ڈاکٹر خولہ علوی
"میں نے بیٹا ضَرور کھویا ہے، حَیا نہیں کھوئی۔” حضرت ام خلاد رضی الله عنہا نے یہ تاریخی الفاظ اپنے بیٹے کی شہادت کے موقع پر کہے۔ ان غیرت مند صحابیہ نے بیٹے کی ابدی جدائی کی پریشان کن اور افسوسناک خبر سن کر بھی، اس غم و الم کے موقع پر بھی، اپنی شرم و حیا اور پردے کا اتنا زیادہ خیال رکھا کہ رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے مثال بن گیا۔ پوری حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے۔
حضرت قیس بن شماس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ
”ام خلاد رضی اللہ عنہا نامی ایک صحابیہ اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہوئیں۔ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئی تھیں۔
انہیں اس حالت میں دیکھ کر ایک صحابی نے کہا "اپنے (شہید) بیٹے کی حالت معلوم کرنے آئی ہو اور چہرے پر نقاب ہے؟ (یعنی اتنی پریشانی کے باوجود بھی پردے کا اس قدر اہتمام ہے۔”)
حضرت ام خلاد رضی الله عنہا نے جواب دیا کہ "جی ہاں! بیٹے کی شہادت کی مصیبت میں مبتلا ہوگئی ہوں، لیکن اس کی وجہ سے شرم وحیا ترک کرکے (دینی) معصیت زدہ نہیں بنوں گی۔”
اور نبی اکرم ﷺ نے بیٹے کے بارے میں انہیں خوش خبری سنائی کہ” تمہارے بیٹے کو دو اجر ملیں گے۔”
وجہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا” اس لیے کہ ان کو اہل کتاب نے شہید کیا ہے۔” (سنن ابوداؤد:2488)
سبحان اللہ!
اس نازک موقع پر حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا نے کیا خوب کردار ادا کیا!
شرم و حیا کی کیسی اعلیٰ و ارفع مثال قائم کی جس کی نظیر ملنی محال ہے!
کیسے بامعنی اور خوبصورت الفاظ ادا کیے جو اللہ تعالیٰ کی رضا پر رضامند رہنے کا اظہار کرتے ہیں!
حقیقت یہ ہے کہ کوئی غیرت مند خاتون اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ شرم و حیا کی چادر اتار کر مردوں کے سامنے بے حجاب آجائے۔ خواہ خوشی کے مواقع ہوں یا غم و الم کے، شرم و حیا کا پورا اہتمام کرنا ہی کمال ہے۔ بلکہ ان مواقع پر پردے کا اہتمام کرنا ہی تو انسان کی دینی تربیت کو صحیح طرح ظاہر کرتا ہے۔
غیور مرد بھی اپنی خواتین کا بے پردہ یا بے حیا ہونا برداشت نہیں کرتے۔
پردہ و حجاب اسلامی شعار ، ہماری تہذیب اور عورت کا وقار ہے۔ قرآن وحدیث کی رو سے مسلمان خواتین کے لیے پردے کا اہتمام کرنا ایسے ہی فرض عین ہے، جیسے دیگر عبادات۔ جب احکامِ ستر و حجاب نازل ہوئے تو اس وقت بلا جھجک، بغیر کسی ردو کد کے کائنات کی بہترین خواتین نے کائنات کے بہترین مردوں سے بلا تاخیر پردے کا اہتمام کرنا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ صحابیات نے باذن اللہ ہمارے پیارے پیغمبر اکرم ﷺ سے بھی مکمل پردہ کیا۔
سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں اللہ ربّ العزت نے احکام ستر و حجاب واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہونے میں دین ودنیا کی کامیابی ہے۔
اللہ رب العزت نے پہلے مردوں کو غض بصر یعنی نظر جھکا کر رکھنے کا حکم دیا۔ پھر خواتین کو بھی غض بصر کا حکم دیا، پھر تفصیلی طور پر احکام ستر و حجاب بیان کیے۔
ہر بالغ مسلمان لڑکی اور عورت پر بلا تفریق پردہ کرنا فرض ہے۔ پورے بدن کے علاوہ چہرے کا پردہ بھی ضروری ہے۔ آواز کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگھار کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت فیشن اور آزادی کے نام پر آزاد خیال اور بے حیا خواتین کی طرح غیر محرم رشتہ داروں اور اجنبیوں یا غیروں کو اپنا حسن اور فیشن دکھاتی پھرے۔ اسی لیے اسلامی معاشرے میں مخلوط مجلسوں اور مرد و زن کے آزادانہ میل جول پر مکمل پابندی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو غیر محرم مردوں سے بوقت ضرورت پردے کے ساتھ بات کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ نرم و ملائم، لچکدار اور مترنم لہجہ اختیار نہ کریں اور معروف طریقے سے نارمل انداز میں بات کریں تاکہ کسی غیر مرد کے دل میں کوئی غلط خیال، معاملہ یا کوئی قلبی مرض پیدا نہ ہو۔ (سورۃ الاحزاب: 32, 33)
