قانتہ رابعہ :
ہر مسلمان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی لازم ہے ۔ عبادات ، معاملات ، خلوت جلوت ، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان کی حیات طیبہ کو رول ماڈل یعنی اسوہ حسنہ اور اسوہ کاملہ قرار دیاگیا ہے ۔ ایک مسلمان اپنی زندگی گزارنے کے لئے کہیں اور سے راہنمائی لے ہی نہیں سکتا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رول ماڈل ، حق تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو قرار دیا ۔ بہت سی احادیث اور حوالہ جات موجود ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت ہوں ۔ وہی دعا جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی تھی ۔ کیا خوبصورت اور قابل رشک منظر تھا کہ جس گھر کو محض ایک نظر ڈالنے پر ستائیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، جس گھر کی زیارت ہر مسلمان کے دل میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے ۔ اس گھر کی تعمیر کے وقت فخر ، نہیں سرشاری کی کیفیت ملتی ہے تو ایک ہی التجا کرتے ہیں
ربنا تقبل منا ،،اے ہمارے رب اس کام کو قبول فرما ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ جتنا جھکو گے اتنی ہی بلندی نصیب ہوگی تو اس کام سے فراغت کے بعد اس قوم یعنی اہل مکہ میں سے ایسے نبی کے طلب گار ہیں جو لوگوں کو کتاب الہی کی تعلیم دے ، تلاوت کرے اور ان کا تزکیہ کرے
گویا تزکیہ نفس بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہے اور یہ تزکیہ نفس کسے کہتے ہیں؟ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ اتنا اہم ٹاسک جو ہزاروں سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں پورا کرنا ہے اس کی کیا اہمیت ہے؟؟؟؟
مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے تزکیہ نفس کو واضح طور پر رسول اللہ کی بعثت کا مقصد قرار دیا تو ہمیں پیدا ہوتے ہی اس کے لیے تیار کیوں نہیں کیا جاتا ۔۔ہمیں تزکیہ نفس کا صحیح شعور کیوں نہیں دیا جاتا اور یہ محض رٹے رٹائے الفاظ یا دروس کی حد تک کیوں ہے؟؟؟!
حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ نفس اس کائنات کا سب سے مشکل کام ہے ۔ انسان کی عبادات اور معاملات ہر سطح پر اس کے بغیر ناقابل قبول ہیں ۔ سورہ والشمس میں لگاتار اللہ رب العزت سات قسمیں کھانے کے بعد کیا فرماتے ہیں
قد افلح من تزکھا،،۔۔کامیاب بس وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرنا جانتا ہے
پھر کیا وجہ ہے کہ ہم تزکیہ نفس کے اصل مفہوم تک کو نہیں جانتے ۔ آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے تزکیہ نفس پر استاد محترم خلیل الرحمٰن چشتی صاحب کی معرکہ الآرا کتاب کا مطالعہ کیا ہے ؟؟ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہم تو تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ دل کی صفائی تو مشکل چیز نہیں گناہوں پر نادم ہوں دل کی نچلی تہہ سے ندامت کا آنسو آنکھوں کے راستے لائیے دل کی صفائی ہو گئی۔
کلا بل ران قلوبھم ۔۔۔بلکہ ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور زنگ ندامت کا ایک آنسو بھی دھو سکتا ہے جبکہ تزکیہ نفس مسلسل اور مستقل مشقت طلب کام ہے ۔ اس کے لیے اپنی زندگی کا جائزہ ، اپنے اعمال کا محاسبہ اور بہتری کے لیے دن رات الرٹ رہنا پڑتا ہے ۔ اس کے لیے محض ندامت کے آنسو کافی نہیں ، مسلسل چیک کرنا پڑتا ہے۔ جن باتوں پر دنیا میں دل لگتا ہے ۔ اپنے گناہوں پر تاویلیں ڈھونڈنے ، دوسروں کے عیبوں پر نظر کی بجائے صرف نظر کرنا پڑتا ہے ۔ نیکی کے اصل مفہوم تک پہنچنا پڑتا ہے ۔ گناہ کی چھوٹائی یا بڑائی نہیں سرے سے گناہ سے دوری رکھنا لازم ہوجاتا ہے اور ہم نےان پر گناہوں سے کراہت کفر سے نفرت اور نافرمانی کو ناپسندیدہ کردیا
یہی طریقہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تھا ۔ سب سے پہلے تزکیہ ہوا تو شرک سے نفرت ہوئی ۔ تزکیہ ہوا تو حق کی خاطر آتش نمرود میں کود پڑے ۔ ایسے ہی اللہ رب العزت نے انہیں قرآن مجید میں امت قرار نہیں دیا
بھلا ایک بندہ امت( نیشن ) کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟ جب تزکیہ ہوجائے تو وہ انسان اکیلا نہیں رہتا ، اللہ رب العزت کی تمام قوتیں اس کے ہمراہ ہوتی ہیں وہ انسان ہوتے ہوئے اس زمیں پر قدم رکھتا ہے مگر اس کے قدموں کو تا قیامت مقام ابراہیم کی شکل میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
بات تو صرف اپنے تزکیہ کی ہے جو بدقسمتی سے دوسروں کے محاسبہ میں ہی بدل جاتا ہے ۔ قرآن کھولیے ، جن چیزوں سے یہ تزکیہ حاصل ہوتا ہے انھیں نشان زد کرتے جائیے تھوڑی سی پلاننگ اس کے حصول کے لیے کرہں ان شاءاللہ آج بھی تمام حسنات آپ کے مقدر میں اسان ہوجائیں گی ۔ ابراہیم علیہ السلام کی صبر ،شکر ، سچائی کی تمام صفات کا حصول سہل ہوجائے گا ان شاءاللہ۔
2 پر “سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور تزکیہ نفس” جوابات
واقعی تز کیہ نفس بہت کٹھن ہے۔۔۔
. .Great work Anti & keep it up