عظمیٰ پروین
سیاسی منظرنامہ: پاکستان تحریک انصاف،نواز لیگ اورپیپلز پارٹی عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ عوام کی خبرگیری اور نگرانی دراصل ان کے مقاصد میں شامل ہی نہیں۔یہ صرف بڑائی ، عیاشی اور پروٹوکول کے متلاشی ہیں۔ انسان کا عمل ہی اس کے اندرون کی عکاسی کرتاہے اور ان پارٹیز کی کارکردگی سےتو ہر صاحب نظر اسی افسوسناک نتیجے پر پہنچ سکتاہے۔
ٹی وی ٹاک شوز اور اسمبلیوں میں ان جماعتوں کے افراد ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روا دار نہیں۔ ایک دوسرے کو جلی کٹی سنانا اور کاٹ کھانے کو دوڑنا ان سب کا روزانہ کامعمول بن چکا ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران جو گالی گلوچ اور ہاتھا پائی ہوچکی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان سب باہم متحارب گروہوں میں صرف ایک ہی قدرمشترک ہے اور وہ ہے دین بے زاری۔
حزب اختلاف کے مختلف گروہوں نے حزب اقتدار کے خلاف متحدہ محاذ تیار کیا لیکن یہ متحدہ محاذ بھی زیادہ دیر نہ ٹھیر سکا۔ دراصل ان میں سے ہر کوئی تو اپنی لیڈری کی دکان چمکانا چاہتا ہے ، اپنا چراغ جلانا چاہتا ہے ، خود سب سے نمایاں مقام کا طلب گار ہے تو یہ کیسے کندھے سے کندھا ملا کر ایک ساتھ چل پائیں گے ۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ اکٹھا چلنا تو بہت دور کی بات یہ اپنے ہی ساتھیوں کو اپنے راستے سے ہٹانے میں نہایت بےدردی سے کام لیتے ہیں۔
جب انھیں اپنے کسی ساتھی کی شہرت یا عوامی مقبولیت کا ذرا سا شبہ بھی ہو جائے تو اسے دیوار سے لگانے میں انہیں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا چاہے اس کی کارکردگی کتنی ہی قابل قدر کیوں نہ ہو۔ امین فہیم کے ساتھ جو پیپلز پارٹی نے کیا ، جاویدہاشمی اور چوھدری نثار کو نوازلیگ نے جس طرح آئوٹ کیا ، یہ سب حقائق ہمارے سامنے ان جماعتوں کے حقیقی چہرے کو نمایاں کرنے کےلیے بالکل کافی ہیں۔
ہمارے حکمران بیرونی طاقتوں سے بھاری شرح سود پر قرضے حاصل کرتے ہیں۔ اس حرام آمدنی کے ساتھ مال مفت دل بے رحم کا سا معاملہ کیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کی عنایتوں کے سہارے ہمارا حکمران طبقہ عیاشیاں کر رہا ہے ، لازمی امر ہے کہ مرضی بھی انہی کی چلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا یہود و ہنود کے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ نظام تعلیم سے اسلامی تعلیمات کا خاتمہ کیا جا چکا ہے ۔ چند ٹکوں کے عوض آنے والی نسلوں کے ایمان ویقین کا سودا کر لیا گیا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے ۔ بھوکے مزدور بھاری بلوں کے چنگل میں پھنس کر راتوں کی نیند بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ لیکن ہمارے جھوٹے اور بےحس حکمران اپنی اعلیٰ کارکردگی کے بیانات دیتے نہیں تھکتے۔ ان کی نگاہ میں معیشت بالکل درست سمت پر گامزن ہو چکی ہے۔
امید کی کرن: دجل وفریب ، مایوسی اور بےحسی کے اندھیروں میں امید کی ایک کرن آج بھی روشن ہے۔ یہ کرن اپنے لیے روشنی اور حرارت اس سراج منیر سے حاصل کر رہی ہے جس کو چودہ سو سال پہلے رب کائنات نے پورے عالم کی تاریکیاں ختم کرنے کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ یہ امید کی کرن جماعت اسلامی ہے جومیدان سعی وعمل میں آج بھی اپنے حصےکاکام کر رہی ہے۔
ہمارے ساتھ ہمیشہ سردمہری برتی گئی ، اسمبلیوں میں ہماری پکار کو بے وقعت اور ناقابل التفات سمجھا گیا ۔ دجالی میڈیا کی ساری ہمدردیاں ہماری مقابل جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہم الحمدللہ الله ورسول کی محبت دل میں بسائے ، قرآن کی شمع ہاتھ میں لیے اپنے مشن کی طرف گامزن ہیں۔ ہمارے دامن پر کرپشن اور بد عنوانی کا کوئی دھبہ نہیں۔ امت کے مظلوم طبقوں کی حمایت ، مستحق مسلمانوں کی خدمت ، دین کی دعوت اور اسلام کی سربلندی کے لیے ہم ہرممکن جدوجہد کررہے ہیں۔ انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہم سیاسی محاذ پر آئے ۔ دین کی تکمیل کے لیےاس راہ کو اپنانا لازمی ہے۔
تلخ حقیقت: وطن عزیز میں پائی جانے والی اکثر سیاسی جماعتیں فقط مفاد پرست اور عیاش جماعتیں بن چکی ہیں۔ چند خاندان اور چند طبقات ملک و قوم کے پیسے کو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ ملک اسی افسر شاہی نظام کی بدولت سودی قرضوں کی لعنت میں بری طرح گرفتار ہوچکا ہے۔
اس سود کی ادائیگی کے لیے ہمارے محنت کش طبقے سے اس کے خون پسینے کی کمائی مختلف بلوں اور اشیائے خور و نوش کی ہوش ربا گرانی کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔ ان سیاسی بونوں کو عوامی مسائل سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ شہرت اور پروٹوکول کے عادی ہو چکے ہیں جو انہیں بغیر کسی محنت کے بس قوم کے دین و ایمان خراب کرنے کے عوض مل جاتے ہیں۔
وطن عزیز کے باشندے انھی فاسق وظالم گروہوں کے ہاتھوں بدترین حالات سے دوچار ہوچکے ہیں۔لیکن پھر دجالی میڈیا اور گمراہ لیڈروں کے پر فریب دعووں سے دھوکا کھا کر دوبارہ انہی کو ووٹ دے کر اپنے ہاتھوں اپنی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سامان کرلیتے ہیں۔
تبدیلی کی راہ: اگر پاکستانی قوم اپنے حالات کو بدلنے میں سنجیدہ ہے تو انھیں اپنے انتخاب کو بدل دینا ہوگا۔ سیاسی لٹیروں کی بجائے جماعت اسلامی کے دامن سے وابستہ ہوکر ہی ہم نہ ختم ہونے والے سنگین مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ جب بارہا فاسق و ظالم طبقےکو آزما کر ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں تو ایک دفعہ جماعت اسلامی کی پاکیزہ سیرت و کردار رکھنے والی قیادت کو موقع کیوں نہ دیں۔ قدم بڑھائیں اللہ آپ کو توفیق دے۔