عورت کو سیدھی اور صاف بات کرنے کے حکم سے اسلام کا مقصود یہ ہے کہ معاشرے کا ماحول بالکل پاکیزہ اور صاف شفاف رہے اور اخلاقی کمزوریوں سے انسانوں کو بچایا جا سکے۔
سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے محرم رشتہ داروں کی فہرست بیان کر دی ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔
باپ، بھائی، بیٹے، بھانجے، بھتیجے، چچا، ماموں،
شوہر، سسر، داماد
ان محرم مرد رشتہ داروں کے سامنے عورت بغیر پردے کے آسکتی ہے اور ان کے سامنے اپنی آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگھار بھی کسی حد تک ظاہر کر سکتی ہے۔ ان کے علاوہ عورت کے لیے باقی مرد رشتہ دار غیر محرم ہیں۔ (سورۃ النور: 31 )
لڑکیوں اور خواتین کے لیے جس طرح اجنبی مردوں سے پردہ کرنا فرض ہے، اسی طرح ان غیر محرم رشتہ داروں سے پردہ کرنا بھی فرض ہے جن کی فہرست یہ ہے:
چچازاد، پھوپی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنوئی، پھوپھا، خالو،
دیور، جیٹھ، نندوئی، ، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو۔
شوہر کے چچا، ماموں، بھائی، بہنوئی، کزنز، بھانجے، بھتیجے وغیرہ بیوی کے غیر محرم ہوتے ہیں اور اس پر ان سب سے پردہ کرنا فرض ہے۔ اور اس معاملے میں مردوں کو بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر مرد بیویوں کو کہتے ہیں کہ "تم باقی سب سے پردہ کرلو لیکن میرے بھائیوں، بہنوئیوں اور چچاؤں اور ماموؤں سے پردہ نہیں کرنا۔”
اس کے علاوہ عورتیں عموماً خود شوہر کے بھانجوں بھتیجوں سے پردہ کرنے میں احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ تو چھوٹے ہیں۔ لیکن ان سے پردہ کرنا بھی فرض ہے۔
یہ شرعی احکامات عورت کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ قیمتی موتیوں کی طرح حفاظت کی گئی ان عورتوں کی نسوانیت محفوظ رہتی ہے ، ان کی عزت و آبرو اور عفت و پاک دامنی کا جوہر میلا نہیں ہوتا اور دنیا و آخرت میں وہ بہت زیادہ اجر و ثواب کی حق دار ہونگی۔
معاشرے کے علاوہ گھریلو اور خاندانی زندگی میں عورت کی عزت احکام ستر و حجاب پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے میں ہے ۔ غیر محرم رشتہ داروں سے پردہ کرنا عورت کے لیے بہت سے عائلی اور خاندانی مسائل کا حل اور عزت و احترام کا باعث ہے۔
خواتین کے لیے پردہ کا حکم ان کے اپنے تحفظ، دفاع، اور فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتایا ہے کہ "یہ ( خواتین اسلام کے لیے ) اس لیے ( حکم ) ہے کہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پردے سے پہچان لی جائیں اور تنگ نہ کی جائیں۔”(سورۃ الاحزاب:59)
پردے سے لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ معزز مسلمان خواتین ہیں، لونڈیاں نہیں اور نہ ہی یہ حیا باختہ عورتیں ہیں۔
پردہ عورت کا مقام و مرتبہ بلند کرتا ہے۔ عورتوں کے محرموں کو بھی اپنی زیر نگرانی خواتین کے شرعی پردہ کا خیال رکھنا چاہیے اور خصوصاً شوہر کو بیوی کو اپنے بھائیوں، بہنوئیوں اور کزنوں اور دیگر مردوں وغیرہ سے شرعی پردہ کروانا چاہیے۔
ایک غیرت ایمانی رکھنے والی بہن بیٹی کبھی بے پردگی اور بے حیائی کو پسند نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کا خیال رکھتی ہے۔ وہ جان تو دے سکتی ہے، لیکن پردے کے حکم پر عمل پیرا ہونا نہیں چھوڑ سکتی۔
ہمارے روایتی مشترکہ خاندانی نظام ( جوائنٹ فیملی سسٹم ) میں شرعی پردہ کرنے والی خواتین کے لیے بہت سے گھمبیر مسائل ہوتے ہیں۔ تاہم اگر مرد و زن دونوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو اور دونوں شریعت کے اس حکم کو بجا لانا چاہتے ہوں تو پھر پردہ پر عمل درآمد میں زیادہ مسائل نہیں بنتے۔
