ٹوٹا ہوا گھر

بربادیوں کے مشورے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

"ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔” آدھی رات کے بعد وقفے وقفے سے ہونے والی اس ہلکی سی دستک نے ابو جی کو ہوشیار کر دیا۔ وہ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھے۔

سخت تھکن کے باوجود وہ سونے کے بجائے کافی دیر سے عاصم کے انتظار میں ٹہل رہے تھے۔ چند دنوں سے وہ بیٹے کے بدلے اور بگڑے انداز نوٹ کر رہے تھے۔

"عاصم بیٹے ! آپ اس وقت رات کے دو بجے کہاں سے آرہے ہیں؟” ابو جی نے گیٹ کھولتے ساتھ بیٹے سے کڑے تیوروں سے پوچھا۔ غصے کے باوجود وہ گفتگو میں رکھ رکھاؤ اور ادب آداب کا خیال رکھتے تھے۔

"ابو جی! میں زین کے گھر میں اس کے ساتھ پیپروں کی تیاری کر رہا تھا۔”عاصم نے ڈھٹائی سے جھوٹ بول دیا کہ وہ پڑھ رہا تھا۔ وہ نویں کلاس کا طالب علم تھا اور اس کے بورڈ کے امتحانات بالکل قریب تھے۔

"پڑھائی اور آپ دونوں؟
ہوں! اکٹھے ہوئے ہوں گے وہاں کلاس کے نکمے اور آوارہ لڑکے۔ کیا خاک پڑھا ہوگا وہاں جمع ہوکر۔
موبائل اور انٹرنیٹ پر نامعقول فلمیں دیکھنے اور وقت ضائع کرنے کے بہانے ہیں بس۔” ابو جی نے غصے سے ڈانٹے ہوئے کہا۔ وہ زین کی ذہنی سوچ، غلط حرکتوں اور اول جلول حلیے کے علاوہ اس کے گھر کے کھلے ڈلے اور لبرل قسم کے ماحول کی وجہ سے عاصم کی زین سے دوستی کے مخالف تھے۔

"ابو جی! میں نے آپ سے زین کے گھر جانے کے لیے اجازت مانگی تو تھی؟” بیٹے نے بدتمیزی سے کہا

” میں نے اجازت نہیں دی تھی بلکہ آپ کو سختی سے منع کر دیا تھا۔” باپ نے غصے سے کہا۔پھر اس کی والدہ سے مخاطب ہوئے جو باپ بیٹے کی اونچی اونچی باتیں کرنے کی آوازیں سن کر وہاں آگئی تھیں۔

یہ ان دونوں کے لیے حیران کن بات تھی کہ عاصم جیسا تمیز دار بیٹا آج باپ سے اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ گھریلو رکھ رکھاؤ اور اچھی تربیت کی بناء پر وہ بھی مہذب اور شائستہ مزاج لڑکا سمجھا جاتا تھا۔ بس پڑھنے میں لاپرواہ تھا۔

"کیا اسے میں نے شام کو زین کے گھر جانے اور وہاں کمبائن سٹڈیز سے منع نہیں کیا تھا؟ آتا جاتا کچھ ہے نہیں دونوں کو۔ ایک جیسے نکمے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے نالائق بھی اکھٹے کر لیتے ہیں۔ بڑا پڑھنا ہوتا ہے انہوں نے۔”ابو جی نے جلال میں آ کر کہا۔

"جی۔ آپ نے منع کر دیا تھا۔” ماں نے باپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"اتنا وقت ضائع کرکے آرہے ہیں آپ۔ وقت دیکھا ہے کتنا ہو رہا ہے۔ بورڈ کے امتحان سر پر ہیں اور آپ کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ ایک ہفتے سے میں آپ کو منع کر رہا ہوں کہ زین کے گھر جانے کے بجائے گھر بیٹھ کر تیاری کیا کریں۔” ابو جی نے عاصم کا بگڑا مزاج دیکھ کر قدرے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہا۔

"ابو جی! بہتر ہے کہ آپ میرے معاملہ میں مزید نہ بولیں۔ اور امی جان! آپ بھی ابو کا ساتھ نہ دیں۔” عاصم نے غصے سے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟ ہم تمہارے ماں باپ ہیں۔ دنیا میں تمہارے سب سے زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ اگر ہم تمہاری فکر نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟” امی جان نے اپنے غصے کو بدقت کنٹرول کرکے زین کو نرمی اور پیار سے سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔

"اب نیا قانون نافذ ہو چکا ہے آپ نے مزید سختی کی تو میں پولیس کو فون کرکے بلا لوں گا۔ قانون آپ کو مجھ پر سختی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔” بیٹے نے چیختے ہوئے انگلی اٹھا کر نہایت سختی اور بد تمیزی سے کہا۔ جیسے وہ باپ سے نہیں بلکہ کسی کمتر ملازم سے بات کر رہا ہو۔
دونوں ہکا بکا رہ گئے کہ یہ ہمارا "کل کا فرمانبردار” بیٹا آج ہم سے کس طرح بات کر رہا ہے!

"کون سا قانون؟” امی جان نے جانتے بوجھتے انجان بنتے ہوئے بمشکل پوچھا.
"گھریلو تشدد بل اور کون سا قانون؟ جو چند دن پہلے پاس ہو کر پاکستانی قانون کا حصہ بن چکا ہے۔” عاصم نے ہاتھ لہرا لہرا کر اور نہایت چبا چبا کر کہا۔

امی جان اور ابو جان دونوں اس کا زہریلا لہجہ اور اس کے actions دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ پھر نوجوان بیٹے کی اس بد تمیزی اور بد لحاظی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو گئے کہ "گھریلو تشدد بل” پاس ہونے کے بعد اب اسی بات کا ڈر تھا۔

بیٹا ان کو خاموش دیکھ کر کمرے میں چلا گیا اور دھاڑ سے دروازہ بند کر لیا۔ پیچھے ماں باپ دونوں چند ساعتیں بند دروازے کو دیکھتے رہ گئے۔ پھر تھکے ہوئے جواری کی مانند انہوں نے اندر اپنے بیڈ روم میں قدم بڑھا دیے۔

وہ مجبور ہو کر خاموش تو ہو گئے تھے لیکن عمر بھر کی محنت رائگاں جاتے اور اپنے بیٹے کو ضائع ہوتے کیسے دیکھ سکتے تھے!

دونوں وضو کرکے جائے نماز بچھا کر اللہ رب العزت کے حضور ہاتھ اٹھا کر عاصم کی ہدایت اور تڑپتے بلکتے دل و دماغ کے ساتھ اس "تباہی بل” کے خاتمے کی دعائیں مانگنے لگے۔ جو خاندانی نظام اور معاشرہ دونوں کی تباہی و بربادی کا پیشہ خیمہ تھا۔

جو آزاد و خود مختار خواتین کے لیے ان کے نام نہاد لیکن غیر اسلامی حقوق دلانے کا باعث تھا۔
جو شرم و حیا کے خاتمے اور جوان نسل میں مزید بے حیائی و فحاشی پھیلانے کا مؤجب تھا۔

قرآن وسنت کے مخالف اور اس غیر فطری بل کے خلاف آواز اٹھانا بلکہ اس کا خاتمہ ضروری ہے۔
وگرنہ اس کے نفاذ کے بعد ان جرائم کے مہلک اثرات معاشرے میں صدیوں بعد بھی نئی نسلوں پر مرتب ہوتے نظر آتے رہیں گے۔
نعوذباللہ من ذلک۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں