فِلا فطین
سی جوائے بیل سی کی ایک نظم ہے. جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ زندگی میں موجود ہر چیز کا دایاں اور بایاں پنکھ ہوتا ہے. ایک پنکھ فطرت کے اعتبار سے دوسرے کے بالکل الٹ ہوتا ہے. ایک مثبت ہے تو دوسرا منفی. لیکن کچھ لوگ زندگی میں صرف مثبت چیزوں کو دیکھتے ہیں اور منفی کو بھول جاتے ہیں. اور اس طرح سے انہوں نے ایک پنکھ پر اڑنے والی معذور نسلِ انسانی بنا دی ہوئی ہے.
مجھے یہ نظم پڑھ کر آج کل سوشل میڈیا کے حالات یاد آئے. ہم لوگوں نے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے اخلاقیات نبھانے کے چکر میں خود کو اتنا ڈی گریڈ اور لو سیلف اسٹیم کا شکار کر لیا ہے کہ کوئی بیچ چوراہے میں آپ کی عزت افزائی کر کے چلا جائے، اگلا بندہ اس لئے خاموش رہے گا کہ اگر میں اسے جواب دوں گا تو لوگ کیا کہیں گے. جن لوگوں نے اسے کچھ نہیں کہا، وہ آپ کو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے. بے فکر رہیں.
کبھی سوچا ہے کہ ہم فیس بُک کیوں استعمال کرتے ہیں؟
میرے نزدیک شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو فیس بک کو مجبوری میں استعمال کر رہا ہو یا اس سے پیسے کماتا ہو. ہم مجموعی طور پر فیس بک کو وقت گزاری اور زندگی کی مشکلات میں سے کچھ پل سکون کے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں. کچھ لوگوں کے لیے "لکھنا” ان کا کتھارسس ہوتا ہے. کچھ لوگ میمز اور ویڈیوز شئیر کر کے مطمئن ہوجاتے ہیں.
کچھ لوگ اپنی تصویریں وغیرہ لگا کر اچھا محسوس کرتے ہیں. اور باقی کے لوگ ان سب کو دیکھ کر ہی ریلیکس ہوجاتے ہیں.فیس بُک پر اپنی یہ پرسکون زندگی برقرار رکھنے میں کچھ چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں جسے ہم لوگ مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور بعد میں بیٹھ کر اپنی جھنجلاہٹ کا حل ڈھونڈتے رہتے ہیں.
فیس بک پر اپنی پرسنل سپیس بنائے رکھیں. اپنے قریبی دوستوں کے علاوہ کسی کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے ساتھ لایعنی اور فضول گفتگو کرے. آپ نے سٹیٹس لگایا ہے. اس پہ کوئی شخص بلاوجہ سینٹی ہو رہا ہے، الٹے سیدھے کمنٹس کر رہا ہے تو اس کے کمنٹس ڈیلیٹ کر دیں. باز نہیں آئے تو انفرینڈ یا بلاک کر دیں. ایسا کرنے سے نہ تو آپ متکبر بن جاتے ہیں. نہ ہی وہ مظلوم. آپ کو وہی کرنا چاہیے جو آپ کی ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے.
اس کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جنہیں بلاوجہ ہر چیز کا مذاق بنانے کی عادت ہوتی ہے. اچھی خاصی سنجیدہ تحریر پر ہاہا کا ری ایکشن دے دیں گے. سکون نہیں ملے گا تو کوئی ایسا کمنٹ کر دیں گے جس کا نہ سر ہوگا نہ پیر. ایسے لوگ میرے نزدیک صرف جذباتی پختگی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں. اگر آپ سنجیدہ لکھاری ہیں تو ایسے لوگوں کو فی الفور انفرینڈ کر دیں ورنہ یہ اپنے لایعنی چٹکلوں سے صرف آپ کی بات کا اثر ختم کرنے کے ہی کام آئیں گے.
اس کے بعد آتے ہیں بلاوجہ فرینک ہو جانے والے لوگ. جان نہ پہچان سلام خالہ جان والی بات پر پورا اترنے والے لوگ. انہیں آپ ایک دن ایڈ کریں گے، اگلے دن آپ کو کمنٹس میں "تم اور تو” کہہ کر مخاطب کرنے لگیں گے. میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو سیکنڈز کے اندر انفرینڈ کر دیتی ہوں. ان لوگوں کو اول تو انتہائی دو ٹوک قسم کا ردعمل دے کر انہیں محتاط کریں. لیکن اگر وہ پھر بھی باز نہیں آتے تو انہیں بھی دوستی کے دائرے سے نکال دیں. کیونکہ جسے اپنی حیثیت کا نہیں پتا، وہ آپ کی حیثیت بھی کبھی نہیں مانے گا. جلد یا بدیر ایسے لوگ شدید قسم کے حسد کا شکار ہو کر آپ کے خلاف محاذ کھڑا کر لیتے ہیں.
صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنے دوستوں کی بھی عزت کا خیال رکھیں. کمنٹس میں کوئی بحث شروع ہونے پر آپکے دو فیس بک فرینڈز آپس میں الجھ رہے ہیں تو گونگے کا گڑ مت کھا لیا کریں. زیادتی کرنے والے کو تنبیہ کریں اور درست بات کرنے والے کا ساتھ دیں. یہ نیوٹرل رہنے کے چکروں میں آپ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں. لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کی اپنی کوئی رائے نہیں. اسے جو بھی کہہ لیا جائے خیر ہے
اور یہ ساری باتیں جو اوپر میں نے لکھی ہیں، خود بھی یہ کرنے سے باز رہیں. اگر آپ بڑے سوشل قسم کے انسان ہیں اور آپ کو ہر بات میں مذاق سوجھتا ہے تو ضروری نہیں کہ اگلا بندہ بھی ایسا ہو. اگر کبھی ایسی کوئی غلطی ہو جائے اور آپ کو انفرینڈ کر دیا جائے تو بجائے برا ماننے کے ایک دفعہ اس شخص سے بات کر لیں. معذرت بنتی ہے تو معذرت کر لیں اور آئندہ کے لیے محتاط رہیں. اپنے سے زیادہ علم والوں کی عزت کریں. ان سے خار مت کھایا کریں. فیس بک پہ وہ پوسٹ کریں جو دل چاہتا ہے، اور صرف انہی لوگوں کو ایڈ کریں جن سے مزاج ملتا ہے.
اور آخر میں بس یہ بات کہ یہ فیس بُک ہے. اسے اپنی زندگی نہ بنائیں. مروت اور رواداری صرف وہاں دکھائیں جہاں کوئی فائدہ بھی لگے. اپنی ذہنی صحت کو ہمیشہ پہلے نمبر پر رکھیں. جو چیز یا جو شخص ذہن کو الجھا رہا ہے، اسے اپنی اس سماجی زندگی سے نکال باہر کریں. خوش باش رہیں. لوگوں کے پیچھے دماغ مت کھپایا کریں.
اللہ سب کو مطمئن اور پرسکون زندگی نصیب فرمائے.