فیض اللہ خان :
جن کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں اتحادی اور امریکہ افغانستان چھوڑ کر جارہے ہیں اس کا آغاز کسی اسلامی یا برادر ملک کے بجائے جرمنی میں ہوا اور یہ 2010 کی بات تھی۔ افغان طالبان کے بانی مرحوم ملا محمد عمر سیاسی کمیشن میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔
اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے عسکری کاروائیوں سمیت دیگر تمام کمیشنز کے معاملات ان کے نائبین یا شوریٰ دیکھ سکتی تھی مگر سیاسی کمیشن کی ہر چھوٹی بڑی ملاقات یا کچھ بھی طلبہ کے مرحوم سربراہ براہ راست دیکھا کرتے تھے۔ اس کمیشن کی سربراہی انہوں نے اپنے معتمد خاص طیب آغا کو سونپی ۔
یادش بخیر یہ وہی طیب آغا ہیں جو طالبان کے گزرے دور اور اتحادی افواج کے حملوں کے ابتدائی ایام میں میڈیا کے سامنے تسلسل سے آتے رہے جب مذاکرات کے ابتدائی خدوخال طے ہونے جارہے تھے ۔ تو طالبان کے بانی قائد ملا صاحب نے سیاسی دفتر قائم کرنے کے حوالے سے جو بعض ہدایات جاری کیں ان کے مطابق دفتر ایسے ملک میں بننا تھا جو افغانستان کا پڑوسی ہو نا ہی افغانستان کے لیے برے جذبات رکھتا ہو اور حالیہ جنگ میں براہ راست فریق بھی نا ہو یوں قرعہ خلیجی ریاست قطر کے نام نکلا ۔۔۔
اتحادی افواج کے حملوں کے بعد ملا صاحب قندھار سے ایک ساتھی کے ساتھ سراچہ گاڑی میں نکلے اور زابل پہنچے جہاں کے دو سے تین دیہاتوں میں بقیہ زندگی بسر کی ۔ اس سارے عرصے میں انہوں نے گھر والوں سے صرف ایک بار فون پہ بات کی اور وہ بھی قندھار چھوڑنے کے دو ماہ بعد اپنی موت تک فیملی سے ان کا رابطہ قاصدوں کے ذریعے رہا اور ملا کے بڑے بیٹے ملا یعقوب (جو کہ اب افغان طالبان کے سب سے مؤثر رہنما ہیں ) کے مطابق ہم گھر کے مسائل بھی انہی کی مشاورت سے حل کرتے ۔
ملاصاحب کے گھر والے اس دوران ان کے لیے نئے کپڑے بھی بھیجتے جو کہ میزبانوں کے مطابق لمبے کرتے ہوا کرتے کیونکہ یہ انہیں پسند تھے ۔ روپوشی کے دوران ان کا بیشتر وقت قرآن کی تفاسیر ، احادیث اور فقہی کتب کے مطالعے میں گزرتا جبکہ ریڈیو کے ذریعے وہ عالمی و ملکی حالات سے باخبر رہتے ۔
بہت بار ایسا بھی ہوتا کہ جس گھر میں مقیم تھے میزبانوں سے سبزی گوشت منگواتے اور پھر خود ہی اپنے مہمانوں کے لیے کھانا بناتے۔ افغان طالبان کے متعدد اہم جلاس تسلسل کے ساتھ اسی گھر میں ہوا کرتے ۔ میزبان کے مطابق عمومی طور پہ ان کی شہرت درشت روئیے کے حوالے سے معروف تھی مگر حقیقت میں وہ معتدل مزاج تھے ، البتہ گفتگو بہت کم کرتے اور اسی طرح تھوڑا کھانا کھاتے بسیار خوری یا فرمائشی کھانوں کا بالکل نہ کہتے۔ اس دوران ان کی واحد تفریح یہ ہوتی کہ گود کے بچے منگوا کر ان کے ساتھ کچھ دیر کھیلا کرتے ۔
زندگی کے آخری برس غور و فکر اور مراقبے کی کیفیت میں گزارے (ملا صاحب پہ غالباً ڈچ صحافی خاتون نے کتاب لکھی اور اس گھر کا بھی دورہ کیا جہاں وہ تھے اس نے اس کیفیت کی بابت لکھا کہ وہ سینٹ یعنی ولی ہوچکے تھے یا میزبان کہتے ) ملا صاحب جس گاؤں میں مقیم تھے وہاں متعدد بار امریکی افواج نے چھاپہ لگایا اور دو بار اس گھر کی بھی تلاشی ہوئی جہاں وہ مقیم تھے مگر وہ گرفت میں نہ آسکے ،
ایک روز مغرب بعد ان کا میزبان کھانا لے کر گیا تو اس نے محسوس کیا کہ ملا صاحب بیہوش ہیں ، ہلانے جلانے سے پتہ چلا کہ طبیعت بہت خراب ہے ۔ ایمرجنسی میں طبیب سے رابطہ ہوا جس نے دیکھ کر ٹی بی تشخیص کی مگر ساتھ ہی اسپتال منتقلی کا کہا ۔ تب میزبانوں نے باہم مشورے سے اسپتال لے جانے ، افغان طالبان کی باقی قیادت اور ان کی فیملی کو فوری آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ قاصد دوڑائے گئے اور اسپتال لے جانے کی تیاریاں تھیں کہ دنیا بھر کی افواج کے مقابل کھڑا ہونے والا شخص فرشتہ اجل کے سامنے ہار گیا ۔۔
بڑے بیٹے ملا یعقوب کو پھر بلایا گیا جس نے پھر باپ کے جسد خاکی کو دیکھا تاکہ اس معاملے بیٹے کی گواہی موجود ہو ، موت کی اطلاع موجودہ سربراہ اور سابق سربراہ سمیت محض دو تین لوگوں کو تھی اور مشورے سے اسے مخفی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ مذاکرات کے ڈول ڈالے جا چکے تھے اور قیادت نہیں چاہتی تھی کہ امریکیوں کو اس بابت کوئی اطلاع پہنچے۔
ملا صاحب کے میزبان کہتے ہیں کہ ملا صاحب نے اپنی آنکھوں سے یہ انخلاء تو نہیں دیکھا مگر اس کی تیاری اور منصوبہ انہوں نے زابل کے اس چھوٹے سے گاؤں کے ایک مٹی سے بنے کچے گھر میں تیار کیا جہاں کئی بار امریکی انہیں تلاش کرنے آئے اور گرد بھی نہ پاسکے۔
ایک تبصرہ برائے “کچی مٹی کا گھر ، جہاں سے دنیا کی 40 ممالک کی مشترکہ فوج کو شکست دی گئی”
ملا عمر کے بارے میں مذید تحاریر ضرور شائع کریں ۔۔ بلا شبہ وہ دور حاضر کی بہت حیران کن اور موثر ترین شخصیت تھے۔