خود بے پردہ عورت کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں عزت اور تقویٰ کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ گلی کوچوں میں بےکار کھڑے مرد شیطان کے ورغلانے سے ان عورتوں کی تانک جھانک ، چھیڑ چھاڑ اور انھیں تنگ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا:
"عورت گویا ستر ( چھپی ہوئی ) ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔”
اس اہم شرعی حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے خود لڑکی یا عورت کے لیے بھی بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرہ پر بھی بہت منفی، اور غیر مناسب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حیا ایمان کا تقاضا اور لازمی حصہ ہے۔ شرعی احکامات کے مطابق مرد میں بھی شرم و حیا اتنی ہی ضروری ہے جتنی عورت میں۔
عورت کے لیے حیا و حجاب کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بلکہ عورت تو حیا کا محور اور شرم کا پیکر ہوتی ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا خاتم النبیین ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا حاضر خدمت ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ "تم ( دونوں ) ان سے پردہ کرو۔” ہم نے عرض کیا: "یارسول ﷲ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا "کیا تم (دونوں) بھی نابینا ہو؟ کیا تم ( دونوں ) انہیں نہیں دیکھتیں؟”
اگر دنیا کے سب مرد اپنی نظریں جھکا کر رکھیں، پھر بھی خواتین کو اللہ تعالیٰ کو اپنے پردے کا حساب دینا ہوگا۔
بنت رسول ﷺ ، خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا "میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھانا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے.”
تہذیبوں کی موجودہ کشمکش میں مغرب کا خصوصی ہدف عورت اور نوجوان طبقہ ہے۔ اسلام کے مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام کو توڑنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عورت کا دن بدن مختصر ہوتا لباس، فیشن اور میک اپ انڈسٹری ، اسٹائل ، فیشن ، حسن وجمال اور آرٹ اور کلچر کے نام پر عورت کو اسلام مخالف تہذیب کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
یہ تہذیبی جنگ ہر جگہ، ہر وقت اور ہر لحاظ سے جاری ہے۔ گھر ، سکول ، کالجز ، یونی ورسٹیاں ، دکانوں ، شاپنگ مالز ، دفاتر ، ہسپتالوں ، بس اڈوں ، ٹرین سٹیشنوں ، ایئرپورٹس ، بلکہ گلی کوچوں میں جاری ہے۔
بلاشبہ عورت کی بےپردگی ، اس کا فیشن اور اس کا مختصر لباس معاشرے میں بے شمار نقصانات کا سبب بنتا ہے۔
یاد رکھیں!
احکام شرم و حیا اور احکام ستر و حجاب پر عمل حکم ربی ہے، سنت نبوی ہے۔ بقائے انسانی ہے!!!
یہ ازواج مطہرات، امہات المومنین ، بنات رسول ﷺ، صحابیات اور صالحات کا تا قیامت دستور العمل ہے!!!
یہ باپ، بھائیوں اور شوہر کا اعتماد اور فخر و مان ہے!!!
یہ خواتین کی شان ہے ،آن ہے ، بان ہے، مان ہے، زیور ہے!!!
ان کی عزت و تکریم ہے۔ شرم و حیا ہے، دوام و بقاء ہے، اور ایمان و ایقان کا اظہار ہے!!!
تہذیبی جنگ کی اس کامیابی کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی بہت ۔۔۔ زیادہ محنت و مشقت کرنا ہوگی اور شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کے کلچر کو عام کرنا ہوگا۔
اگر خواتین اسلام نے احکام ستر و حجاب پر عمل پیرا ہونے میں استقامت اختیار کی ، اسلامی تہذیب کے غلبے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تو معاشرے میں جلد بہتری اور تبدیلی آئے گی۔ اور مغربی ایجنڈا ناکام رہے گا۔ ان شاءاللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