قرۃ العین
ذوالحجہ کے مبارک ایام آتے ہی ذہن اس ہستی کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے جس کے اسوہ کی پیروی کا حکم ہمارے رسول اور ان کے صحابہ کو بھی دیا گیا ، رب کے لئے جینا مرنا اور اسی کے لئے ہر طرح کی قربانی جن کا شیوہ تھا ، جن کو دنیا کی ہر محبت میں آزمایا گیا اور وہ ہر آزمائش میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ٹھہرے ، جنھوں نے ہر شے کو رب کے راستے میں لٹا کر ثابت کر دیا کہ
مومن تو وہ ہیں جن کا رب ان کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے تبھی جن پر انعام ہوا ، تمام امتحان میں کامیابی کی سند عرش سے اتری ، جن کو خالق کائنات کی جانب سے خلعت خاص عنایت ہوئی ، جن کی ملت پر ہم سب ہیں ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔۔۔جن کو خالق نے پروانہ عطا کیا کہ آپ نے وفا کا حق ادا کر دیا ہے۔
ان کی بڑی بڑی باتیں اور قصے ہم کسی دیو مالائی داستان کی طرح سنتے ہیں اور خود کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ تو انبیاء کے جد امجد رب کے چنیندہ اور برگزیدہ تھے ۔۔۔ کہاں ہم کہاں وہ ۔۔۔ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے وہ اولوالعزم پیغمبر تھے جو اپنے ایمان پر پہاڑ جیسی استقامت رکھتے تھے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نہ صرف ابراہیم علیہ السلام بلکہ ان کا پورا گھرانہ ہی استقلال کا پیکر تھا۔
عزیمت کی ان کٹھن راہوں میں ان کی ہم سفر حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی استقامت کی گواہی دینے کے لئے تو تاقیامت صفا و مروہ کی سعی زندہ رہے گی جہاں اہل بصیرت تصور کی آنکھ سے ہزاروں سال پہلے ان پہاڑوں کے درمیان تڑپتی اور دوڑتی ممتا کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
وہ ایک عورت تھیں ۔۔۔ عورت جو نزاکت کا دوسرا نام ہے ، جو جذبات سے گندھی ہوئی ہے ، جو زیوروں میں پالی جاتی ہے لیکن اس عظیم عورت نے تپتے صحرا کو اپنا بچھونا اور نیلگوں آسماں کو اپنا اوڑھنا بنایا ۔ اپنے رب اور شوہر کی اطاعت میں صبر و استقلال کی وہ عظیم مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی اور ثابت کر دیا کہ رب کی بندگی ہر نفس انسانی کی استطاعت میں ہے۔
خالق پر توکل ، جرات و ہمت اور راضی برضائے رب کی اعلیٰ مثال وہ کنیز مصر جس کی پیروی تاقیامت بڑے بڑے بادشاہ کرتے رہیں گے ۔۔۔۔ اتنا جاننا تھا کہ اس ویرانے کو ان کے رب نے ان کا مقدر کیا ہے بس پھر نہ کوئی شکوہ نہ کوئی واویلا ، نہ کوئی قیل و قال ، تن تنہا صحرا کی وحشت کو گلے لگایا اور بناء کسی مادی وسیلے کے اپنے رب کے بھروسے ریت کے ذروں کو اپنا ہمراز بنا لیا۔
آج کی ناز و نعم میں زندگی گزارنے والی عورت کے لئے اس عزیمت کا تصور بھی محال ہے ۔ اپنے شوہر سے محض ذہنی ہم آہنگی کی کمی کا رونا رونے والی عورت ہاجرہ کی ہمت کا اندازہ کر بھی کیسے سکتی ہے۔
مادی ضرورتوں کو ایک طرف رکھیں کیا ان کو جذباتی سہارا درکار نہ تھا ، کیا انہیں کسی غم گسار کی ضرورت نہ تھی ، تنہا اور تہی دامن ایک بچے کی پرورش کیسی جان گسل رہی ہو گی ، لیکن وہ ٹوٹی نہیں ، بکھری نہیں اپنی ذمہ داری نبھاتی چلی گئیں نہ شوہر پہ غصہ کہ بے سروسامان اپنے بچے کے ساتھ ریگستان کے حوالے کرکے کہاں چلتے بنے اور نہ رب سے شکوہ کہ کس آزمائش میں ڈال دیا
۔۔۔اور امتحان یہاں ختم نہ ہوا ۔۔۔۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
۔۔۔ جب فصل تیار ہوئی تو اس کو کاٹنے کا حکم آگیا ۔۔۔ شیطان نے سوچا اب تو وہ اس عورت کے عزم کو ہلا لے گا لیکن آفرین ہے ہاجرہ علیہا السلام پر جنھوں نے وہاں بھی رب کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔۔۔۔
اور یوں پورا گھرانہ عزیمت کی بے نظیر مثال بن گیا۔
اپنی زندگی میں ذرا سی اونچ نیچ کو روا نہ رکھنے والی اور ہر وقت اپنی قسمت پر نالاں عورت کے لئے کتنے سبق موجود ہیں اس سیرت میں۔
رب کی رضا میں راضی رہنا ، اس کے فیصلے بھلے ہی سمجھ نہ آئیں پھر بھی ان پر کامل اعتماد کہ جو الحکیم نے میرے لئے پسند کیا اسی میں میری بھلائی ہے ، آہنی عزم وہمت ، بہادری ، صبر وشکر ، شوہر کی اطاعت ، توکل علی اللہ اور سعی مقدور ۔۔۔۔۔
بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام کا پورا گھرانہ اس بات کا گواہ ہے کہ جو جنت کے متمنی اور راہی ہوں وہ اس فانی دنیا کی ہر رکاوٹ کو مسکراتے چہروں کے ساتھ پار کرتے ہیں کیونکہ ان کی اعلیٰ منزل ان کے سامنے بانہیں پھیلائے کھڑی ہے۔