نے آپ کو ایسا ہی حکم دیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا : ہاں !
( شوہر نے بھی بیوی کے سوالات پر اعتراض نہیں کیاکہ سوال کیوں پوچھتی ہو؟ )
تب حضرت ہاجرہ نے کہا : ” ہمارا رب ہماری حفاظت فرمائے گا ، ہم کو ضائع نہیں کرے گا “( بحوالہ بخاری شریف)۔
حضرت ہاجرہ نے بھی اپنے شوہر پر اعتماد رکھا کہ وہ اللہ کے کہنے پہ کہیں جارہے ہوںگے۔ ( آج کل کی بیگمات کی طرح شک شبہے میں نہیں پڑیں ، یہ میاں بیوی کے باہمی اعتماد کی خوبصورت مثال ہے )۔ اپنے بچے کو لے کر واپس آ جاتی ہیں اور جب تک مشکیزے میں پانی ہے ، وہیں گزارا کرتی ہیں لیکن آخر پانی ختم ہوگیا اور بچے نے رونا شروع کردیا
اب ماں کا امتحان شروع ہوگیا۔ وہ خود بھی تو پیاسی ہوں گی لیکن اسی حالت میں بچے کے لئے پانی کی تلاش میں ایک پہاڑی صفا سے دوسری پہاڑی مروہ تک دوڑتی ہیں۔ گرم علاقہ ہے ، بچہ بھی اکیلا پڑا ہے ، کتنا سخت وقت ہے۔ اگر وہ چاہتیں تو وہیں بیٹھی روتی رہتیں لیکن نہیں ، ماں جس کے پائوں تلے جنت ہے ، اس کے قدم ، اولاد کی خاطر ، تادم حیات گردش میں ہی رہتے ہیں۔ اولاد کبھی ماں کی محنت مشقت کا حق ادا کر ہی نہیں سکتی۔ وہ ایمان جو ان کا سرمایہ تھا ، اس نے صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔
اسی طرح ماں دوڑتی رہی ، آخرکار رحمت الہی جوش میں آئی ۔ ننھے اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے پانی کاچشمہ ، آب زم زم پھوٹ پڑا ۔ حضرت ہاجرہ نے بچے کو بھی پانی پلایا اور خود بھی سیراب ہوکر پیا۔ رب العالمین کو ممتا کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اسے لازم کردیا۔ اب جو بھی اللہ کے گھر جائے گا، ایک ماں کو لازمی یادکرے گا، مرد ہو کے عورت کے نقش قدم پرچلے گا تب اس کا حج عمرہ مکمل ہوگا !
یہ ہے دین اسلام کی خوبصورتی اور ویمن ایمپاورمنٹ کی ایسی مثال جوکسی اور دین میں دکھائی نہیں دیتی۔
دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ اور فرزند کو رب کے بھروسے پہ چھوڑ کر چلے تو گئے لیکن دھیان ابھی بھی ان کی طرف ہے۔ آخر اکیلی خاتون اور بچہ ایک ویرانے میں چھوڑ کے گئے ہیں۔ راستے میں رب العالمین سے التجائیں کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ان کے الفاظ محفوظ ہیں۔کیسی دعا ہے جو اللہ نے قبول فرمالی۔ بہت پیاری دعا ہے :
” اے میرے پروردگار، میں نے اپنی اولادکو ایک بے آب و دانہ جگہ میں بسایا ہے ، اے میرے رب تاکہ یہ نمازقائم کریں اور ان کی گزران کو ان کے لئے ایسا کر دے کہ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کو طرح طرح کے پھل کھلاتا رہ ، تاکہ وہ تیری شکر گزاری کریں۔ “ (سورہ ابراہیم ، آیت 37)
مکہ میں آب زم زم کے چشمے کے اوپر پرندے کو پرواز کرتے دیکھ کر ایک راہرو قبیلہ وہاں پانی کی تلاش میں آیا اور یوں شہر مکہ آباد ہوا۔ حضرت ہاجرہ نے اپنے بچے کی تن تنہا پرورش اور تربیت کی۔ وہ جو علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
یہ فیضان ِنظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کوآداب ِفرزندی؟
تو درحقیقت آداب ِفرزندی سکھانے والی، مومنہ ماں کی آغوش تھی۔ بے سر و سامانی کے عالم میں اپنی اور بچے کی بقا کی جنگ لڑی اور کبھی بچے کے سامنے والد کے بارے میں گلہ شکوہ نہیں کیا کہ وہ تو ہمیں مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ گئے تھے۔ بلکہ بچے کی اچھی تربیت کی ، اسے فرمانبرداری سکھائی۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے اپنی بے مثال ایثار و قربانی کی زندگی میں اللہ کاگھر بسایا۔ وہ وادی مکہ جہاں کسی انسان کا نام ونشان تک نہیں تھا ، آج پوری دنیا کے مسلمانوں کےلئے بیت معمور ہے۔ کسی عالم دین کا قول ہے :
” اگر تم اپنے آپ کو رب العالمین کےلئے یکسو کر لو تو وہ آپ کو اپنا دوست ( خلیل) بنالے گا اور اسماعیل جیسی اولاد تحفے میں عطا فرمائے گا !“
سلام ہے ابراہیم علیہ السلام و ہاجرہ کے گھرانے پر !
آج اگر ہم بھی اپنے گھروں کو آباد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان روشن ہستیوں کی پیروی کرنا ہوگی۔